ہفتہ وار تبصرہ

امارت اسلامیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے درمیان افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کے حوالے سے معاہدہ اگرچہ ابتداء میں کچھ تاخیر اور رکاوٹوں کا سامنا رہا، مگر اچھی بات یہ ہے کہ اب وہی رکاوٹیں کسی حد تک عبور ہوئی ہیں اور تمام افغانی نارمل طریقے سے معاہدے کے نفاذ کے گواہ ہیں۔

گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران فریقین کی جانب سے متعدد قیدی رہا ہوئے اور مخالف فریق نے وعدہ کیا ہے کہ عنقریب 2000 قیدیوں کو بھی رہا کردیا جائیگا۔ امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان جناب سہیل شاہین نے کہاکہ قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات کے اغاز کےلیےمارت اسلامیہ آمادہ ہے۔

جارحیت کے خاتمے اور امن کی خواہش مند افغان ملت تمام فریق سے امید رکھتی ہے  کہ مذکورہ ہدف کی جانب سے شروع ہونے والے سفر کو اسی طرح جاری رکھے اور  دوحہ معاہدہ میں طے شدہ شقوں کے مطابق عمل کریں۔اس ضمن میں  ملت کے لیے تشویش اور ناراضی کے باعث ببنے والی چیز چند افراد یا ممتاز جماعتوں کی جانب سے لگانےجانیوالے بےبنیاد الزامات ہیں، جو اس شفاف عمل کو روک سکتا ہے۔

مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے نام سے امارت اسلامیہ کے خلاف الزامات بھری رپورٹ شائع کرنا اور اس کے چند روز بعد مشرق وسطی میں امریکی  افواج کے کمانڈر جنرل فرانکلین میکینزی کی جانب سے انہی بےبنیاد الزامات کا دہرانا وہ کچھ ہے، جو موجودہ عمل کو غیریقینی بنانے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

اسی طرح ملکی سطح پر کابل انتظامیہ کے چند عہدیداروں کے بیانات اور قبل از وقت خیالات بھی اعتماد کے موجودہ ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لہذا اس نازک صورت حال میں عوام اور ملک کے اعلی مفادات کو مدنظر  رکھتے ہوئے سیاسی کشمکش کو ختم کرنا چاہیے۔

کابل شہر میں مساجد اور علمائے کرام پر حملے بھی اسلام اور ملک کے دشمنوں کی وہ سازش ہے، جو  جارحیت کے خاتمہ کی راہ میں خلل ڈاکر ایسی  جرائم پر مبنی رپورٹ سے معاہدے کے نفاذ کی روک تھام کریں۔یہی وجہ ہے،جب پراسرار حملے انجام ہوتے ہیں، تو فورا چند عہدیدار اور معتصب میڈیا امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو مورد الزام ٹہراتا ہے۔ مگر امارت اسلامیہ نے ہمیشہ اسلام کے خلاف اس طرح اعمال سے برائت کا اعلان کیا ہے اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہموطن ایسے پراسرار جرائم کےاصل  مجرموں  کو جانتے ہیں، وہ جنہوں نے 19 برس اجبنی کے ایماء پر افغان ملت کا خون بہایا ہے اور اب اس خونریز کو کسی اور احاطے میں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ امارت اسلامیہ موجودہ صورت حال کا مثبت چھان بین کررہی ہے اور امید کرتی ہے کہ آئندہ مراحل بھی اسی طرح کامیابی سے طے ہوجائے، تاکہ اللہ تعالی کی فضل و کرم سے ہماری مصیبت زدہ ملت اسلام نظام کے نفاذ اور خودمختار افغانستان کے چالیس سالہ آرزو تک پہنچ جائیں۔ اسی امید سے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے