تحریر: سیف العادل احرار

امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان تاریخی معاہدے میں قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ دس مارچ سے قبل امارت اسلامیہ کے پانچ ہزار قیدی اور کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا لیکن معاہدے کے اگلے روز کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے معاہدے سے روئی گردانی کرتے ہوئے قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا لیکن حسب توقع جلد ہی انہوں نے یوٹرن لیا اور 9 مارچ کو تقریب حلف برداری سے خطاب کے دوران 10 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے صدارتی حکم جاری کرنے کا اعلان کیا اور آگلے روز انہوں نے پھر قیدیوں کی مشروط رہائی کا حکم جاری کیا جس کے مطابق 13 مارچ سے پہلے مرحلے میں 15 سو قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کیا جائے گا لیکن 13 مارچ گزر گیا اور قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع نہ ہوسکا۔ پھر امریکی دباو پر قیدیوں کی رہائی سے متعلق کابل انتظامیہ اور امارت اسلامیہ کے درمیان امریکہ، قطر اور ہلال احمر کی موجودگی میں تین بار ویڈیو کانفرنس ہوئی اور آخری بار 26 مارچ کو ویڈیو کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ امارت اسلامیہ کا ایک وفد کابل جائے گا جہاں قیدیوں کی تائید اور تصدیق سے متعلق امور انجام دے گا اور 31 مارچ سے قیدیوں کے تبادلے کا عمل بھی شروع ہوجائے گا، 29 مارچ کو امارت اسلامیہ کا تین رکنی وفد کابل پہنچا اور قطر کی میزبانی میں ایک ہفتہ تک وہاں ٹہرا اس دوران امارت کے وفد اور کابل انتظامیہ کے حکام کے درمیان متعدد بار قیدیوں کی رہائی اور اس سے متعلق دیگر امور پر نشستیں ہوئیں لیکن افسوس کہ کابل انتظامیہ کے حکام نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے قیدیوں کے خالص انسانی موضوع کو بھی سیاست کی نذر کرکے امن عمل میں تاخیر لانے کی کوشش کی اور غیر ضروری شرائط پیش کر کے قیدیوں کی رہائی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کی جس پر امارت اسلامیہ نے اپنا وفد واپس بلایا اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے قیدیوں سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرے، امریکی دباو پر دو دن بعد اچانک قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوا اور پانچ دن کے دوران کابل انتظامیہ نے امارت اسلامیہ کی تصدیق کے بغیر 361 قیدیوں کو رہا کر دیا جبکہ امارت اسلامیہ نے بھی قندہار اور لغمان میں افغان فورسز کے 60 اہل کاروں کو رہا کر دیا ۔

جب کسی معاملے پر معاہدہ ہوچکا ہے اور وہ بھی امریکہ کے ساتھ یہ معاملہ فائنل ہوچکا ہے تو اس میں چوں وچراں کرنے اور تاخیری حربے استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے، صاف ظاہر ہے کہ اشرف غنی پانچ سال تک منصب صدارت پر فائز رہنے کے لئے امن کوششوں کو سپوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ جارحیت کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ ہوچکا ہے اور امریکہ اس بے مقصد جنگ سے تھک چکا ہے، اب امریکہ کی پالیسیوں میں بھی نمایاں تبدیلی آچکی ہے، امریکی حکمران اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اگر مزید بھی 20 برس تک افغانستان میں جنگ جاری رکھیں تو انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوگی پھر غیر ضروری طور پر اس لاحاصل جنگ کو جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے اس لئے امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اس کو سیاسی ڈائیلاگ سے حل کیا جائے گا اور اسی لحاظ سے انہوں نے طالبان کی فوجی اور سیاسی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی شرائط پر معاہدہ کیا ۔

لیکن اب کابل حکام کی جانب سے امن عمل کو سپوتاژ کرنے کے لئے سازشیں ہورہی ہیں، وہ مختلف حربے استعمال کررہے ہیں تاکہ امن منصوبہ ناکامی کا شکار ہوکر وہ آرام سے پانچ سال پورے کریں اور اسی لئے وہ قیدیوں کے معاملے پر نہ صرف سیاست چکمارہے ہیں بلکہ منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کررہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک طے شدہ معاملے پر کابل حکام عمل درآمد نہیں کرسکتے اور رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں تو جن معاملات ابھی حل طلب ہیں اور ان پر بات چیت شروع نہیں ہوئی ہے مثلا آئین، ملک کا سیاسی نظام، طرز حکومت وغیرہ تو ان معاملات پر کابل حکام کتنے تاخیری حربے استعمال کریں گے، یہ بھی اہم سوال ہے کہ امریکہ قیدیوں کو رہا کروانے کے معاملے پر کیوں ناکام نظر آرہا ہے، خدشہ یہ ہے اگر امریکہ کی رضامندی شامل نہ ہو تو کابل حکام تاخیری حربے استعمال کرسکتے ہیں؟ کیا ان میں یہ جرات ہے کہ وہ طے شدہ معاملات کے خلاف چیلنج بن کر رکاوٹ پیدا کریں؟ کیا کابل حکام امریکہ کی رضامندی کے بغیر معاہدے سے راہ فرار اختیار کرسکتے ہیں؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب سے امارت اسلامیہ اور امریکہ کے مابین تاریخی معاہدہ ہوا ہے، تب سے کابل انتظامیہ کی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی ساکھ ختم ہوگئی ہے اگرچہ کچھ ممالک کی مدد سے نام نہاد انتخابات کے ذریعے اس کی حیثیت کو جزوی طور بحال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انتخابات سے مزید بحران پیدا ہوا اور پہلی بار ملک میں دو اشخاص نے حلف اٹھایا جو نہ صرف ملک کی بدنامی ہے بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی عار ہے اور اب یہ بحران اتنا سنگین ہوچکا ہے کہ امریکی حکام بھی کابل انتظامیہ کے حکام کے اختلافات سے تھک گئے ہیں ۔

اب کابل حکام سیاست چمکانے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے قیدیوں کے طے شدہ معاملے پر تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں لیکن اس معاملے پر معاہدہ ہوچکا ہے اور قیدی رہا ہوجائیں گے، کابل حکام خواہ جتنے بھی حربے استعمال کریں وہ بے سود رہیں گے، طالبان نے کبھی بھی کابل انتظامیہ سے قیدیوں کی رہائی کی منت نہیں کی ہے، امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اور اسی معاہدے کے تحت تمام قیدی رہا ہوجائیں گے کیوں کہ زیر حراست افراد میں سے بیشتر امریکی فوج نے چھاپوں میں گرفتار کیا ہے اور پھر کابل انتظامیہ کے سپرد کیا ہے، لہذا جس نے گرفتار کیا ہے وہ رہائی کا ذمہ دار بھی ہے۔

بین الاقوامی انسانی قوانین اور جنیوا کنونشن کے تحت زیر حراست افراد کو بطور ڈھال استعمال کرنا ممنوع ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ اقتدار کے آخری مراحل میں ان معاہدوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتی لیکن اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔

لہذا جو بھی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک میں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ہوگا، اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے مختلف حصوں میں جنگ کی شدت میں اضافہ کا ذمہ دار بھی وہی لوگ ہوں گے جو امن عمل کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

امارت اسلامیہ کی جدوجہد ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ہے، کابل انتظامیہ نے پانچ سال قبل امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے دوحہ معاہدے کے بعد اس کی اہمیت ختم ہو گئی اور کوئی یہ سمجھے کہ امریکہ کے ساتھ سکورٹی معاہدے کی بناء پر کابل انتظامیہ کی بقا کے لئے جواز ثابت ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کابل انتظامیہ جارحیت کی کھوکھ سے جنم لے چکی ہے، امریکی جارحیت کے زیر سایہ پلنے والے ادارے کا کوئی شرعی، قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے، جارحیت کے خاتمے کے ساتھ اس عوام دشمن ادارے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی اور بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں ایک متفقہ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کو پوری قوم کی تائید حاصل ہوگی۔

ہمیں یقین ہے کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے گا لیکن ان کی تاخیر سے چند دن عارضی طور کابل حکام کو فائدہ تو ہوگا لیکن انہوں نے جو منصوبے بنائے ہیں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ ان حربوں کے ذریعے کابل انتظامیہ کو پانچ سال مزید قوم پر مسلط رہنے کا چانس ملے گا، کابل انتظامیہ نے قانونی، شرعی اور اخلاقی حیثیت کھو چکی ہے وہ افغان عوام کے لئے مزید ناقابل برداشت ہے، قوم ملک میں فوجی امن اور نئی اسلامی حکومت چاہتی ہے جس کے لئے امارت اسلامیہ کی قیادت سنجیدگی کے ساتھ مسلسل مصروف عمل ہے اور جلد قوم کو اس حوالے سے بڑی خوشخبری ملنے والی ہے۔ ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے