چین نے بھارت کے ساتھ پیدا ہونے والی حالیہ سرحدی کشیدگی کے حل کے لیے ’’ مثبت اتفاق رائے‘‘ طے پانے کی اطلاع دی ہے۔دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان حالیہ ہفتوں میں بلند وبالا سرحدی علاقے میں جھڑپیں ہوئی ہیں جس سے صورت حال کشیدہ ہوگئی تھی۔

چینی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان حوا چونائنگ نے بیجنگ میں بدھ کو پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ ’’ سفارتی اور فوجی چینلوں کے ذریعے ’مؤثر ابلاغ‘ سے سرحد پر پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے حل کے لیے’مثبت اتفاق رائے‘ ہوگیا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ اب طرفین اس اتفاق رائے کی بنیاد پر سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات کررہے ہیں۔‘‘انھوں نے اس کی مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے۔

قبل ازیں گذشتہ اتوار کو بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت اور چین نے سرحدی علاقے میں پیدا ہونے والی مسلح کشیدگی کو پُرامن طریقے سے حل کرنے سے اتفاق کیا ہے۔دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے درمیان سرحدی علاقے میں حالیہ جھڑپوں کے بعد چوشل مولڈو میں ملاقات ہوئی تھی اور سِکم میں جھڑپوں کے بعد اعلیٰ سطح پر یہ پہلا رابطہ تھا۔

چین اور بھارت کی افواج کے درمیان حالیہ ہفتوں کے دوران میں سرحدی علاقے میں متعدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔مئی میں بھارت کے زیر انتظام لداخ کے علاقے میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان دوبدو لڑائی ہوئی تھی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے بیان میں مزید کہاکہ ’’طرفین نے سرحدی علاقوں میں دونوں ملکوں میں پہلے سے طے شدہ مختلف دو طرفہ سمجھوتوں کے مطابق صورت حال کو پُرامن طریقے سے حل کرنے سے اتفاق کیا ہے۔‘‘

لیکن ذرائع اور بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت چین کے حق میں ان علاقوں سے دستبردار ہوگیا ہے جن پر پیپلز لبریشن آرمی نے حالیہ دنوں میں قبضہ کیا ہے۔ان میں بالخصوص پینگانگ سو جھیل کے شمال کی طرف واقع حصے اور دریائے گالوان کی وادی کے تزویراتی لحاظ سے اہمیت کے حامل بعض علاقے شامل ہیں۔

اس علاقے میں بھارتی فوج کے ایک سینیر افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ’’ چینیوں نے حال ہی میں جن نئے ٹھکانوں پر قبضہ کیا ہے، وہ ان سے دستبردار ہونے سے انکاری ہیں اوروہ ان پر اپنا قبضہ پکا کرنے کے چکر میں ہیں۔‘‘

اخباری اطلاعات کے مطابق اسی ہفتے دونوں ملکوں کے درمیان مزید بات چیت متوقع ہے۔بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ چینی فوجیوں نے لداخ کے علاقے میں سرحدی لکیر کو عبور کر لیا تھا اور آگے تک دراندازی کی تھی۔اس کے بعد بھارت نے ان کے بالمقابل چوکیوں پر مزید فوجی نفری بھیج دی تھی۔

بھارتی بیان کے مطابق ” طرفین سرحدی علاقوں میں صورت حال اور امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوجی اور سفارتی روابط جاری رکھیں گے۔”

9 مئی کو ریاست سِکم کے انتہائی بلندی پر واقع سرحدی علاقے میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان دوبدو لڑائی ہوئی تھی اور انھوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا تھا جس کے نتیجےمیں فریقین کے متعدد فوجی زخمی ہوگئے تھے۔

چین اور بھارت کے درمیان 3500 کلومیٹر (2200 میل) طویل سرحد ہے لیکن دشوار گذار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس کی مناسب طریقے سے حد بندی نہیں ہوئی ہے اور دونوں ملکوں ہی غیر شناختہ سرحدی علاقوں پر اپنا حق جتلاتے رہتے ہیں۔

بعض بھارتی مبصرین کے مطابق بھارت سرحدی علاقے میں سڑکیں اور فضائی پٹی تعمیر کررہا ہے۔ وہ چین کے بیلٹ اور روڈ اقدام کے ردعمل میں یہ تعمیرات کررہا ہے اور اس وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان 1962 سے سرحدی علاقے میں کشیدگی چلی آرہی ہے۔تب ان کے درمیان شمال مشرق میں واقع ریاست اروناچل پردیش پر تنازع پر باقاعدہ جنگ لڑی گئی تھی۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جین پنگ گذشتہ دو سال کے دوران میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے موقع پر دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں اور انھوں نے سرحدی علاقے میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ابلاغی روابط کو مزید مضبوط بنانے سے اتفاق کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے