امریکہ میں گذشتہ ہفتے پولیس تشدد کے نتیجے میں سیاہ فام شہری جارج فلائڈ کی موت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی ردعمل میں شدت آنے کے بعد دارالحکومت واشنگٹن اور نیویارک میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دم گھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے جارج فلائڈ کے جنازے کی رسومات جمعرات کے دن ادا کی جائیں گی۔

واشنگٹن بلدیہ کی مئیر موریل بوزر نے کرفیو کے بارے میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں متعدد کاروباری مقامات کو لُوٹ لیا گیا ہے اور بعض جگہوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ آئین کی رُو سے مظاہرین کو احتجاجی مظاہروں کا حق حاصل ہے لیکن احتجاج کے دوران ہمیں اپنے شہر کی توڑ پھوڑ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

شائع شدہ فیصلے میں کرفیو کی حدود اور تفصیلات کا تعین کر دیا گیا ہے۔ فیصلے کی رُو سے کرفیو مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے سے صبح 6 بجے تک نافذ رہے گا تاہم بعض مخصوص شعبوں کے ملازمین اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس سے معاف رکھا جائے گا۔

اس دوران 3 نومبر کو متوقع صدارتی انتخابات  کے لئے آج واشنگٹن میں متوقع ابتدائی انتخابات کرفیو سے متاثر نہیں ہوں گے۔

نیویارک کے گورنر اینڈریو کواومو نے بھی کہا ہے کہ احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لئے ہم نے نیویارک کے بلدیہ مئیر بِل ڈی بلاسیو کے ساتھ مل کر کرفیو لگانے کی فیصلہ کیا ہے۔ کرفیو سوموار کے دن رات 11 بجے سے منگل کی صبح 5 بجے تک نافذ رہے گا تاہم منگل کی رات بھی کرفیو کے جاری رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں تاحال ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

گورونر کواومو نے شہر میں متعین 4 ہزار پولیس اہلکاروں کی تعداد کو بھی بڑھا کر 8 ہزار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ نیویارک میں پُر امن احتجاجی مظاہرے رات کے وقت تشدد اور لُوٹ مار میں تبدیل ہو گئےا ور بعض پُرآسائش خریداری مراکز کے شیشے توڑ کر مال چوری کر لیا گیا تھا۔ رات گئے نیویارک کے علاقوں مینہٹن اور بروکلین میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان پُر تشدد جھڑپوں کے نتیجے میں کثیر تعداد میں افراد زخمی ہو گئے اور سینکڑوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

مظاہرین نے رات بھر متعدد علاقوں میں کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا اور بعض پولیس گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں ریاستی حکام کے ساتھ ٹیلی کانفرنس ملاقات کی ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ کی ملاقات کی آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے شائع کردہ خبر کے مطابق ٹرمپ نے ریاستوں کے گورنروں کو کمزور روّیہ اختیار کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔

ٹرمپ نے گورنروں سے کہا ہے کہ ” مظاہروں میں حاوی فریق آپ کو ہونا چاہیے۔ اگر آپ حاوی نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ فضول وقت ضائع کر رہے ہیں”۔

گرونروں کے مظاہرین کے معاملے میں زیادہ سخت کاروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ہم نے اس وقت انہیں نہ روکا تو حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ آپ کو انسانوں کو گرفتار کرنا چاہیے۔ ان کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ انہیں 10 سال کے لئے جیل میں ڈالنا چاہیے۔ آگر آپ ایسا کریں گے تو اس وقت درپیش حالات دوبارہ پیش نہیں آئیں گے”۔

بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب میں وائٹ ہاوس کی ترجمان کیلی میکینی نے کہا ہے کہ مظاہرین اپنے مقصد سے ہٹ کر تشدد کی طرف جا نکلے ہیں۔

کیلی نے کہا ہے کہ گورنروں کو حرکت میں آنا چاہیے  اور امریکی معاشرے کے تحفظ کے لئے زیادہ سکیورٹی اہلکاروں کو متعین کرنا چاہیے۔

پولیس تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام امریکی جارج فلائڈ کے جنازے کی رسومات جمعرات کے دن ادا کئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

مینے سوٹا کے گورنر ٹِم والز نے منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ فلائڈ کے جنازے کی رسومات مینے پولیس شہر کے لئے، مینے سوٹا ریاست کے لئے اور پوری قوم کے لئے ہماری نگاہوں کے سامنے ختم ہونے والی زندگی کو پیش کی جانے والی پُر اعزاز رسومات ہوں گی۔

جارج فلائڈ کے کنبے کی طرف سے کروائے گئے خصوصی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق فلائڈ کی موت متواتر بوجھ کے نیچے دبے رہنے، دماغ کے لئے خون کا بہاو رُکنے اور دم گھٹنے کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔

اطلاع کے مطابق فلائڈ کی موت کے ذمہ دار پولیس اہلکار ڈیرک شاوین کو مینے سوٹا ریاست کے اندر کسی اور زیادہ سخت حفاظتی تدابیر والی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈیرک کو 8 جون کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ جارج فلائڈ کو گذشتہ ہفتے ریاست مینے سوٹا میں جعل سازی کے الزام میں حراست کے دوران پولیس اہلکار شاوین کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس اہلکار شاوین نے ایک طویل عرصے تک فلائڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا اور فلائڈ ” مجھے سانس نہیں آ رہی” کی فریاد کرتا رہا۔ بعد ازاں فلائڈ کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دم توڑ گیا۔

شہریوں کے ٹیلی فون کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد ملک میں سیاہ فاموں کے خلاف پولیس تشدد کے مباحث دوبارہ بھڑک اٹھے۔

ملک میں مینے پولیس سمیت متعدد شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے