آج کی بات

افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ میلر نے گزشتہ روز اپنے ایک کٹھ پتلی کمانڈر اسداللہ خالد کے ہمراہ صحافیوں کو بتایا کہ ‘طالبان نے حملے تیز کر دیے ہیں۔ اگر ان کے حملے جاری رہے تو ہم بھرپور جواب دیں گے۔’

اس میں شک نہیں کہ امریکی جرنیلوں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ شکست خوردہ افغان فورسز کو جھوٹی یقین دہانی کرائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے بیانات خواہ جس مقصد کے لیے بھی دیے جاتے ہیں، افغان تنازع کے حل کے لیے مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس ایسے بیانات آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوں گے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جنرل میلر ان لوگوں کو انتباہ دیتے، جنہوں نے اسکاٹ میلر کے رہنماؤں کا معاہدہ سبوتاژ کرنے اور ناکام بنانے کے لیے منفی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ میلر کی دھمکی کا ہدف وہ شخص ہونا چاہیے، جس کے لیے آپ نے ہزاروں فوجی اور کھربوں ڈالر ضائع کر دیے، لیکن اس نے آپ کے تمام اقدامات پر پانی پھیر دیا ۔

اسکاٹ میلر کے لیے مناسب تھا کہ وہ اپنی کٹھ پتلیوں کو دھمکیاں دیں، جنہوں نے امریکی جارحیت کے لیے ہراول دستے کا فریضہ انجام دیا ہے، لیکن ان کٹھ پتلیوں کی نااہلی، بدعنوانی، ظلم اور سربریت کی وجہ سے امریکی جنگی حکمت عملی ناکام رہی۔ اب امن کی پالیسی اور عالمی سطح پر قبول شدہ معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے، تاخیر کرنے اور بالآخر معاہدہ توڑنے اور شکست سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ وہ دراصل گندے پانی میں اچھی مچھلی پکڑنے کے لیے کرشش کر رہے ہیں۔

امریکی جنرل کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکام کٹھ پتلیوں کو منع کریں کہ امارت اسلامیہ کے ساتھ کیے گئے کامیاب معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے دوحہ معاہدے کی باربار خلاف ورزی کی ہے۔ متعدد بار فضائی حملے، فوجی آپریشن اور راکٹ حملے کیے ہیں۔ قیدی رہا کرنے میں ناکام رہے۔ کابل انتظامیہ کی طرح آپ بھی امن معاہدہ توڑنے والوں میں شامل ہونے کے علاوہ اور کیا کر سکے ہیں؟!

آپ طالبان کو انتباہ جاری کرنے کے بجائے سنجیدہ کوشش کریں۔ کابل کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدی رہا کر کے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کرائیں، تاکہ آپ کی حیثیت اور ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔ بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔ ان اقدامات سے آپ کو باعزت واپسی کے لیے موقع ملے گا۔

پرامن ماحول میں دھمکی آمیز زبان کا استعمال آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ مجاہدین عالمی برادری کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ کسی کی دھمکی سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ اگر وہ خوف زدہ ہوتے تو وہ 19 سالہ جنگ کے دوران اپنے جسم سے بم نہ باندھتے۔ وہ گوانتاناموبے، بگرام اور پل چرخی جیلوں میں اپنے نظریے اور جدوجہد سے دستبردار ہو جاتے۔ امارت اسلامیہ کبھی بھی جنگ بندی یا جنگ کی شدت میں کمی لانے کے غیرمعقول مطالبے پر راضی نہیں ہوگی۔

دوحہ معاہدے میں ہر چیز واضح لکھی گئی ہے۔ اگر آپ اس پر عمل درآمد کی کوشش کرتے تو بہت ممکن تھا کہ اب تک دو ماہ سے جاری جنگ پہلے ہی رک ُچکی ہوتی۔ آپ نے اس تنازع کا معقول حل تلاش کرنے کے بجائے کابل انتظامیہ کی درخواست پر یا ان کو جھوٹے حوصلے دینے کے لیے طالبان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ یہ ایک ناکام تجربہ ہے۔ ناکام تجربات کا اعادہ بجائے خود ایک ناکامی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے