تحریر: عبدالرزاق

رمضان کابابرکت اور رحمتوں سے لبریز مہینہ جیسے ہی مسلمانوں کی دہلیز پہ سایہ فگن ہوا،یار لوگوں کو پھر اپنی معصومیت نکھارنے اور دوسروں کی ہمدردی بٹورنے کاگویاموقع بلکہ گولڈن چانس دکھنے لگا،۲۳ اپریل کو کابل انتظامیہ کے رئیس اشرف غنی نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوے انہیں جنگ بندی کی ترغیب دی،مقدس مہینے کے تقدس کے پیشِ نظر انہیں (بقول ان کے) ناحق خون ریزی سے رک جانے کامشورہ دیا،اشرف غنی کی دیکھادیکھی میڈیانے بھی اس مطالبہ کو خوب ہوادی،نیٹو اور دیگر خارجی قوتوں نے بھی طالبان کے نام ایک پیغام میں جنگ بندی کی استدعاکی،تعاونِ اسلامی اور دیگر چند اسلام سے منسوب تنظیموں نے بھی جنگ بندی کو مصلحت سمجھا.

مطالبہ ان کاکہاں تک درست ہے؟اس پر آگے چل کر بات کرونگا،اس وقت مجھے وہ رمضان یاد آرہاہے جس وقت امریکہ نے مظلوم افغانستان کو اپنی درندگی کانشانہ بناکر دھاوابول دیاتھا،یہ ۲۰۰۱ میں واقع سخت سردیوں کاموسم تھا،لوگ سردیوں سے ٹھٹھررہے تھے اور امریکی ان کے لیے بموں اور بارود سے فضاء کو گرم رکھتے تھے،بچے، عورتیں پوری پوری رات ان ظالموں کے شب خونوں کے پیشِ نظر کھلے آسمان تلے گزارتے تھے،زمین پر سردیوں کی انتہاء تھی،فضاء سے چھلنی کردینے والے سامان کی بارش ہوتی تھی،ایسے میں اقوامِ متحدہ،او آئی سی اور دیگر اسلامی اور غیر اسلامی سیاسی،سماجی اور فلاحی تنظیموں اور اکثرممالک نے اس مقدس مہینہ میں جنگ بندی کامطالبہ کیاتھا،امریکہ تو اپنے غرور میں مبتلاتھا،اسے کہاں کسی پہ ترس آسکتاتھا،یہ لوگ جو آج طالبان کو جنگ بندی کی پٹی پڑھارہے ہیں ان کامطالبہ یہ تھاکہ طالبان جراثیم ہیں، ان کو زمین سے صاف کرناہی اس مقدس مہینہ کی تقدیس ہے،مجھے حیرانگی ہوتی ہے کس دھڑلے سے آج یہ لوگ تقدس تقدس کی باتیں پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں؟انہین شرم مارکیوں نہیں دیتی؟

جنگ بندی، امن، آشتی اور صلح کی حقیقت پر اگر غور کیاجاے تو صرف رمضان میں جنگ بندی سے ملت کی آرزو مکمل نہیں ہوپاتی،کیونکہ ایک مہینہ گر جانبِ مقابل تسلیم بھی کرلے تو اس کے بعد پھر وہی صورتِ حال ہوگی،البتہ امن کی فضاء بنانے کے لیے اور دائمی صلح اور آشتی لانے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ مؤثر ہے جس پر عقل اور نقل کااتفاق ہے وہ مذاکرات کی دہلیز ہے،مذاکرات ہی راہ سے یہ سب کچھ بڑی آسانی سے ممکن ہوسکتاہے.

اس تناظر میں اگر ہم دیکھے تو طالبان اور امریکہ کے درمیان کیے گئے معاہدہ میں یہ بات درج تھی کہ ٹھیک دس بعد بین الافغانی مذاکرات شروع ہونگے،البتہ مذاکراتی ماحول بنانے کے لیے اور اس کو سنجیدہ لینے کے لیے انہی دس دنوں میں کابل انتظامیہ طالبان کے پانچ ہزار قیدی اور امارت کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدیوں کو رہاکرے گی،ساتھ ہی کابل انتظامیہ ایک جامع اور تمام دھڑوں پر مشتمل مذاکراتی ٹیم تشکیل دے گا،اب اگر واقعی کابل انتظامیہ کو اپنی ملت کی عزت اور ان کے خون کی حفاظت عزیز ہوتی تو وہ انہی دس دنوں میں حسبِ معاہدہ قیدیوں کو بھی رہاکرتے اور ٹیم بھی تشکیل دیتے،لیکن دس دن سے آج دومہینے ہونے کوقریب ہے کابل انتظامیہ ٹیم بناسکااور نہ ہی قیدیوں کو ریاکرسکا،جس سے واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ انہیں اپنی مفادات سب سے زیادہ عزیز ہیں،انہیں ملت کی کوئی پرواہ نہیں،وہ بس صرف اور صرف اپنی اقتدار کو طول دیناچاہتے ہیں،وہ اپنی ملت کو غلامی کی زنجیر میں مزید جکڑناچاہتی ہیں،وہ کسی صورت امن کو برداشت نہیں کرسکتے کہ اس سے ان کی رہی سہی قوت ختم ھوتی ہے،

ملت کی طرف سے جب انہیں ملامت کاسامناکرناپڑتاہے تو وہ اوچھے ہتھکنڈوں پہ اترآتاہے، کبھی رمضان اور کبھی عید اور کبھی کسی اور مقدس دن ی آڑ میں عوام کی توجہ حاصل کرتاہے،حقائق مسخ کرنے کی کوشش کرتاہے،

حالانکہ ملت کاعقیدہ ہے کہ جہاد جیسے مقدس فریضہ کاثواب رمضان یادیگر مقدس دن کے موقع پر اور بڑھتاہے،اس کا مقدسات سے تصادم کبھی نہیں آتا،لیکن کفار کی غلامی میں پلے بڑھے چالوں سے گزارہ کرتے ہیں.

ملت کو اب سمجھناچاہیے کہ اگر کابل انتظامیہ، نیٹو اور امریکہ اگر واقعی امن چاہتے ہیں تو ہتھکنڈوں سے پرے وہ حقائق پہ آجاے معاہدہ کے مطابق قیدیوں کی رہائی عمل میں لاے اور مذاکراتی ٹیم تشکیل دے تب ہی امن ممکن ہوگاورنہ تو اس طرح کے مطالبے تمھاری نااہلی کو اور واضح کرتے ہیں اور تمھارے امیج کو کہیں کانہیں چھوڑتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے