ملامحمدعمر مجاہدکے والدکا نام مولوی غلام نبی ، دادا کانام مولوی محمد رسول اورپر دادا کانام مولوی باز محمد تھا۔ہجری شمسی سال 1339بمطابق 1960عیسوی افغانستان ، صوبہ قندہار، ضلع خاکریز کے گاوں چاہ ہمت کے ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ امیرالمومنین کے والد مرحوم مولوی غلام نبی صاحب بھی یہیں خاکریز میں پیدا ہوئے تھے اور اسی علاقے میں مختلف حلقہ ہائے  دروس میں دینی تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی علاقے میں دینی علوم کی تدریس اور وعظ ونصیحت کے باعث لوگوں میں ایک علمی اور سماجی شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔

ملا محمد عمرمجاہد کی پیدائش کے دوسال بعد ان کے والد ضلع خاکریز سے قندہار ہی کے ضلع ڈنڈ نودی گاوں منتقل ہوگئے اور آخر تک وہیں پر لوگوں کی دینی تعلیم وتربیت میں مصروف رہے ۔ان کا انتقال یہیں پر ھجری شمسی سال 1344 بمطابق 1965 عیسوی کو ہوا ۔ ان کی تدفین قندہار ہی میں طلبہ کے مشہور پرانے قبرستان میں کی گئی ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  اپنے والد کی وفات کے بعد پانچ سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ قندہار ضلع ڈنڈ سے اروزگان ضلع دہراود بھیجے گئے جہاں اپنے چچاوں مولوی محمد انور اور مولوی محمد جمعہ کی زیر سرپرستی ان کی زندگی کے ابتدائی مراحل طے ہونے لگے۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  آٹھ سال کی عمر میں دینی علوم کے حصول کے لیے اروزگان  ضلع دہراود کے شہرکہنہ کے علاقے میں ابتدائی دینی علوم کے ایک مدرسے میں داخل ہوئے ۔ مدرسے کے سرپرست ملامحمد عمر مجاہد کے چچا مولوی محمد جمعہ صاحب ہی تھا ۔ ملا محمد عمرمجاہدنے بھی اپنی ابتدائی تعلیم انہیں سے ہی حاصل کی ۔ ملا محمدعمرمجاہد کے دونوں چچاوں اور خصوصا مولوی محمد انور نے ان کی دینی تربیت میں خاص کردار ادا کیا۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  نے اپنی ابتدائی اور متوسطہ سطح کی تعلیم اسی مدرسے میں حاصل کی ۔اور اٹھارہ سال کی عمر میں افغانستان میں مروجہ اعلی دینی علوم کے حصول کا آغازکیا۔ مگراعلی دینی علوم کے حصول کے مرحلے پر 1978ء بمطابق 1357ھجری شمسی کو افغانستان میں کمیونسٹوں کو اقتدار ملنے کے باعث ان کے حصول علم کا سلسلہ ادھورا رہ گیا۔

قبیلے کے لحاظ سے ملا محمدعمرمجاہدکا تعلق پشتون قبیلےھوتک کی شاخ تومزی سےتھا۔ ھوتک پشتون قبیلے کی ایک بڑی شاخ ہے ۔ معاصر افغانستان کی تاریخ میں معروف اسلامی شخصیت حاجی میرویس خان ھوتک کے جیسے اسلام پسند ، مدبر ، قومی اور جہادی رہنما کاتعلق بھی اسی قبیلے سے تھا ۔عظیم فاتح حاجی میرویس خان ھوتک رحمہ اللہ جسے افغان عوام احترام سے  میرویس نیکہ کے قابل فخر نام سے یاد کرتے ہیں انہوں نے 1880 میں افغانستان کو صفوی ظالموں سے آزادی دلائی اور افغانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا خاندان پیشے کے اعتبار سے ہمیشہ علماء اور دینی مدارس کے مدرسین رہے ۔انہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالی کے دین کی خدمت ، شرعی علوم کی تدریس اور مسلمانوں کی دینی اور فکری تربیت کے لیے وقف رکھی ۔ اسی لیے انہیں اپنے علاقے میں بھرپور مقبولیت حاصل رہی۔ اور روحانی اعتبار سے معاشرے کی سب سے باوقار اور اجتماعی حیثیت رکھنے والی شخصیات رہیں ۔ اس طرح کے علمی اور روحانی ماحول میں ملامحمد عمر کی پیدائش اور پھر علمی و فکری  تربیت کرنے والے افراد کی مسلسل نگرانی میں ان کی نشونما نے انہیں جہادی اورفکری لحاظ سے یہ صلاحیت بخشی کہ افغان معاشرے کے دیگر افراد میں سےایک مخلص مجاہد ، جان پرسوز، بااحساس اسلامی اور قومی شخصیت کے طورپر نمایاں ہوکرابھرتے ۔ اور اپنے جہادی اوراصلاحی کوششوں کے ذریعےاپنے معاشرےکو کرپشن، ظلم اور بے انصافی  سےپاک کرتے اور اس ملک کو جو شکست وریخت کے دہلیز پرتھا اسے بچاتے ۔

ملامحمد عمر مجاہد کا خاندان ، بھائی اور چچا سب مجاہدین رہے ہیں ۔اوراب تک ان کی خاندان کے چار افراد شہید ہوچکے ہیں ۔ افغانستان پر امریکی جارحیت کے پہلے روز 7 ، اکتوبر 2001 کو ملا محمدعمر کے چچا ملامحمد حنفیا وہ پہلے شخص تھے جو امریکی جارحیت پسندوں کی بے رحمانہ بمباری میں شہید ہوگئے ۔

ملامحمدعمر مجاہد اپنی زندگی کے تیسرے عشرے میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ افغانستان میں کمیونسٹوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدارحاصل کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ اب ملا محمد عمر کی طرح ملک کے دیگر نوجوانوں کو بھی اپناتعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا ۔ کیوں کہ ملحد کمیونسٹوں کا پہلا مقابلہ پورے ملک کی سطح پر علماء اور طلبہ سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملامحمدعمر مجاہد نے بھی ضروری سمجھاکہ اپنی دینی تعلیم ادھوری چھوڑکر اپنی شرعی ذمہ داری نبھانے کے لیے مدرسہ چھوڑ کر جہادی محاذ کا رخ کریں ۔

یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا جہادی سلسلہ اروزگان ضلع دہراوود میں حرکت انقلاب اسلامی کی تنظیم میں شروع کیا ۔ اس ضلع میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد وہ صوبہ اروزگان کی سطح پر ایک معروف جہادی رہنما کی حیثیت سےابھرے۔ انہوں نے اس صوبے کے مختلف حصوں میں کمیونسٹوں کے خلاف متعددعسکری کارروائیوں میں فعال کردار ادا کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی اس جہادی شہرت اور جہادی کارروائیوں میں قابل ذکر کردار  کی وجہ سے وہ مجاہدین  میں اتنے مقبول اور پہچانے جانے لگے کہ ضلع دہراوود میں جب مختلف علاقوں کے مجاہدین نے دشمن کے خلاف وسیع پیمانے پر گروپ حملوں کا منصوبہ بنایا تو تمام جہادی محاذوں سے آئےہوئے مجاہدین کامرکزی گروپ کمانڈرملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  ہی کو متیعن کیا گیا ۔ ان کارروائیوں میں بھی انہوں نے بھرپور کامیابی دکھائی ۔ انہیں جنگوں میں وہ پہلی مرتبہ زخمی ہوئے ۔ انہوں نے تین سال سے زیادہ عرصہ اپنے علاقے کے مجاہدین کے ساتھ روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف آمنے سامنے جنگوں میں شرکت کی ۔

ملا محمد عمر کے محاذ کے ساتھی اور قائدین کہتے ہیں کہ ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  اخوند اس وقت یعنی جہاد کے آغاز میں باوجود اس کے کہ کم عمر تھے ۔ مگر ہر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے تھے اور بہت اچھی صحت  اور طاقت کے مالک تھے ۔

اس کے بعد 1983ء میں اپنے جہادی ساتھیوں کے ساتھ جہادی سرگرمیوں کی نئی صف بندی اور تنظیم سازی کے لیے قندہار کےضلع میوند گئے اور وہاں حرکت انقلاب اسلامی کے مشہور جہادی کمانڈر فیض اللہ اخندزادہ کے محاذپر روسی جارحیت پسندوں اور ان کے کمیونسٹ کٹھ پتلیوں کے خلاف مسلح جہاد جاری رکھا ۔قندہار میں بھی بےشمار جہادی کارروائیوں میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ فوجی تیکنیکوں میں اچھی مہارت اور شہرت کے باعث علاقائی جہادی کمانڈروں کی سطح پر جہادی تنظیموں کی توجہ کا مرکزبن گئے ۔ اس طرح انہیں مولوی محمد نبی محمدی کی قیادت میں قائم حرکت انقلاب اسلامی کی تنظیم کی جانب سے انہیں مستقل گروپ اور محاذ دیا گیا جس کے وہ کمانڈر بنائے گئے ۔

سن 1983 سے 1991تک ملا محمدعمر مجاہد صوبہ قندہار میں  ژڑی، میوند ، پنجوائی اور ڈنڈ کے اضلاع جو سوویت فوجیوں کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان کے مضافات میں تقریبا روزانہ جہادی کارروائیاں کرتے رہے۔ روز دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی ۔ اسی طرح صوبہ زابل ضلع شہر صفا اور مرکز قلات کے مضافاتی علاقوں میں کابل قندہار شاہراہ پر روسی جارحیت پسندوں کے خلاف قابل ذکر کارروائیاں کیں ۔ جس میں وہ بذات خود شریک رہے ۔ ملا محمد عمرمجاہدکا سب سے پسندیدہ اسلحہ جسےوہ روسی ٹینکوں کے خلاف استعمال کرتے انتہائی موثر ہتھیار  «  R.P.G.7»  تھا ۔ جسے مجاہدین راکٹ کے نام سے جانتے تھے ۔ انہیں راکٹ کے چلانےمیں انتہائی مہارت بھی حاصل تھی ۔ یاد رہے قندہار خصوصا میوند ، ژڑی اور پنجوائی کے علاقے کمیونزم کے خلاف جہاد میں وہ علاقے تھے جن کا روسی شکست میں محوری اور مرکزی کردار تھا ۔ اس علاقے میں قندہار ہرات شاہراہ پرکمیونسٹوں کے اتنےزیادہ ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہوئی تھیں کہ سڑک کے دونوں کناروں پر دشمن نے مجاہدین کے حملوں سے بچنے کے لیے ان تباہ شدہ گاڑیوں اور ٹینکوں کی دیوار سی بنالی تھی ۔

ملا محمد عمرمجاہد سوویت فوجیوں کے خلاف براہ راست کارروائیوں اور جنگوں میں 4 مرتبہ زخمی ہوئے اور آخری بار زخمی ہوئے تو ان کی  داہنی آنکھ بھی ضائع ہوگئی ۔

ملا محمد عمرمجاہد قندہار اور پڑوسی صوبوں کی سطح پرروسی جارحیت پسندوں اور داخلی کمیونسٹوں کے خلاف جہاد میں ایک نمایاں کمانڈر رہے ۔ جنہوں نے بہت سی جہادی کارروائیوں میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ ذیل میں روس کے خلاف جہاد کے دوران ان کے ساتھیوں کی زبانی چندواقعات کا تذکرہ بطور مثال کریں گے ۔

۔1: صوبہ قندہار میں دشمن کی ایک نہایت اہم پوسٹ جسے "بدوانو پوسٹ” کہا جاتا تھا۔ اس پوسٹ کے ساتھ انتہائی حساس اور مضبوط جگہ پر دشمن نے ایک ٹینک کھڑا کیا تھا جس کی گولہ باری سے مجاہدین بہت تکلیف میں تھے ۔ مجاہدین نے کئی بار کوشش کی کہ اس ٹینک کو گولے سے اڑادیں اور مجاہدین کو اس کی شر سے نجات دلادیں مگر باربار کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہوسکا ۔  مجاہدین نے مدد کے لیے سنگ حصار سے ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کو بلا یا ۔ بالآخر ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے اپنے آر پی جی راکٹ سے اس ٹینک کو ” بدوانو پوسٹ” کے ٹینک کے نام سے مشہور تھا نشانہ بنایا۔ اس ٹینک کی تباہی اس وقت مجاہدین کی بہت بڑی کامیابی سمجھی گئی ۔

۔2: روس کےخلاف جہاد کے دوران قندہار محلہ جات کے علاقے میں ایک مرتبہ روسیوں سے آمنے سامنے لڑائی میں ایک اور ممتاز مجاہد ملا عبیداللہ اخند جو بعد امارت اسلامیہ کے وزیر دفاع امریکی جارحیت کے بعد امیرالمومنین کے نائب رہے ان کے ساتھ مل کر ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  نے دشمن کے اتنے ٹینک اور گاڑیاں تباہ کیں کہ اگلے دن دور سے جلے ہوئے گاڑیوں اور ٹینکوں کی قطاریں دیکھ کر دیکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ روسیوں کی کانوائے ابھی تک وہی کھڑی ہے اور روسی ابھی گئے نہیں ہیں ۔ حالانکہ کانوائے کی اکثر گاڑیاں جل کر راکھ ہوگئی تھیں اور بقیہ فوجی اور کانوائے واپس پیچھے کی جانب اپنے مراکز کی طرف لوٹ گئے تھے ۔

۔3: روس کے خلاف جہاد کے دوران قندہار ہرات شاہراہ پر ضلع ژڑی میں سنگ حصار کے علاقے میں روسی ٹینک گذررہے تھے ۔ اس وقت ملا محمدعمر کے ساتھ ان کے ساتھی اور بعد میں امارت اسلامیہ کے نائب مقرر ہونے والے نمایاں کمانڈر ملا برادر اخوند ان کے ساتھ تھے ۔ روسی قافلے پر حملے کے لیے ان کے پاس آر پی جی کے صرف 4 گولے تھے ۔ انہوں نے انہیں چار گولوں سے دشمن کے خلاف جنگ شروع کی اور راکٹ کے چار گولوں سے چار روسی ٹینکوں کو تباہ کرڈالا ۔

۔4: ملا برادر اخوندجو جہادی سفروں میں ملا عمر کے قریب رہے کہتےہیں کہ ملا صاحب نے اتنے زیادہ روسی ٹینک تباہ کیے ہیں کہ کثرت تعداد کی وجہ سے ساتھی اس کی صحیح گنتی نہیں کرسکتےتھے ۔

سن 1991 میں ڈاکٹر نجیب کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے اور ملک میں تنظیمی جھگڑوں کےآغاز کے ساتھ دیگر مخلص مجاہدین سمیت ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے اپنا اسلحہ اتارا اور اپنے جہادی خطےقندہارضلع میوند سنگ حصار میں گیشانو گاوں میں حاجی ابراہیم مسجد کے ساتھ ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور اسی مدرسے میں رہنےلگے ۔ مشکلات اور مصائب سے بھر پور 14 سالہ دور جہاد کے بعد ایک بارپھر اپنے چندمجاہدین ساتھیوں کے ساتھ اپنے ادھورے حصول علم کے سلسلے کی تکمیل کرنے لگے ۔ یہ وہ وقت تھا جب کابل سمیت پورا ملک بے مقصد تنظیمی جھگڑوں میں جل رہا تھا ۔ کچھ تنظیمی جنگجووں نے اپنے ذاتی مقاصد اور ہوس کے حصول کے لیے جہاد کے ذریعے حاصل کی ہوئی مقدس منزل ادھوری چھوڑ دی اور ڈیڑھ ملین افغان شہداء کی پاکیزہ خواہشات یوں ہی پامال کردیں ۔

کمیونسٹ حکومت کے خاتمےکے بعد بجائے اس کے اسلامی نظام کی تاسیس کی جاتی اور مجاہد عوام کے سالہا سال کی خواہشات کی تکمیل ہوجاتی ان کے درمیان آپس کی جنگیں شروع ہوگئیں ۔ مخلص اور حقیقی مجاہدین کو ایک منظم سازش کے تحت کمزور کردیا گیا یا کونے سے لگایا گیا۔ کچھ جہادی تنظیمی رہنماوں نے کچھ ایسے کمیونسٹ رہنما جن کا بجائے اس کے کہ ان کا محاسبہ کرتے انہیں اپنے ساتھ ملا یا اور دیگر کچھ رہنماوں نے عوام میں لوٹ مار اور ان کو بے آبرو کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ ملکی خزانے اور مشترکہ قومی وسائل کی لوٹ مار کی ۔

اس طرح پورے ملک میں خانہ جنگی ، فسادات اور لوٹ مار کا ایسا دور آ گیا کہ شاید افغان عوام نے اس سے قبل اس کی مثال نہ دیکھی ہو ۔ مومن عوام کی جان ، مال اور ناموس کو ہروقت خطرات کا سامنا ہونے لگا۔ ملک کی شاہراہوں اور چھوٹی سڑکوں پر خود سر ، جاہل اور رذیل صفت جنگجووں نے بیریئراور پھاٹک بناڈالے ۔ ہر ایک اپنی مرضی سے بے کس اور بے سہاراعوام سے نہ صرف یہ کہ پیسے لوٹتا بلکہ عوام کی عزت اور ناموس کی بھی کوئی پروا نہ کرتا ۔ ملک کے قومی ذخائر ، مادی اور روحانی سرمائے ، جہادی غنیمتوں حتی کہ ملک کے جنگلات اور معدنی ذخائر کا ایسا لوٹ مارکیا گیا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ مومن اور مجاہد عوام جنہوں نے 14 سال تک جہاد کیا تھا نہ صرف یہ کہ جہاد کے ثمرات سے محروم کیے گئے بلکہ  روزانہ کی بنیاد پر ان کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہوگئیں ۔

ہنگاموں اور فتنوں کے باعث معاشرتی فساد ، قتل وقتال ، لوٹ مار ، مظالم ، وحشتیں اور مسلمانوں کی تکالیف لمحہ بلمحہ بڑھ رہی تھیں۔ ان حالات نے ان حقیقی مجاہدین کو جنہوں نے ملک کی آزادی اور سربلندی کے لیے لڑائی کی تھی شدید اذیت میں ڈال رکھا تھا۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  جو اس وقت اپنے مجاہدین ساتھیوں کے ساتھ قندہار ضلع میوند میں رہ رہے تھے ۔ دیگر مجاہدین کی طرح وہ بھی گہری نظر سے حالات کو دیکھ رہے تھے ۔ حالات نے انہیں بھی بہت زیادہ متفکر کردیا تھا ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ قندہار ہرات شاہراہ پر قدم بقدم پھاٹک بنادیے گئے ہیں اور سارا سارا دن ملک کے مظلوم مسافر ، خواتین ، بوڑھےاور بچے ان بداخلاق اور جاہل جنگجووں کے ہاتھوں لوٹے جاتے ہیں ۔ ان کی عصمت دری ہوتی ہے ۔ اس دور میں قندہار میں ظالمانہ ٹیکس کے پھاٹک اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ جو لوگ ہرات سے قندہار ضلع ویش بارڈر تک سامان لے کر جاتے وہ اپنا سامان ہرات سے لاکر میوند میں اتارتے اور عام شاہراہ کی بجائے ریگستانوں کے راستے انتہائی تکلیف سے ویش بارڈر تک پہنچاتے۔ تاکہ ان پھاٹکوں کے شر سے محفوظ رہیں ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  اور ان کے  مجاہد ساتھیوں کو قندہار کے حالات بھی معلوم تھے ۔ جہاں خود سرمسلح لوگوں نے شہر کو گلی گلی آپس میں تقسیم کیا تھا ۔ بیت المال کی املاک کو ہمیشہ لوٹ کر بیچ دیا جاتا ۔ حکومتی زمینوں پر ذاتی مارکیٹیں قائم کی گئیں ۔ اس کے باوجود وہ آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے جس میں اکثر اوقات عوام نشانہ بنتے ۔

اسی فساد نے جس کا کوئی خاتمہ بھی نظر نہ آتا تھا مجاہدین کو اس بات پر مجبور کردیا کہ فسادات کے خاتمے اور عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی استطاعت کے مطابق ہمت سے کام سے لیں ۔ مجاہدین نے آپس میں مشاورتیں اور اجلاس بلائے۔ ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ اوران کے ساتھیوں نے پہلا اجتماع قندہار ضلع پنجوائی کے علاقے زنگاوات میں علاقے کے مشہور علماء اور مشائخ کے ساتھ منعقد کیا ۔ روس کے خلاف جہاد کے دور میں مجاہدین کے مرکزی قاضی مولوی سیدمحمد صاحب )جو مولوی پاسنی کے نام سے مشہور تھے ( نے ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  سے کہا کہ وہ فساد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ہم سب تمھاری حمایت کریں گے ۔ اسی اجلاس میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی اور 15 محرم الحرام 1451ھ  کو فساد اور ظلم کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا گیا ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کی قیادت میں اسلامی تحریک نے فساد اور ظلم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ۔ جس کی پکار پر عوام اور حقیقی مجاہدین نے وسیع پیمانے پرلبیک کہا ،۔ پہلے قندہاراور پھر افغانستان کے اکثر حصوں سے فسادیوں اور مسلح لوگوں کا صفایا کیا۔ اس وقت جب ملک کے اکثرحصے طالبان کے زیر تسلط آگئے تھے 15 ذی قعدہ 1416 کو افغانستان بھر کے علماء کرام کا ایک اجتماع  جن کی تعداد 1500 تھی قندہار میں منعقد کیا گیا جس میں تمام علماء نے متفقہ طورپر ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کے امارت کی تائید کی اور انہیں امیرالمومنین کا خطاب دیا ۔ 1375ھجری شمسی سال کے میزان کی چھ تاریخ کو افغانستان کا دارالحکومت کابل بھی امارت اسلامیہ کے زیر تسلط آگیا ۔ جس کے بعد افغانستان کے تمام مرکزی اور شمالی علاقوں سمیت 95فیصد علاقے میں امارت اسلامیہ کی حاکمیت مضبوط ہوگئی ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کی قیادت میں امارت اسلامیہ افغانستان نے افغانستان میں شریعت کی بنیادوں پر قائم اسلامی نظام قائم کیا ۔ جہاں ایک طویل عرصے بعد ایک بارپھر اسلامی نظام کے قیام کی ایک زندہ مثال پیش کی ۔ ملک کو شکست وریخت اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا ۔ عام لوگوں سے اسلحہ چھین کر ملک کو اسلحہ سے پاک کیا اور اس طرح ایک بے مثال امن قائم کیا  ۔ حالانکہ اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا اس سے گھبرا رہی تھی ۔ عالمی کفر  کی جابر قوتوں سے شریعت اور امارت کی یہ حکومت برداشت نہ ہوسکی اس لیے اس کے خلاف دشمنی پر مبنی موقف اختیار کیا گیا اوربے جا طورپر بہانے تراشنے کی کوشش کی گئی ۔ یہاں تک کہ آخر کار اس ملک پرمشترکہ فوجی جارحیت اور حملہ کیا گیا ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  ایک قائدانہ شخصیت کے مالک اور اپنی ایک خاص طبعیت اور سلیقہ رکھتے تھے ۔ انہیں دنیا بھر کے دیگر حکام اور بلند مرتبت شخصیات کے برعکس خود نمائی اور دکھلاوے سے شدید نفرت تھی ۔ بے ضرورت گفتگو نہیں فرماتےتھے ۔ مگر ضرورت کے وقت ان کی باتیں انتہائی پختہ ، سوچی سمجھی اور معقول ہوتی تھیں ۔ مثال کے طورپر افغانستان پر امریکی جارحیت کےآغاز کے موقع پر امارت اسلامیہ کے خاتمےاور پروپیگنڈے کے ذریعے مجاہدین کا حوصلہ کمزور کرنےکے لیے امریکا کی کوششیں انتہائی تیزی سے جاری تھیں ۔ پوری مغربی دنیا کی ذرائع ابلاغ اور ریڈیو اور ٹی وی چینلزاسی کام کے لیے وقف کردیے گئے تھے ۔

مگر ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  نےان تمام شیطانی پروپیگنڈوں اور دشمن کی تمام کوششوں کے مقابلے میں انتہائی اطمینان ،پراعتماد لہجے اور پر عزم حوصلہ کے ساتھ سادہ اور عام فہم الفاظ میں اپنی قوم کو اطمینان دلایا اور معنی خیز پیغام دیا کہ :”اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔ اللہ تعالی کے سامنے امریکا اور ایک چیونٹی دونوں ایک برابر ہیں ۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ امارت اسلامیہ ایسا نظام نہیں کہ اس کا امیر ظاہر شاہ)افغانستان کے سابق بادشاہ ( کی طرح روم چلا جائے گا اور فوج تمھارے سامنے ہتھیار ڈال دے گی ۔ بلکہ یہ جہاد کے منظم محاذ ہیں

اگرتم شہروں اور دارالحکومت پر قابض ہو بھی جاو۔ اسلامی حکومت کو گرا بھی دو تو ہمارے مجاہدین دیہاتوں اور پہاڑوں میں چلے جائیں گے ۔ تب پھر تم کیا کروگے ؟ پھر کمیونسٹوں کی طرح ہر جگہ مارے جاوگے ۔ تم جان لو کہ بد انتظامی اور جنگ پیدا کرنا آسان ہے مگر اس بدانتظامی اور جنگ کا خاتمہ کرنا اور ایک نظام قائم کرنا بہت مشکل ہے ۔ موت برحق ہے اورسب کو آئے گی ، امریکا کی حمایت میں بے ایمانی اور بے غیریتی کی حالت میں موت آئے تو اچھا ہوگا یا اسلام میں، ایمان کے ساتھ اور غیرت کی حالت میں آئے زیادہ بہتر ہوگا؟

ممکن ہے اس وقت بہت سے لوگ ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کا یہ خالص عقیدے پر مبنی بیان بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آیا ہو مگر ابھی جب اس غیر متوازن جنگ کو تقریبا چودہ سال ہورہے ہیں اور امریکا سمیت ناٹو اتحاد اوران کے دیگر تمام اتحادی ملا محمد عمر کے تہی دست مگر اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم مجاہدین کے مقابلے میں واضح طورپر شکست کھارہے ہیں ۔ حضرت کے اس تاریخی بیان کی حقیقت سمجھ چکے ہوں گے ۔

اسی طرح انہوں نے امریکی جارحیت کے آغاز میں افغان عوام سے ایک ریڈیوخطاب میں جارحیت پسندوں اوران کے کٹھ پتلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ": اسلحہ موت دے سکتا ہے مگر موت سے بچا نہیں سکتا "۔ یہ جملہ اس وقت کچھ لوگوں کو ایک بے مفہوم ترکیب نظر آرہی تھی مگر آج تیرہ سالوں میں اس مضمون کا عینی مصداق عالمی دنیا  نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔ جارح قوتوں نے اپنی جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے بہت سے لوگوں کو مارا مگر اپنے آپ کو موت سے نہیں بچا سکے اور تیرہ سال سے مسلسل ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قیادت میں غیور مجاہدین کے ہاتھوں مررہے ہیں ، زخمی ہورہے ہیں یا گرفتار کیے جارہے ہیں ۔اور یہ ایک عینی واقعہ ہے کہ اب جدیدوسائل اور ٹیکنالوجی سے مسلح مغرور قوتیں بھی افغانستان میں اپنے ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کررہی ہیں ۔

ان کا خیال تھا کہ  زیادہ بولنے سے کم عمل زیادہ اچھا ہے ۔ ان کی زندگی تکلفات سے پاک  تھی ۔ ان کی سادگی اوربے تکلفی ان کی زندگی کے تمام پہلو پر حاوی تھی ۔ سادہ لباس ، سادہ خوراک ، بےتکلف گفتگو ، بے تکلف اٹھنا بیٹھنا ان کی فطری عادتیں تھیں۔ تکلف ، متکلف شخص اور متکلفانہ چال چلن انہیں بالکل پسند نہیں تھیں۔

وہ دو ٹوک پن ، تدبراور اخلاص کو کام کی ترقی کے بنیادی اسباب قرار دیتے تھے اور ساتھیوں میں انہیں  وہ شخص پسندہوتا جو مدبر مخلص اور صاف گو ہو تا۔

اسی طرح انہوں نے مشکلات ، مصائب اور آزمائشوں کا خود کو عادی بنادیا تھا ۔ ہر طرح کے بڑے حادثےاور مشکلات میں ان کا ردعمل معمول کا سا ہوتا تھا۔ خوف اور گھبراہٹ کاان کے دل میں گذربھی نہ ہوتا ۔ خوشی اورپریشانی ، کامیابی اور ناکامی ہرحال میں خود پر بہت زیادہ کنٹرول رکھتے  مطمئن رہتے تھے۔

علماء اور بزرگوں کااحترام کرتےتھے ۔ سنجیدگی ،وقار ، حیاء ،ادب ، متقابل احترام ، ہمدردی ، ترحم اور اخلاص ان کے طبعی خصائل تھے  ۔ مضبوط عزم اورتمام امور میں ایک اللہ پرتوکل اور اللہ تعالی کی قائم کردہ اقدار پرسچااعتمادان کی زندگی کی خاص خصوصیات تھیں ۔

یہی وجہ ہے کہ انکے ماننے والوں اور مجاہدین کے دل میں ان کے لیے ایسی محبت موجود ہے جس کا تعلق نہ ظاہری منصب کے ساتھ ہے اور نہ مادی وسائل کے ساتھ ۔ ابھی جب جارحیت پسندوں کی جانب سے افغانستان پر قبضہ کے تیرہ سال گذرچکے ہیں ان کی قیادت میں کام کرنے والے عام مجاہدین انہیں بالمشافہہ دیکھے بغیرصرف ان کے صوتی اورمکتوباتی حکم کا اس قدراحترام کرتے تھے  کہ اس کی تعمیل کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو بھی تیار ہوتے تھے  ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  تحریک اسلامی طالبان کے موسس اور مسلمانوں کے ایک رہنما کی حیثیت سے امت مسلمہ کے مسائل کے حوالے سے خاص اہتمام کرتے تھے ۔

مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور فلسطینی مسلمانوں کے برحق موقف اور دنیا بھرمیں دیگراس طرح کے مقامات پر عالم اسلام کے موقف  کاانہوں نےہمیشہ دفاع کیا۔ وہ غاصب صہیونیوں سے مسجد اقصی کی آزادی ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔

ملا محمدعمر مجاہدامت مسلمہ کے درد سے درد مند رہنماتھے۔ مسلمان بھائیوں کے ساتھ اخوت  ، ہمدردی ، ایثاراور تعاون صرف ان کا نعرہ نہیں تھا بلکہ اس دعوی کو انہوں نے ہمیشہ عملا ثابت کیا  ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  عقیدے کے اعتبار سے مسلمانوں کے اہل سنۃ والجماعۃ کے منہج کے راہ رو حنفی مسلک کےمقلد تھے۔

خرافات اور بدعات کے سخت مخالف تھے ۔ مسلمانوں کے درمیان مذہبی ، فکری اور تنظیمی اختلافات انہیں بالکل پسند نہیں تھے ۔ اپنےمجاہدین اور اور تمام مسلمانوں کو آپس میں اسلامی اتحاد اور فکری ہم آہنگی کی بنیادیں مضبوط کرنے کی نصیحت اور تاکید کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے درمیان عقیدے کا اتحاد اور یگانگت وقت کی اہم  ترین ضرورت قرار دیتےتھے ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کے نقش قدم پر چلنےکو امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ قرار دیتے تھے ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی زندگی کا اکثر حصہ دینی علوم کے حصول ، مطالعہ ، جہاد ، دعوت اور اسلام کی خدمت میں گذارا ۔ افغانستان کے معاصر حکام میں سے شاید سب سے زیادہ غریب اور بیت المال کا مال استعمال نہ کرنے والے شخص تھے ۔ کیوں کہ نہ گذشتہ جہاد کے دور میں انہوں نے اپنے جہادی اثرورسوخ کوبرروئے کار لاکراپنی ذاتی زندگی کے لیے کچھ حاصل کیا اور نہ افغانستان پرامارت اسلامیہ کے 7 سالہ دور حکومت میں ایسا کوئی اقدام کیا ۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کے پاس ملکیتی کوئی مکان نہیں تھا اور نہ ہی بیرون ممالک کی بینکوں میں ان کی کوئی نقد رقم رکھی ہوئی تھی ۔

سن 1999 میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی جانب سے افغانستان پرظالمانہ یک طرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں اوربیرون ممالک کے بینکوں میں طالبان قائدین کے مالی حساب کتاب کی جانچ پڑتال کا حکم دیاگیا ۔ ملا محمد عمرمجاہد امارت اسلامیہ کے امیر کے طور پر امارت اسلامیہ کے سب سے  بڑے رہنما تھے ، ان کے ذاتی یا فرضی کسی نام سے افغانستان کے باہر یا اندر کسی بینک میں کوئی اکاونٹ موجود نہیں تھا۔

امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں ان کا رہائشی مکان دشمنوں کی جانب سے خطرناک حملوں کا نشانہ بنا ۔ جس سے ان کے خاندان کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر لوگ بھی شہید ہوئے ۔اس لیے امارت اسلامیہ کے کچھ رہنماوں نے ان کی حفاظت کی خاطر قندہار شہر کے شمال مغرب میں "باباصاحب کوتل” کے زیریں علاقے میں جہاں قریب قریب میں کوئی عام آبادی نہیں تھی ان کے لیے ایک رہائشی مکان اور امار ت اسلامیہ کے مرکزی امیر کا دفتر تعمیر کروایا ۔ جوتصرف کے اعتبار سے بیت المال کے عمومی املاک میں سے سمجھاجاتا تھا نہ کہ ان کی ذاتی ملکیت ۔

سن 1996 میں ملک کے 1500 بااثر علماء اور مشائخ کی جانب سےجب انہیں امارت اسلامیہ کے امیر المومنین کالقب دیا گیا تو انہوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اتنا روئے کہ ان کےکندھے پر موجود چادرآنسووں سے تر ہوگئی۔ اور آخر میں انہوں وہاں موجود علماء سے اپنے تاریخی خطاب میں کہا :” اے علماء !آپ اپنے شرعی علم کی بناء پر انبیاء کے وارث کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ لوگوں نے آج جو بھاری ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈالی ہے درحقیقت اس کی استقامت یا انحراف کی ساری ذمہ داری سب آپ پر ہے ۔

اے ہمارے اساتذہ کرام اور قابل  قدر علماء ! خدانخواستہ اگر ہم سے مسلمانوں کی اس بڑے امانت میں کوئی تقصیر یا انحراف ہوجائے اس کی درستگی اور اصلاح آپ کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ آپ لوگ اپنے شرعی علم کی روشنی میں طالبان مجاہدین کی استقامت اور انہیں راہ حق پر چلنے کی راہنمائی کریں گے ۔ اگر طالبان سے اسلامی احکام کے نفاذ کے حوالے سے کوئی کوتاہی یا انحراف کا ارتکاب ہوجائےاور تم اسے دیکھ لو اور اصلاح کے لیے کچھ بھی نہ کہو تو اس کی ذمہ داری اللہ تعالی کے ہاں ساری آپ پرہوگی اور میں سوال وجواب کے دن تمھارا گریبان پکڑوں گا۔

ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  اپنی خاموشی کے ساتھ ساتھ ایک خاص ظرافت اور خوش طبعی کا مزاج بھی رکھتے تھے ۔ وہ کسی بھی شخص کو جو ان سے کتنا ہی کم عمر کیوں نہ ہو خود کو بڑا نہیں سمجھتےتھے ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کا سلوک انتہائی محبت آمیز ، صمیمانہ ، مشفقانہ اور باہمی احترام کا ہوتا تھا۔ مجالس میں اکثر جہاد کے حوالے سے بیان اور گفتگو کرتے تھے ۔

موجودہ شدید ترین سیکیورٹی حالات اور دشمن کی جانب سے ان کی شدید نگرانی کی وجہ سے ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے روازنہ کے معمولات اورامارت اسلامیہ کے زعیم کی حیثیت سے جہادی امور کی نگرانی اور تنظیم سازی کی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔

وہ اپنے کام کے دن کا آغاز اللہ تعالی کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت میں سے کرتے  ۔ فرصت کے لمحا ت میں قرآن کریم کےمختلف تفاسیر کا مطالعہ کرتے  ۔ جارحیت پسندوں کے خلاف جہادی امور کی نگرانی پوری باقاعدگی سے کرتے ۔ جہادی اور عسکری امور کی ترتیب  اور سنبھالنےکےلیے اپنے متعینہ طریقہ کار کے مطابق جہادی کمانڈروں کو احکامات اور توجیہات صادر کرتے  ۔ جہادی نشریاتی ذرائع اور عالمی میڈیا کا بھرپور مطالعہ کرکے جارح دشمن کے خلاف جہادی کامیابیوں اور دیگر موضوعات کے متعلق معلومات حاصل کرتے  ۔ اور اسی طریقے سے ملک کے اندرونی اور عالمی دنیا کے حالات سے خود کو باخبر رکھتےتھے ۔ یہی مصروفیات ان کی یومیہ روز مرہ زندگی کا بنیادی مشغلہ تھیں ۔

انہوں نے امارت اسلامیہ کے زعیم کی حیثیت سے باوجود اس کے کہ دشمن کیجانب سے ان کی شدید تلاش جاری تھی۔ ان کےسرکا انعام دس لاکھ ڈالربھی رکھا گیاتھا۔ مگر وہ کبھی افغانستان سےباہرنہیں گئے۔ یہاں تک کہ اسی جہادی تحریک کے دوران لاحق شدہ بیماری کےباعث انتقال کرگئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

ان کی وفات کا اعلان امارت اسلامیہ کی رہبری شوری اور ان کے خاندان کی جانب سے 14شوال 1436ھ کو ہوا ۔

ملا محمدعمرمجاہد اسلامی دنیا کی سطح پر ایک محبوب رہنما تھے ، ان کی وفات پربہت سے لوگ رنجیدہ ہوئے اوردنیا کےکونےکونے سےلوگوں نے ان کی وفات پرغم کا اظہار کیا۔

امارت اسلامیہ افغانستان کی رہبری شوری اور ان کے خاندان کی جانب سے ان کےوفات کی مناسبت سےنشر ہونے والے اعلامیہ میں کہاگیاہے ” ملا محمدعمر مجاہد جو امریکاکی قیادت میں عالمی کفری جارحیت کے خلاف پورے دباو اور تلاش کے باوجود ملک کے اندررہے ۔ افغانستان پر امریکی جارحیت کے آغاز سے وفات تک کے طویل عرصے میں ایک دن کےلیے بھی افغانستان سے باہر، پاکستان یاکسی اورملک نہیں گئے ۔ اور اپنے رہائشی مکان ہی سے امارت اسلامیہ کی قیادت کرتے رہے ۔ ان کی اس عظیم استقامت اورملک سے باہر نہ جانے پر مضبوط شواہد اوردلائل موجود ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل لاحق ہونے والی بیماری کے باعث جو آخری دوہفتوںمیں شدیدبڑھ گئی تھی انتقال کرگئے ۔

امیرالمومنین ملامحمدعمرمجاہد نےامارت اسلامیہ کوایک بڑی تحریک کی حیثیت سے اس طرح مضبوط اوررواں کیاکہ اپنے پیچھے مضبوط بنیادیں ، مخلص اور باتدبیرساتھی اور منظم تشکیلات چھوڑیں ۔اس لیے مجاہدین اورتمام مسلمان مطمئن رہیں کہ تمام ذمہ داران اور افراد اللہ تعالی کی نصرت اور مسلمانوں کے تعاون سے امارت اسلامیہ کی نئی قیادت کے زیر سایہ اس کارواں کو عالیقدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ  کے آرزوں اور تمناوں کے مطابق منزل مقصود تک پہنچائیں گے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔ والسلام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے