جھلک جب دِکھا دے مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمدﷺ نے ’’مدینہ مدینہ‘‘ میں فرمایا:۔
’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کروگے (مسلمانوں کا جو) امیر اسے فتح کرے گا وہ کیاہی اچھا امیر ہوگا اور وہ( فاتح) لشکر کیا ہی خو ب لشکر ہوگا۔‘‘(مسند احمد)۔
آقاﷺ کی یہ آواز مبارک’’ مدینہ مدینہ‘‘میں اس وقت گونجی جب ظاہری طور پر قسطنطنیہ کے فتح کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا…مگر جن کو شرح صدر نصیب ہوجائے تو وہ ضرور یقین کرتے ہیں اور دل میں بٹھا لیتے ہیں… بس اُسی دن سے حضرات صحابۂ کرام کی نظریں…اس عظیم الشان شہر پر…اسلامی پرچم لہرانے کے لئے بیتاب ہوگئیں، آپ قسطنطنیہ کی تاریخ پڑھیں، یہ شہر دنیا بھر کے شہروں میں بہت بلند مقام رکھتا تھا… کسی جغرافیہ دان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ساری دنیا ایک ملک بن جائے تو اس کے دارالحکومت کا مستحق… قسطنطنیہ شہر ہی ہوگا…یہ بات تو خیر درست نہیں …مکہ مکرمہ روئے زمین کا مرکز ہے اور مدینہ مدینہ روئے زمین کا دِل ہے…۔
اگر اس بات کی تفصیل میں جائوں تو اصل موضوع رہ جائے گا…مسلمانوں کے دل میں اپنے آقا محمد مدنیﷺ کے فرمان کا کتنا مقام ہے؟…اندازہ ان حملوں سے لگائیں جو مسلمانوں نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ میمون سے لیکر…عثمانی سلطان مرُادؒ کے زمانے تک قسطنطنیہ پرکئے…۴۴؁ھ میں حضرت سیدنا امیر معاویہؓ کا حملہ…۹۸؁ھ سلمان بن عبدالملک کا حملہ… ۱۹۰؁ھ ہارون الرشید کی یلغار، پانچویں صدی ہجری میں الپ ارسلان کے طوفانی حملے…اور پھر آٹھویں صدی ہجری میں سلطان بایزیدیلدرم کے حملے … اور پھر نویں صدی ہجری میں عثمانی سلطان مرُاد دوم کا محاصرہ…بہت عجیب داستان … حضرت آقامدنیﷺ کے نامعلوم کتنے پروانوں نے قسطنطنیہ کی فصیلوں کے نیچے آخری سانس لیا… اور معلوم نہیں کتنوں کی قبریں ان فصیلوں کے باہر …حضرت سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے پڑوس میں بنیں… مگر قسطنطنیہ فتح نہ ہوا… اتنی کوششوں اور بظاہر ناکامیوں کے باوجود…مسلمانوں کے دل کی روشنی اور جذبہ کم نہ ہوا…
مسلمان مائیں اپنی لوریوں میں یہ حدیث مبارک اپنے بچوں کے سینے میں منتقل کرتی رہیں… اور قسطنطنیہ کے آس پاس اُڑتے شہدائِ کرام کی خوشبو…مسلمانوں کو اس شہر کی طرف بلاتی رہی… اور پھر بالآخر تقریباً ساڑھے ۸ سو سال بعد وہ دن آگیا جس کے بارے میں آپﷺ نے مسلمانوں کو خوشخبری دی تھی…کہ تم ضرور بضرور قسطنطنیہ فتح کروگے…۔
نہیں ٹَلنے والے … نہیں مِٹنے والے
مدینہ کے دعوے … مدینہ کے وعدے
وہی ہو رہا ہے … وہی ہو رہے گا
جو فرما چکا ہے … مدینہ مدینہ
ایک ضروری بات
ابھی ان شاء اللہ قسطنطنیہ کی فتح کا قصہ مزید چلے گا… اہل علم کے نزدیک اس شہر کی فتح کے بارے میں… دوطرح کی احادیث مبارکہ آئی ہیں…۔
ایک تو وہ جو اوپر ذکر ہوئی ہے…اور دوسری وہ جو صحیح مسلم وغیرہ کتب میں ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ… قرب قیامت میں قسطنطنیہ فتح ہوگا… اور اس کے فوراً ساتھ’’دجال‘‘ کا ظہور ہوجائے گا…۔
کوشش کریں گے کہ آج کی مجلس میں یا آئندہ کبھی… اس پر بھی بات کی جائے کہ…قسطنطنیہ کی فتح… ایک بار ہے یا دو بار…پچھلے کالم میں… کفار کی اس ’’تدبیر‘‘ کے بتانے کا وعدہ کیا تھا جس کو بروئے کار لاکر…وہ مسلمانوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں…۔
اس پر بھی بات ہوگی ان شاء اللہ… مگر یہاں ایک ضروری بات عرض کرنی ہے… شرحِ صدر کسے کہتے ہیں؟…لفظی ترجمہ تو ہے، سینے کا کھلنا…مگر اس کی اصل مراد کیا ہے؟ سینہ تو بظاہر بند ہی رہتا ہے۔ اس کے کھلنے کا کیا مطلب ؟ …قرآن مجید نے جگہ جگہ ’’شرحِ صدر‘‘ کو بیان فرمایا ہے… مثلاً حضورِ اقدسﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم اِنعامات کا تذکرہ فرماتے ہوئے… اِرشاد فرمایا
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ
کیا ہم نے آپ کے لئے… آپ کا سینہ نہیں کھول دیا…
حضرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جب… فرعون کی طرف بھیجا جارہا تھا تو انہوں نے … اس مشکل اور عظیم کام کی آسانی کے لئے اللہ تعالیٰ سے جو اسباب مانگے اُن میں پہلا…یہی ’’شرحِ صدر‘‘ تھا…۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ
موسیٰ علیہ السلام نے کہا… اے میرے رب میرا سینہ کھول دیجئے۔
معلوم ہوا کہ… شرح صدر بہت ہی عظیم…اور بہت ہی طاقتور نعمت ہے… حضور اقدسﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت …بہت وافر عطا فرمائی…اور پھر ایمان والوں کے لئے خوشخبری دی کہ…۔
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ
اللہ تعالیٰ جس کو بھی’’ ہدایت ‘‘دینا چاہتے ہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں…۔
معلوم ہوا کہ…ہدایت بھی بغیر شرح صدر کے نہیں ملتی…یہ موضوع تو بہت مفصل ہے…مگر اسے آسانی کے ساتھ مختصر طور پر سمجھنے کے لئے سب سے پہلے … شرح صدر کے لغوی معنی دیکھیں…۔
لغت کی کتابوں میں لکھا ہے… کسی چیز کے لئے ’’شرح صدر‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ… وہ چیز اللہ تعالیٰ کسی کے لئے محبوب بنا دیں، مرغوب بنادیں…شرحِ صدر کا معنیٰ دِل کا مطمئن ہونا… دل کا خوش ہونا… یعنی جب ہم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کے لئے شرح صدر مانگتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ … یا اللہ! اس چیز کو مرے دل کی پسندبنا دیجئے…اسے میرے دِل کا شوق اور مرے دل کی محبت بنا دیجئے… اور اس پر میرے دل کو مطمئن ، خوش اور راضی فرمادیجئے…۔
مگر سوال یہ ہے کہ …یہ ہوگا کس طرح؟تو اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے ا سکے معنی سمجھا دئیے…۔
ان النور اذا دخل الصدر انفسح
نور جب کسی دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ دِل کھل جاتا ہے…۔
نور یعنی روشنی…پاور…بجلی…مثلاً آپ کے سامنے ایک موبائل فون رکھا ہے…یہ بند ہے تو… لوہے اور پلاسٹک کا ایک ٹکڑا ہے۔
آپ اس سے چمچے اور پلیٹ تک کاکام نہیں لے سکتے… پتھر کی طرح کسی کو اٹھا کر ماریں تو بھی ٹوٹ جاتاہے …لیکن جیسے ہی آپ نے اسے کھولا… یعنی اس میں پاور اور بجلی بٹن دبا کر جاری کردی تو اب یہ…ہزاروں میل دور تک کام کررہا ہے… ملکوں ملکوں آپ کی آواز پہنچا رہا ہے… دنیا بھر کی خبریں آپ کو دِکھا اور سنا رہا ہے…اور معلوم نہیں کیا کچھ کر رہا ہے…کیونکہ اب اس میں مجازی نور آگیا…بس یہی حال سینے کا ہے…دل کا ہے…بند پڑا ہے تو بس مکھیاں ماررہا ہے… چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھا پڑا ہے…لیکن جب اس میں حقیقی نور نے تجلی فرمائی…اللہ تعالیٰ نے اس میں نور، روشنی اور پاور عطاء فرمائی تو ا ب یہ …بہت کھل گیا…اب اس میں ہر چیز آسکتی ہے سما سکتی ہے…اب یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان رہا ہے…حضرت آقامدنیﷺ کو پہچان رہا ہے، دین اسلام کے ہر حکم کو…خوشی خوشی قبول کررہا ہے…حکمت کی ہر بات اسے سمجھ آرہی ہے… کیونکہ اب ’’شرح صدر ‘‘ ہوگیا… یہ بات ذہن میں آگئی تواب ایک اور مثال سمجھیں…کیا کوئی چیز کسی ظاہری اضافے کے بغیر بھی کھلی ہو سکتی ہے؟…ایک کمرہ ہے بیس فٹ کا… یہ تو اب اتنا ہی رہے گا؟ … اسے کھلا کرنا ہے تو اس کی دیواریں گرا کر اس کے ساتھ مزید زمین ملانی پڑے گی…تو سینہ کس طرح کھلے گا؟… کوئی اپنے سینے کو مزید بڑا نہیں کر سکتا… جواب یہ ہے کہ… بیس فٹ کے کمرے کو مزید زمین ملائے بغیر بھی کھلا کیا جا سکتا ہے… مثلا کسی نے آپ کو رہنے کے لئے ایک کمرہ دیا… آپ گئے تو آپ کو وہ تنگ محسوس ہوا… پھر آپ نے اس کی صفائی کی… جالے اتارے… جو زائد اور کچرا چیزیں وہاں رکھی تھیں ان کو نکال دیا تو اب… آپ کو وہ کمرہ کھلا لگ رہا ہے… یہی حال انسان کے سینے کا ہے… شیطان اس میں فضول گند اور کچرا بھرتا رہتا ہے…۔
اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ
قرآن مجید کی آخری سورت میں سمجھایا گیا کہ… دنیا میں ’’خناس‘‘ موجود ہیں… کچھ جنات اور کچھ انسان … یہ مسلمانوں کے دل میں وساوس کا کچرا بھرتے رہتے ہیں… موت کا خوف… بزدلی… مال کی محبت… گندے گندے عشق معشوقیاں … طرح طرح کے بے کار مشغلے… جب کسی دل میں یہ چیزیں بھر جائیں تو وہ دل اور سینہ… بلکہ وہ انسان کتنا چھوٹا… اور کتنا بے مقصد ہو جاتا ہے؟… اپنی چھوٹی سی خواہش اور محبت کے پیچھے ذلیل ہوتا ہے… خود کشی تک کر لیتا ہے… لیکن اگر… اس سینے کو پاک کیا جائے… صاف کیا جائے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے نور کے لئے جگہ بنائی جائے تو اب یہی سینہ… اور یہی انسان… پورے عالم کے لئے سوچ رہا ہے… ساری انسانیت کو فائدہ پہنچا رہا ہے… اور ایسے ایسے کام کر رہا ہے… جن کاموں کو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتے…۔
یہ دیکھیں … یہ 857 ؁ھ ہے… یعنی 1453 ؁ء … آج حضور اقدس ﷺ کے غزوہ خندق کے موقع پر فرمائے ہوئے ارشاد کہ تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے پر… تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال گذر چکے ہیں… مگر ایک بائیس سال کا نوجوان… سلطان محمد ثانی… اس فرمان پر عمل کرنے کے لئے… دن رات ایک کئے ہوئے ہیں…۔
’’شرحِ صدر‘‘ دیکھیں کہ… اتنی سی عمر میں اسے یقین ہے کہ ہم نے یہ کام ضرور کرنا ہے… وہ نوجوان تھا… بہت مضبوط ، طاقتور اور خوبصورت… اس کا سینہ بند ہوتا تو وہ… اپنی اتنی بڑی سلطنت کے مزوں میں ڈوب جاتا… اس کے دربار میں… اس کے لئے خوبصورت ملکاؤں کی کمی نہیں تھی… اور مشرقی یورپ کا گورا حسن… بے شمار باندیوں کی شکل میں اس کے آس پاس… بلکہ اس کے قبضے میں تھا… وہ بھی چاہتا تو… ماضی کے اکثر حکمرانوں کی طرح … طبیبو ں سے طاقت کی دوائیاں بنواتا… اور عیاشیوں میں گم ہو جاتا… اور پھر مرجاتا… وہ چاہتا تو دن رات شکار اور تفریحات میں گذارتا… طرح طرح کے پکوان بنواتا… اور یاروں دوستوں کی محفل میں… اپنی زندگی برباد کر دیتا… اس پر قسطنطنیہ کی سخت او رمشکل مہم کا کوئی دباؤ نہیں تھا… بلکہ اس کے قریبی ترین لوگ… اسے ڈرا رہے تھے کہ… اگر ہم نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تو… ہماری یہ سلطنت بھی… رومی قہر کا نشانہ بن کر ختم ہو جائے گی… قسطنطنیہ سے لے کر… فرانس، اور جرمنی تک…تمام صلیبی دُنیا کے دِل… مال اور بازو قسطنطنیہ کی حفاظت کے لئے وقف تھے… اور اس وقت کا پاپائے روم … آج کے ’’کارٹون پاپا‘‘ کی طرح بے بس نہیں تھا… بلکہ… لاکھوں کے لشکر اس کے ایک اشارے پر جنگ میں کود پڑتے تھے… ایسے حالات میں… ایک کم عمر مسلمان حکمران کا… قسطنطنیہ پر حملہ کرنا… پوری دنیا کی صلیبی طاقتوں کو اپنا دشمن بنانے کے مترادف تھا… مگر سلطان محمد… کا سینہ کھل چکا تھا… سینہ کھل جائے تو خوف اور وسوسے بہت دور بھاگ جاتے ہیں… آہ ایک اور عظیم ہستی یاد آ گئی… صدیقین کے امام … حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ … جب آپ نے مرتدین سے اور زکوۃ کا انکار کرنے والے نام نہاد مسلمانوں سے… ایک ساتھ جہاد کا اِرادہ فرمایا تو… اَہلِ مدینہ اس فیصلے پر حیرت اور پریشانی میں ڈوب گئے… ظاہری حالات تھے بھی ایسے کہ… تمام مجاہدین کو اس جنگ میں بھیجنے سے… خود ریاست مدینہ… سخت خطرے میں آ سکتی تھی… صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی… جہاد کا مخالف نہیں تھا… جہاد تو ان کی رگوں اور دلوں میں بستا تھا… بس ظاہری حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ… ایک دم دو محاذوں پر جنگ نہ چھیڑی جائے…فی الحال ایک محاذ کو لیا جائے…ساتھ یہ اشکال بھی تھا کہ جو لوگ کلمہ پڑھ رہے ہیں خود کو مسلمان کہہ رہے ہیں ان سے قتال کی بجائے کچھ نرمی کی جائے… مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنا ’’صدیقی نعرہ ‘‘ لگا چکے تھے… ۔
اَیُنْقَصُ الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّ
کیا دین میں کمی کی جائے اور ابوبکر زندہ ہو… یہ دو باتیں اکھٹی نہیں ہو سکتیں… فرمایا کہ… جو ایک رسی زکوۃ دینے سے بھی منع کرے گا اس سے بھی لڑوں گا… اور حضرت آقا مدنی ﷺ کا ’’خلیفہ ‘‘ ہو کر… حضرت آقا مدنی ﷺ کے دین میں ایک ذرہ برابر کمی برداشت نہیں کروں گا… خواہ اس میں میری جان چلی جائے یا… مدینہ بھی ویران ہو جائے… صحابہ کرام نے… اپنا موقف سمجھانے کے لئے… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو چنا… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وارضاہ سے ملاقات کی… اور صحابہ کرام کا موقف عرض کیا… مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بہت شدت سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے… بلکہ بعض روایات کے مطابق انہوں نے حضرت فاروق اعظم کو ڈانٹ بھی دیا … اصل بات اب آ رہی ہے… وہ یہ کہ… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں… مجھے محسوس ہوا کہ… اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے ابوبکر کا شرح صدر فرما دیا ہے… بس پھر وہ بھی ساتھ ہو گئے…اور تمام صحابہ کرام بھی… اور کام بن گیا… یہ ہے شرح صدر … ہاں وہی شرح صدر … جس سے آج مسلم دنیا کے حکمران مکمل طور پر محروم ہیں… جبکہ عام مسلمانوں میں بھی … اس کی بہت کمی ہے…
مدینہ مدینہ… ہم مسلمانوں کو… حکمت اور شرح صدر کے یہ راز سمجھا رہا ہے… دنیا کے حالات جو بھی ہو جائیں… شرح صدر کی دولت سے مالامال… صرف ایک مسلمان حکمران… حالات کا دھارا بدل سکتا ہے
یہ حکمت کی بارش ، یہ دانش کے موتی
فراست کے تمغے بھی مل کر رہیں گے
اشارہ جو کر دے ،مدینہ مدینہ
نہ سقراط سمجھے ، نہ بقراط بولے
ارسطو کی حکمت بھی خاموش ہو لے
جھلک جب دکھا دے ، مدینہ مدینہ
شرح صدر ہو تو ، بڑا کام ہو گا
مسلماں کا دنیا میں پھر نام ہو گا
یہ نعمت دِلا دے ، مدینہ مدینہ
معذرت … بہت سی باتیں رہ گئیں … بلکہ تقریباً ساری ہی رہ گئیں… نماز کا وقت ہو گیا ہے… توفیق ملی تو باقی باتیں اگلی مجلس میں ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے