سیدعبدالرزاق
شام میں واقع حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسے پیکرِ عدل و انصاف کی قبر چاک کر کے اُسے آگ لگا دی گئی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ان کی اہلیہ فاطمہ بنتِ عبدالملک اور امیرالمؤمنین کے خادم یحیی کی قبر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا۔قبرمیں سے دہشت گردوں نے قبر سے جسم نکال کر اپنے چند ناپاک عقائد کی بنیاد پر جسموں کی خطرناک حد تک بے حرمتی کی ہے۔ ان بدعقیدہ لوگوں نے اپنے تئیں اپنے بغض کے اظہار کے لیے جو کچھ بن پڑا، کیا۔
میرا قلم یہ اندوہ ناک اور افسوس ناک واقعہ کو لکھنے سے عاجز ہے۔ میں اس تفصیل میں جائے بغیر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں:۔
۔۱- چندسال قبل خوارج کے عقیدے والی داعش نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کی قبر کے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا۔ دنیائے اسلام نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی تھی۔ داعش کے گماشتوں کو ان جیسے اعمال کی وجہ سے بدترین انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیا تھا۔ شام میں اقتدار کی طاقت رکھنے والے جن بدعقیدہ بدبختوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قبر کی بے حرمتی کی ہے، تمام امت یک جا ہو کر ایسے ناپاک عناصر کے خلاف جہاد کریں۔
۔۲- اس منحوس عمل سے امتِ مسلمہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔ اس کا بدلہ لینا یا اس کا ازالہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کو مرہم لگانا ایک ضروری معاملہ ہے، جسے بروئے کار لانا چاہیے۔
۔۳- جو سیاہ اور بدترین کرتوت قبروں کے ساتھ کیا گیا ہے، یہ صرف اسلام کے خلاف عمل نہیں، بلکہ یہ انسانیت سوز روش ہے۔ حیوانیت اور درندگی کی انتہا ہے۔ اس طرح غیرانسانی عمل کے لیے ‘فرقہ وارانہ جنگ سے گریز’ جیسے بیانات کے ذریعے مجرموں کو کھلی چھوٹ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ درحقیقت اس موقع پر تمام مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر اس جیسے مزید سانحوں سے بچنا ہے تو مجرموں کو عبرت ناک سزا دینا ہوگی اور یہ صرف بیان بازی سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عملاً میدان میں نکل کر مجرموں کی گردنوں کو شکنجے میں کسنے کی ضرورت ہے۔
۔۴- حضرت عمر بن عبدالعزیز جس طرح اہلِ سنت عوام میں ایک امام ِ عادل کادرجہ رکھتے ہیں۔ ان کا انصاف، اسلام سے محبت و عقیدت اور اسلامی احکام کے نفاذ کاغلغلہ چہار دانگ ِ عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح اہلِ تشیع کی کتب بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی صفات میں رطب اللسان ہیں۔ شیعہ کتب میں حضرت امام باقر رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زبردست تعریف بیان کی گئی ہے۔
۔۵- اقوامِ عالم میں عورت کو بہت احترم دیا جاتا ہے۔ خصوصااسلام نے عورت کو جو مقام عطا کیا ہے، اس پر اغیار بھی انگشت بدنداں ہیں۔ جب کہ مذکورہ واقعے میں جہاں عالمی قوانین کی پامالی ہوئی ہے، وہیں اسلامی اقدار کو شدید زک پہنچائی گئی ہے۔ حضرت فاطمہ بنت عبدالملک بن مروان کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا ہے، عقل و دانش اس پر ماتم کناں ہیں۔ حوا زادی کی حرمت کا استہزا کرنے والوں کے خلاف تمام مسلمانوں کو باہم اتحاد کر کے دشمن کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔
۔۶- انسانی آبادی میں یہ دستور ہے کہ موت کے بعد سخت سے سخت دشمن کو بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔ موت کے بعد اپنے دشمن کی لاش کو کوئی نقصان پہنچانا انتہا درجے کی بے غیرتی سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ یہاں بے غیرتی کی تمام حدیں پار کر دی گئیں ہیں۔ ایک مردہ جس کی موت پر تیرہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ تیرہ صدیوں تک ان کے ساتھ دشمنی رکھنا بدبختی اور بے غیرتی کی آخری حد ہے۔ یہ ہرگز کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔
۔۷- جس نے بھی یہ کام کیا ہے، وہ قطعا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ کام صرف مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے مخلص رہنماؤں کو سامنے آنا چاہیے۔ وہ اس حوالے سے مضبوط لائحہ عمل طے کر کے اسلام، اہلِ اسلام اور اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ہر طرح کے ممکن اقدامات سامنے لائیں۔
۔۸- اس منحوس عمل کا ایک مقصد مسلم امت کے لیڈروں کو بے توقیر کر کے دلوں سے ان کی عظمت نکالنا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ عہد کریں کہ اپنے عظیم رہنماؤں کی ہر طرح سے حفاظت کے ساتھ اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور اُن کی زندگی کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے