تحریر: سیف العادل احرار

جس طرح کابل حکام نے القاعدہ اور داعش کے نام پر امریکہ اور بیرونی دنیا سے بڑی رقم حاصل کی اور اپنا بینک بلنس بڑھایا اسی طرح حال ہی میں جب پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی تو انہوں نے یہ موقع پھر غنیمت سمجھ کر اعلان کیا کہ افغانستان میں کورونا مرض سے دس لاکھ افراد متاثر اور ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں لیکن اس اعلان کا جو نتیجہ سامنے آیا وہ ان کی توقع کے خلاف ثابت ہوا، امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان سے تمام امریکی افواج کے انخلا پر زور دیا ہے اور وہ ہر روز اپنے مشیروں سے تمام افواج کے انخلا پر مشاورت کررہے ہیں اس اعلان سے کابل حکام بوکھلا گئے اور اب ایک بار پھر اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں کورونا وائرس کی بیماری پر قابو پا سکتے ہیں۔

کچھ دن پہلے اشرف غنی کے نائب صدر امر اللہ صالح نے ایک ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ وہ کورونا کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کررہے ہیں، انہوں نے یہاں تک کہا کہ کابل انتظامیہ کی کورونا کے خلاف جنگ دنیا اور خطے کی سطح پر بے مثال ہے۔

امراللہ صالح نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے نتیجے میں بہت سارے لوگ بھوک سے دوچار ہیں اور حکومت کا منصوبہ ہے کہ وہ ملک بھر میں ضرورت مند لوگوں کو کھانا فراہم کرے۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ کابل شہر میں روزمرہ کمانے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ ہے چونکہ بازار بند ہیں اور لاکھوں شہریوں کو فوری طور پر خوراک کی اشد ضرورت ہے اور حکومت نے ان خاندانوں کو فوری طور پر کھانا مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کابل انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف وفاقی دارالحکومت کابل شہر میں ایک لاکھ 25 ہزار خاندان غربت کی وجہ سے فقر و افلاس کا شکار ہیں، شہری انتظار کررہے تھے کہ کابل انتظامیہ کی جانب سے ان ضرورت مند شہریوں کو کھانا فراہم کی جائے گی، لیکن اب پتہ چلا کہ کابل حکام کی جانب سے ضرورت مند خاندانوں کے لئے خوراک کی تقسیم شروع ہوگئی ہے۔ اشرف غنی کے نمائندہ خصوصی وحید عمر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے ہر ضرورت مند خاندان کو ساڑھے چار کلوگرام گندم دی ہے۔ سوشل میڈیا پر پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے تھیلے میں گندم کی تصاویر شائع کر دی گئیں۔ جس پر شہریوں نے شدید ردعمل اور طنز کا اظہار کیا ۔

لیکن ساڑھے چار کلو گندم امداد کے بارے میں شہریوں کا ردعمل ختم نہیں ہوا تھا کہ گزشتہ روز کابل حکام نے ہر خاندان کو پانچ پانچ سوکھی فراہم کرنے کا اعلان کیا اور تمام تندوروں کو ہدایت کی کہ وہ ضرورت مند اور غریب خاندانوں میں پانچ پانچ سوکھی روٹیاں تقسیم کریں۔

عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کابل حکام واقعی غریب عوام کے ساتھ تعاون کررہے ہیں یا ان کا مذاق اڑا رہے ہیں، غضبناک شہریوں نے سوشل میڈیا میں کابل حکام پر شدید تنقید کی اور سوال کیا کہ کیا چار کلو گندم سے غریب عوام کے مسائل حل کو سکتے ہیں؟

دوسری طرف کرونا سے متاثرہ افغان ڈاکٹرز کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے اہل خانہ کورونا سے متاثر ہورہے ہیں لیکن حکام نے ابھی تک اس بیماری کے رزلٹ فراہم نہیں کئے ہیں۔ حالانکہ میڈیا پر چرچا ہورہا ہے اور کابل حکام ہر روز بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ کورونا کے خلاف نبردآزما ہیں اور کورونا سے مقابلہ کررہے ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اعلی حکام کی تصاویر جاری کی جاتی ہیں جب کہ اشرف غنی نے ماسک باندھ کر کورونا کے خلاف مقابلہ کرنے کا نمائشی اعلان کیا۔

جنگ زدہ ملک میں غریب عوام کی تعداد اس اندازے سے کئی گنا زیادہ ہے جو کابل حکام کی جانب سے جاری کی جاتی ہے، امریکی جارحیت کے سایہ تلے چند لوگ تو سرمایہ دار بن گئے لیکن عام شہری تو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کابل حکام کے اس مذاق سے بہتر ہے کہ مخیر حضرات آگے بڑھیں اور غریب لوگوں کی دادرسی کریں اور ان کے ساتھ خفیہ تعاون کریں۔

اس صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام عوام کو کرپٹ حکام کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بیرونی دنیا سے امداد حاصل کرنے کے درپے ہیں لیکن عالمی برداری کو بھی اب ان پر اعتماد نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے پچھلے اٹھارہ سالوں میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے، ایک حکومت کی جانب سے غریب شہریوں کے ساتھ چار کلو گندم یا سوکھی روٹی کا تعاون نہ صرف باعث شرم ہے بلکہ امداد حاصل کرنے والے غریبوں کے لئے بھی کسی عار سے کم نہیں ہے۔

ادھر امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی کورونا وائرس سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے مختلف صوبوں میں تقریبات جاری ہیں، امارت اسلامیہ کے کمیشن برائے صحت کے ذمہ داران نے ان تقریبات میں میڈیا کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا تاہم کابل انتظامیہ نے جان بوجھ کر راستے میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی، عام طور پر جب بھی ملک پر برے دن اور ہنگامی حالات آتے ہیں، تو گاؤں اور محلے میں لوگ پرانی دشمنی کو بھول جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ مخیر حضرات غریب لوگوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں اور مشکل وقت میں اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے مل کر کام کرتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہیں، مشکل دور میں حکمرانوں کو اپنے عوام کے ساتھ ہمدردی ، شفقت اور ایثار سے پیش آنا چاہئے۔ غریبوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔

اشرف غنی کی سربراہی میں کابل انتظامیہ کے اعلی حکام جو افغانستان میں اسلامی عدالت اور فوری انصاف فراہمی کے دعویدار بھی ہیں، وہ کورونا وائرس کی مدد میں ملنے والی امداد میں غبن اور کرپشن کرتے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف افغانستان میں وبا کی تباہی پھیل رہی ہے، اور کورونا وائرس سے غریب عوام شدید متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری جانب اس بیماری کی وجہ سے مارکیٹیں بند ہوچکی ہیں اور ملک میں معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے اور خوراک کی شدید قلت ہے۔ اس ہنگامی صورتحال میں حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کو ریلیف دیں، غیر ضروری اخراجات میں کمی لائیں بچائی گئی رقم غریبوں کی مدد کے لئے تقسیم کریں۔

کابل حکام جو چوری اور لوٹ مار کے عادی ہیں، وہ بیرونی امدادی رقم میں بھی کرپشن کرتے ہیں اور صوبہ زابل کے اعلی حکام کے درمیان امدادی رقوم میں کرپشن پر جھگڑا ہوا، چور حکمرانوں سے قوم کو خیر کی توقع نہیں ہے۔

حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ صوبہ بلخ کے کورونا متاثرین کے لئے سامان کی خریداری میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے، وزارت صحت کے عملے نے چائے کے ایک پیکٹ پر 5 ہزار افغانی، تین کلو چاول ساڑھے 2 ہزار افغانی، ایک تکیے کے لئے 800 افغانی، ایک کمبل کے لئے 1250 افغانی رقم ادا کی گئی۔ یہ حیران کن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس امدادی پیکج میں کتنی کرپشن کی گئی ہے۔ قوم کو ان کرپٹ عناصر پر اب اعتماد نہیں ہے، مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور غریبوں کی مدد کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے