مستنصر حجازی
کورونا وائرس کے ابتدا سے لے کر آج اس کی عالم گیر حیثیت اختیار ہونے تک اس کی حقیقت و ماہیت پر اتنا کچھ لکھا اور کہا گیا ہے کہ شاید ہی اس کا کوئی پہلو لکھنے اور کہنے سے رہ گیا ہو۔ ہر کسی نے اپنی دانست کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے آگہی مہم چلائی۔ لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ اتنا کچھ لکھے اور کہے جانے کے باوجود اس کی حقیقت منکشف نہیں ہوئی۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ واقعی وبا ہے یا عالمی سامراج کی جنگی مہم کا ہتھیار؟ اگر وبا ہے تو قدرتی ہے یا کسی لیبارٹری کا تیار کردہ؟ اس نوعیت کے بہت سارے سوالوں کے جوابات ابھی تک پردۂ غیب میں ہیں، کسی کو کوئی تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں ملا۔دو سو سے زائد ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن رہا جس سے ان ممالک کی معیشتیں بھی بیٹھ گئیں اور غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔یہ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ ایسا سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ کورونا وائرس کا یہ وہ رخ ہے جس پر کافی لکھا اور کہا گیا ہے، لیکن آج شریعت میگزین کے قارئین کے لیے ہم تصویر کا وہ رخ دکھاتے ہیں جس پر بہت کم لکھا گیا ہے اور اگر اس صورت حال کا بغور جائزہ لیاجائے تو یہی اس کا حقیقی رخ ہے اور وہ ہے عالمی سطح پر قیادت کی تبدیلی۔ یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ کورونا وائرس عالمی سطح پر امریکہ کی قیادت میں چلنے والے نظام کے انہدام کا ذریعہ بن رہا ہے اور عالمی سطح پر طاقت کا توازن امریکا سے چین منتقل ہورہا ہے۔یہ ایک ایسا دعوی ہے جس پر کئی قرائن اور دلائل موجود ہے جس کا ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے۔
۔30 مئی 2017ء کو ہارورڈ یونی ورسٹی امریکا کے بین الاقومی امور کے پروفیسر گراہم ایلیسن کی ایک کتاب شائع ہوئی، جس کا عنوان ہے "جنگ جس سے فرار نہیں: کیا امریکا اور چین اس سے بچ سکتے ہیں؟” یہ کتاب اتنی دل چسپ تھی کہ چند ہی مہینوں میں اس کے کئی ایڈیشنز ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔اس کتاب میں مصنف نے گذشتہ پانچ سو سالوں سے جنگوں کی ایسی سولہ مثالیں دی ہیں جن میں ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ایک موجود عالمی طاقت کی جگہ لے رہا ہے اور ان کے درمیان تباہ کن لڑائی ہوتی ہے جس میں بڑے پیمانے پر انسانیت کو قتل کیا جاتا ہے۔یہ کتاب مئی 2017 میں شائع ہوئی لیکن آج جب پوری دنیا میں کورونا وائرس کا چرچا ہے ایک بار پھر اس کتاب کا تذکرہ ہونے لگا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جب میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اسے چینی اور ووہان وائرس کہہ کر پکارا تو ایک امریکی رپورٹر نے اس پر گرفت کرتے ہوئے ایلیسن کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا "صدر ٹرمپ کا یہ بیان ‘توسیڈائڈز ٹریپ’ یعنی ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت (چین) اور ایک موجود عالمی طاقت (امریکا) کے درمیان نہ ٹلنے والی جنگ کے زمرے میں آتا ہے”امریکی عوام اور وہاں کے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے میڈیا سے منسلک لوگوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت بیٹھ گئی ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان معاشی میدان میں جنگ ناگزیر ہوگیا ہے جس میں جیت ابھرتی ہوئی طاقت (چین) کی ہوگی کیوں کہ امریکی معیشت جو پہلے ہی جنگوں کی گرد میں بیٹھ گئی ہے اب ایک مضبوط معاشی طاقت کے ساتھ پنگا لینا اسے دیوالیہ بنا کر رکھ دینا ظاہر ہے۔جب ایسا ہوگا تو چین عالمی طاقت کے طور پر ابھرکر سامنے آئے گا جس میں امریکا کی لبرل ڈیموکریسی کی مضبوط عمارت بھی دھڑام سے گر جائے گی اور دنیا پر ان کی چوہدراہٹ کا ایک وسیع باب بھی بند ہوجائے گا۔امریکی عوام اور وہاں کا باشعور طبقہ امریکا کی جنگی پالیسی سے سخت نالاں ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امریکی صدر نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کہہ کر پکارا تو چین سے شائع ہونے والے گلوبل ٹائمز نے ڈاکٹر گراہم ایلیسن کا ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر ایلیسن نے امریکی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے کہا "امریکا نے عالمی وبا میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، دنیا پر الزامات امریکی اہل کاروں کی جانب سے صورت حال سے نمٹنے میں اپنی ناکامی چھپانے کی ایک کوشش ہے۔”
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں جنگیں معاشی میدان میں لڑی جارہی ہیں۔ہر قوت کی خواہش ہوتی ہے کہ عالمی منڈی پر ان کی اجارہ داری ہو۔چین اور امریکا اس وقت دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ہیں جن کے درمیان کورونا کے ظہور سے قبل ہی تعلقات سرد مہری کے شکار تھے اور کورونا نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ گذشتہ ماہ اپریل سے دونوں کے درمیان لفظی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے۔ دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان لفظی جنگ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لفظی جنگ بڑے بڑے معرکوں کو جنم دیتے ہیں، جس میں بسا اوقات نقشے ہی بدل جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کار چین اور امریکا کے درمیان اس لفظی جنگ کو طاقت کی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر طاقت امریکا سے چین منتقل ہورہا ہے اور چین امریکا کا متبادل ہوگا۔ اس خدشے کا اظہار یورپی یونین کے امور خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی کیا۔گذشتہ ماہ مئی میں جوزف بوریل نے جرمن سفارت کاروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا “تجزیہ نگار کافی عرصے سے امریکا کی سربراہی میں چلنے والے عالمی نظام کے خاتمے اور ایشیائی صدی کی آمد کی باتیں کررہے تھے، ان کا کہنا تھا "اب یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہےاور ہم پر کسی ایک سائیڈ کا انتخاب کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ چین عالمی طاقت کے طور امریکا کی جگہ لے رہا ہے۔” یورپی یونین کے وزیر خارجہ کے اس بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ یورپ میں امریکی قیادت میں چلنے والے عالمی نظام کے خاتمے کے حوالے سے کس قدر تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ فکر مند ہیں کہ چین ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ انہیں اس بات کا بھی خوف ہے کہ چین ہی امریکا کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں کہ ایک تو چین کی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے دوسری یہ کہ دنیا نے دیکھا کہ کورونا وائرس کی صورت حال میں ڈسپوزیبل اشیا مثلا دستانے، ماسک اور وائرس سے بچنے والی ان تمام چیزوں کے بنانے میں امریکا سے زیادہ چین نے دلچسپی دکھائی، تاکہ دنیا کی توجہات بھی حاصل کرسکیں اور پیشگی طور پر وبا کے دوران قائدانہ صاحیتوں کا اظہار بھی کریں۔
مذکورہ کانفرنس میں جوزف بوریل نے اس کی وجہ بھی بتائی کہ امریکا کیوں اس قدر کمزور ہورہا ہےکہ وہ دنیا کی قیادت سے ہاتھ دھو رہا ہے چناں چہ انہوں نے کہا "تاریخ میں کووڈ 19 کی وبا کو ایک فیصلہ کن موڑ کے طور پر دیکھا جائے گا جب دہائیوں بعد امریکا دنیا کی راہنمائی کرتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا” راہنمائی کیا کرتے انہوں نے تو اسے سنجیدہ ہی نہیں لیا جس کا واضح نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں اسی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا اور آج تک مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ سے امریکی قیادت پر تنقید ہورہا ہے جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید والوں کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ چین نے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو گمراہ کیا ، بر وقت اس کی نشاندہی نہیں کی جس کی وجہ سے دنیا اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اس صورت حال میں چین اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے ساتھ تعلقات بنا کر پوری طرح ان پر کمندیں ڈالنے کی تگ و دو میں ہے ۔ چناں چہ عالمی ادارہ صحت کو سالانہ چار کروڑ ڈالر دینے کا بھی علان کیا ۔یہ اگرچہ امریکی امدادکے دسویں حصے کے برابر ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کو امریکا کے مضبوط پنجے سے آزاد کرانے کے لیے یہ ایک ابتدائی قدم ہےجسے امریکا نے محسوس کیا اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ احتجاجا تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔
لہٰذا یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ چین عالمی سطح پر امریکا کی جگہ لے رہا ہے،جس کا ذکر اوپر تفصیل کے ساتھ کیا گیا۔ ہمارا غرض اس سے ہر گز نہیں ہے کہ عالمی طاقت امریکا ہوگی یا ایشیا کا کوئی دوسرا ملک، مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے مظلوم و مقہور اقوام و ملل کی حق خود ارادیت تسلیم کرکے وہاں کے رہنے والوں کو زندگی کا حق دیا جائے۔ہم امید کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا بقیہ افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آزادی و خود مختاری کی نوید ثابت ہوگا مزید ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے