تحریر: عبدالرزاق

کورونا اس وقت پوری دنیا کے لیے ایک عظیم ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی مکمل لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف جنگ زدہ افغانستان بھی بُری طرح وائرس سے پریشان ہے۔ 25 اپریل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اب تک 8 ہزار ٹیسٹ ہو چکے ہیں، جن میں 1463 پوزیٹیو آئے ہیں۔ کروانا وائرس سے اموات کی تعداد چالیس سے بڑھ گئی ہے۔ 200 کے لگ بھگ مریض صحت یاب ہوئے ہیں۔اس وقت کرونا سے نمٹنے کے لیے امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ سرگرمِ عمل ہے۔

بظاہر اشرف غنی امریکی زبردستی کی وجہ سے حکومت اور اقتدار کے مالک ہیں۔ ان کی طرف سے افغانستان کے اکثر شہر لاک کر دیے گئے ہیں۔ البتہ وبا کے زیرِاثر کسی علاقے میں لاک ڈاؤن سخت ہے اور کہیں نرم ہے۔ اگر کابل انتظامیہ کی جانب سے کروناسے نمٹنے کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو اُس کی طرف سے پہلا اور آخری اقدام لاک ڈاؤن کانفاذ ہے۔اِس سے لوگوں کابے روزگار ہونا یقینی تھا۔کیوں کہ افغانستان معاشی لحاظ سے کمزور ملک ہے۔ اشرف غنی کے دعوے اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کی اب تک اقتصادیات اور معاشیات بارے  کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکی درندگی کی وجہ سے عوام کسمپرسی کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اس لیے لاک ڈاؤن سے مزدور طبقہ اور چھوٹے تاجر سخت متاثر ہوئے ہیں۔ کابل انتطامیہ نے اس کے ازالے کے لیے امدادی پیکج کااعلان کیا ہے۔ مستند ذرائع نے توثیق کی ہے کہ اس پیکج میں’5/4کلو آٹا، 5/4 کلو گھی اور چاول موجود ہیں۔ یہ امداد صرف کابل شہر کے اطراف میں محدود پیمانے پر مخصوص گھرانوں کو دی گئی ہے، جو بظاہر طاقت وَر سمجھے جاتے ہیں۔

دوسری طرف کرونا ٹیسٹ نظام کافی سست ہے۔ وائرس کو دوماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ کابل انتظامیہ کادعوی ہے کہ یہ نظام پوری طرح ایکٹیو ہے۔ اس کے باوجود اب تک 34 صوبوں میں صرف 8ہزار ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ یہ سب ٹیسٹ عوام نے اپنا شک دور کرنے کے لیے مہنگے خرچ پر کرائے ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے ٹیسٹ کرانے کا کوئی ایسا بندوبست نہیں ہے، جسے کہا جا سکے کہ ‘حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔’ کسی میڈیاچینل کو اب تک اس بارے کوئی رپورٹ نہیں ملی کہ انتظامیہ کے پاس سینی ٹائزر یا کرونا چیکینگ انتظام موجود ہے، جس سے عوام فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ ممکنہ طور پر وائرس سے کافی زیادہ لوگ متاثر ہوں گے، البتہ ٹیسٹ کے وسائل نہ ہونے سے کچھ معلوم نہیں کہ اگلے کچھ عرصے میں کیا ہونے والا ہے؟!

ادویات یا مریضوں کو مطلوب سہولیات کی فراہمی بارے انتظامیہ کی کارگردگی صفر ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں سب دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک ڈاکٹر رو روکر اپنی شکایت کر رہا ہے کہ ‘اس کا اپنا ڈاکٹر بھائی کرونا کِٹ اور دیگر ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اب وہ خود اس بیماری میں مبتلا ہے۔’ اس کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اس ڈاکٹر کے مطابق دو طالبان اس کے پاس آئے اور کچھ ادویات سمیت مالی امداد دے گئے تھے۔ اندازہ کیجیے کہ جب ڈاکٹروں کی یہ حالت ہو کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہوں تو وہ عوام کی کیا خدمت کریں گے اور عوام تک امداد کس طرح اور کون پہنچائے گا۔ افغانستان میں قرنطینہ سینٹر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہاں موجود مریض ہوں یا دوسرے ممالک سے افغانستان واپس آنے والے شہری ہوں، کسی کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی انتظام نہیں ہے۔

دوسری طرف طالبان ہیں۔ وہ تمام زندگی دشمنوں کی تہمت کا شکار رہے ہیں۔ اُنہیں بِکا ہوا جنگجو اور وحشی کہا گیا۔ اُنہیں انسانیت دشمن اور تعلیم و تہذیب سے نابلد کہا گیا۔ جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہی طالبان کرونا مسائل میں اپنی طاقت بھر عوام کے ساتھ مالی معاونت کر رہے ہیں۔ طالبان کے پاس افغانستان کا مکمل انتظام نہ ہونے کے باوجود وہ ایک حکومت کے بقدر کام کر رہے ہیں۔ طالبان نے قرنطینہ سینٹر کے لیے ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ اُن ڈاکٹرز کو باقاعدہ ٹریننگ دے کر مختلف علاقوں میں مامور کیا گیا ہے۔جس کا مقصد عوام کے لیے سہولت کی فراہمی اور ان کی صحت کی بحالی کا خیال رکھنا ہے۔ طالبان نے ڈاکٹر کے لیے کرونا کے مخصوص لباس کابندوبست کیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان نےعوام اور ملک کے لیے ہر ممکن حد تک خود کو پیش کیا ہے۔ یقیناً دنیا، خصوصاً افغان عوام دیکھ چکے ہیں کہ طالبان افغانستان سے مخلص ہیں۔ جب کہ کابل انتظامیہ سوائے اپنی جیب بھرنے کے کسی کام میں مشغول نہیں ہے۔

طالبان کی طرف سے عام اعلان کرایا گیا ہے کہ کرونا ٹیسٹ مشینیں نصب کرا دی گئی ہیں۔ ہر عام و خاص کے لیے اجازت ہے کہ جسے بھی کرونا کا شبہ ہو، وہ یہاں اپنا اطمینان کر سکتا ہے۔ عوام میں کرونا کے حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے حوالے سے آگاہی مہم کی خاطر سمجھ دار لوگوں کا انتخاب کیا گیا ہے، جو قریب اور دور کے علاقوں میں اس خطرے سے بچاؤ کا ہر ممکن اقدام کر سکیں۔

ایک طرف کابل انتظامیہ ہے، جسے اپنی تعلیم و تہذیب پہ بڑا ناز ہے۔اُسے  اپنی معیشت اور طرزِحکمرانی پر بہت اطمینان ہے۔ وہ صبح شام اپنی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ اس کی پشت پر اقوامِ متحدہ،نیٹو اور امریکا کی ہر طرح کی ٹیکنالوجی کارفرما ہے۔اُس نے اب تک افغانستان کو ترقی کے نام پر دنیا بھر کا 200 ملین ڈالر سے زیادہ کا مقروض بنا دیا ہے۔ کابل انتظامیہ کے سر پر دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک کا احسان ہے کہ اس نے وہاں سے امداد حاصل کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دہشت گردی کی تہمت کا شکار طالبان ہیں، جن کے پاس اب تک پیٹ بھرنے کو تک کھانا میسر نہیں ہے۔

کارگردگی دیکھی جائے تو طالبان کی کوششیں اپنے سے زیادہ مہذب یا ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ اطمینان بخش ہیں۔ یہی موقع ہے کہ افغان عوام اپنے مستقبل کے لیے کابل انتظامیہ اور امارت اسلامیہ میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے