آج کی بات
کابل انتظامیہ نے جھوٹے دعووں کے سلسلے میں دعوی کیا ہے کہ گزشتہ ہفتہ پچھلے 19 سالوں میں سب سے خونریز تھا، طالبان نے کئی حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے سیکڑوں اہل کاروں کو ہلاک کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ہفتے مجاہدین نے نیویارک اور واشنگٹن کی حفاظت کرنے والے کرائے کے فوجیوں پر اتنے حملے نہیں کیے جیسا کہ کابل انتظامیہ کی نام نہاد سلامتی کونسل نے دعوی کیا ہے۔ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں افغان فورسز کی جارحانہ کاروائیوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ صوبہ جوزجان کے علاقے اقچہ میں افغان فورسز نے 150 ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی مدد سے مجاہدین کے مورچوں پر حملہ کیا لیکن مجاہدین کی جوابی کارروائی میں دشمن کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے پسپائی اختیار کی۔ اسی طرح ہلمند کے ضلع گرشک اور کاپیسا کے ضلع تگاب میں بھی دشمن نے فوجی آپریشن کا آغاز کیا لیکن مجاہدین کی جوابی کارروائی میں دشمن کے درجنوں کمانڈوز ہلاک اور زخمی ہوئے۔
کابل انتظامیہ نے حملوں کے جتنے اعداد وشمار جاری کیے ہیں مجاہدین نے پچھلے ہفتہ میں اتنے زیادہ حملے نہیں کیے اور نہ ہی کسی میڈیا میں اتنے حملوں کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے الزامات لگانے سے کابل انتظامیہ کا مقصد کیا ہے؟
کابل انتظامیہ جنگی گراف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتی ہے اور اس کے ذریعہ قیدیوں کی رہائی کے عمل میں خلل ڈالنا چاہتی ہے، تاکہ بین الافغان مذاکرات تعطل کا شکار رہے، بین الافغان مذاکرات میں جتنی تاخیر اور رکاوٹیں پیش آتیی ہیں، اسی اندازے سے امن کا عمل درہم برہم ہوتا ہے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔
اب یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ غنی کی زیرقیادت کابل انتظامیہ امن نہیں چاہتی، جنگ کو جاری رکھنے اور اقتدار کی خواہش کو جنگ کی آگ میں پورا کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے کوشش کرتی ہے۔ کابل انتظامیہ جنگ کی شدت کو کم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، مثلا اس نے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کیا، رہائشی علاقوں ، مساجد ، اسکولوں اور کلینکوں پر فضائی حملے کیے، مذہبی رہنماوں اور امن کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا، جنازوں اور مساجد میں دھماکے کئے اور جنگ کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ تیز کر دیا۔
امن معاہدے سے قبل امارت اسلامیہ کے مجاہدین جتنے حملے کرتے تھے، تو ان کی خبریں اور اعداد و شمار بھی شائع کرتے تھے، جب کہ کابل حکام فوری طور ان کی تردید کرتے تھے۔ لیکن اب امارت اسلامیہ نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کی بنیاد پر اپنے حملے کم کر دیئے ہیں، عوام بھی اس کا مشاہدہ کیا ہے، کابل حکام نے جنگ کو عملی طور پر تیز کر دیا ہے اور امارت اسلامیہ کے خلاف سخت اور فحش زبان استعمال کرتے ہوئے میڈیا میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
امارت اسلامیہ وطن عزیز کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے پرعزم ہے، ہم ان عظیم مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، ہم ملک میں جاری تنازعات اور جنگ کے پرامن حل کے لئے پرعزم ہیں۔ جنگ اور امن میں مستحکم اور اعتدال پر مبنی موقف رکھتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ فریق مخالف بھی فریب، غلط فہمی اور سست روی سے دستبردار ہوکر اپنے وعدے پورا کریں۔