نوید مسعود ہاشمی

غیرت تو پہلے ہی مر چکی تھی‘ لگتا ہے کہ مسلم حکمرانوں‘ دانشوروں اور میڈیا کے ’’ٹارزنوں‘‘ کی جسمانی موت بھی واقع ہوچکی‘ انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے۔ المناک‘ درد ناک اور شرمناک بھی‘ عمرثانی خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے مزار مقدس کوتباہ کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شام میں ایران نوازبشارملیشیاء کے جہنمی غنڈوں نے صوبہ ادلب کے علاقے دیر شرقی میں امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے مزار مقدس پر حملہ کرکے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ‘ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت عبدالمالک اور خادم ابوزکریا کی قبور کو کھود کر ان کے مقدس اجسیام کو غائب کر دیا۔ ناپاک بشاری کے جہنمی شیطان دہشت گردوں نے نہ صرف مسجد کو نذر آتش کر دیا بلکہ صدیوں سے مزار کا متولی رہنے والا خاندان بھی لاپتہ کر دیا گیا۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں لیکن بڑی معذرت کے ساتھ ہم بحیثیت مسلم امہ جس زبوں حالی اور افراتفری کا شکار ہیں۔ اس قسم کے سانحات اسی کا شاخسانہ ہیں

ناپاک بشار  ملیشیاء کے فرقہ پرست دہشت گردوں نے  13سو سال بعد حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ‘ ان کی اہلیہ اور خادم کی میتوں کی توہین کرکے یہ بات بڑے دھڑلے کے ساتھ ثابت کر دی‘ دلیل‘ مکالمہ‘ بین المذاہب یا بین المسالک ہم آہنگی‘ منطق‘ ان کے ہاں سب کچھ فیل اور ناکام‘ اس قسم کے شیطان دہشت گردوں کا علاج صرف اور صرف جہاد و قتال کی عبادت کے ذریعے ہی ممکن ہے‘ حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کا احترام تمام مکاتب فکر میں یکساں پایا جاتا ہے۔
روئے زمین پر بسنے والا ہر انصاف پسند انسان یہ تسلیم کرتا ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے زیرنگیں علاقوں کو  عدل و انصاف سے بھر دیا تھا۔ وہ دور عمر بن عبدالعزیزؒ کا ہی تھا کہ جس دور میں بھیڑ اور بھیڑیا ایک گھاٹ سے پانی بیا کرتے تھے۔ آپ کے زہد و تقوی‘ عبادت و پارسائی‘ شرافت و امانت کی گواہی صرف اپنے ہی بلکہ غیر بھی دیا کرتے تھے‘ آپ کی خلافت کا اسلامی پرچم آدھی دنیا تک لہرا دیا‘ لیکن آپؒ نے آخری سانسوں تک نہ پروٹوکول لیا‘ نہ باڈی گارڈز ساتھ رکھے‘ نہ شاہی محلات میں رہنا گوارا کیا اور نہ شاہی  سواریوں پہ بیٹھنا۔
ایک مقدس شخص 13سو سال سے ادلب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہے‘ اس کی بیوی اور غلام بھی قبر نشیں ہوئے 13صدیاں بیت گئیں۔13سو سال قبل بھی اس مقدس شخص نے کسی انسان  پہ ظلم نہیں کیا‘ بلکہ اس کے عدل و انصاف سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنگل کے جانور بھی مستفید ہوتے رہے‘ اگر آج کی دنیا میں ایران نواز بشار ملیشیاء کے درندے اس عظیم شخصیت اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قبروں کی بھی توہین کرنے سے باز نہیں آتے۔ تو پھر یہ بات لکھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ ناپاک بشار ملیشیاء سے جنگل کے درندے بھی افضل ہیں کہ جو سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت کے احترام میں کمزور جانوروں پر ظلم ڈھانے سے باز رہتے تھے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اس قماش کے ناپاک دہشت گردوں کا کسی مذہب یا مسلک سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کسی مذہب یا کسی مسلک کے ماننے والے اس قماش کے غنڈوں کی کسی بھی درجے میں حمایت تو نہیں کر رہے؟
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی میت کو غائب کرنے والے شیطانوں کا انجام بھی بہت برا ہونے والا ہے‘ لیکن اس دلخراش واقعہ کو بنیاد بنا کر فرقہ واریت پھیلانے والے ‘ تھوڑا سا غور کریں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ناپاک بشاری کی ناپاک ملیشیاء کے جہنمی بدمعاشوں نے مقدس شخصیات کی قبور کے ساتھ دہشت گردی کی  کارروائی کی ہی اس لئے ہے تاکہ امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کی شدت وحدت کو مزید بڑھایا جائے اس المناک واقعہ کو امت مسلمہ کی وحدت اور طاقت میں تبدیل کرکے اگر مسلم امہ کے درد مند دل رکھنے والے علماء اور لیڈران جہاد کے راستے پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اسے بھی حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیزؒ کی کرامت ہی سمجھا جائے گا۔9سال سے زائد ہونے کو ہے۔ انبیاء کی سرزمین شام میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑائے جارہے ہیں تاریخی شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔
بشارالاسد نے اپنے خلاف شروع ہونے والی خالص عوامی جدوجہد کا رخ جان بوجھ کر فرقہ وارانہ جنگ کی طرف موڑا‘ اس سازش میں اسے بیرونی فرقہ پرست قوتوں کی بھی مکمل حمایت حاصل رہی‘ یوں دنیا بھر کے فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے شدت پسند‘ شام کی لڑائی میں ملوث ہوئے اور انہوں نے وہاں وحشت و درندگی کی ایسی ایسی ہولناک مثالیں قائم کیں کہ تاریخ جس پر ہمیشہ نادم رہے گی۔
دمشق کی عظیم تاریخی مسجد جامع اموی کو تاراج کرنے کے بعد فرقہ  پرست خونی دہشت گردوں نے اسلامی دنیا کے عظیم ترین جرنیل حضرت سیدنا خالد بن ولیدؓ ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمنؓ سمیت کئی دیگر مقتدر مقدس شخصیات کے مزارات پہ حملے کرکے ان کی  قبروں کی توہین کی گئی‘ اور اب ناپاک بشاری دہشت گردوں نے حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قبروں کو مسمار کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں پر گہرا وار کیا ہے‘ دیکھتے ہیں کہ مسلمان ممالک کے حکمران‘ سیاست دان اور مسلم علماء و قائدین اس نازک موقع پر کیا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ اوصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے