اردن کے وزیر خارجہ نے جمعرات کو غربِ اردن کے شہر رام اللہ کا اچانک غیرعلانیہ دورہ کیا ہے۔انھوں نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی ہے اور انھیں اسرائیل کے غربِ اردن کے بعض حصوں کو ہتھیانے سے متعلق منصوبے کے تناظر میں ایک پیغام پہنچایا ہے۔

اردن اور فلسطین دونوں اسرائیل کے غرب اردن میں واقع وادیِ اردن کو ہتھیانے اور یہودی بستیوں کو ضم کرنے کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرچکے ہیں اور وہ اس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایمن الصفدی کا رام اللہ کا دورہ فلسطینی قیادت کے ساتھ اس ایشو پر مشاورت کے عمل کا تسلسل ہے۔

اس سے ایک روز قبل امارات کے ایک سینیر عہدے دار نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل غربِ اردن کی یہودی بستیوں کو ضم کرتا ہے تو عرب ریاستیں اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے واحد دوقومی ریاست کا مطالبہ کرسکتی ہیں اور وہ تنازع کے دو ریاستی حل کے روایتی موقف سے دستبردار ہوسکتی ہیں۔

اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پشت پناہی سے غرب اردن میں واقع یہودی بستیوں اور تزویراتی لحاظ سے اہمیت کی حامل وادیِ اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے کا اعلان کرچکے ہیں۔اگر وہ اس پر عمل درآمد کرتے ہیں تو فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔

اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں اردن کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔پھر وہاں یہودی آبادکاروں کو لابسانا شروع کردیا تھا اور اب وہاں بیسیوں یہودی بستیوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ یہودی آباد کار رہ رہے ہیں۔ امریکا کے سوا عالمی برادری ان یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اسی ہفتے امریکی قیادت سے اسرائیل کے غرب اردن کو ہتھیانے کے لیے کسی بھی یک طرفہ اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام اردن کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا اور اس سے خطے میں امن واستحکام کے حصول کے لیے کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے