تحریر: سیف العادل احرار
کابل انتظامیہ کے حکام نے گزشتہ دنوں مضحکہ خیز دعوی کیا کہ انہوں نے ایک کامیاب کارروائی کے دوران داعش خراسان کے سربراہ عبد اللہ اورکزئی المعروف اسلم فاروقی کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا اور کریڈیٹ لینے کی کوشش کی جس پر تجزیہ کاروں اور ملک کے مختلف طبقات نے حیرت کا اظہار کیا جبکہ امارت اسلامیہ کی جانب سے خبر سامنے آئی کہ کابل حکام کی جانب سے یہ دعوی کہ انہوں نے داعش کے سربراہ کو گرفتار کیا ہے درست نہیں بلکہ انہوں نے خود ہتھیار ڈالے ہیں ۔
روزنامہ مسیر کے اداریے میں لکھا گیا تھا کہ خود کو دولت اسلامیہ خراسان کہنے والی شدت پسند تنظیم کے سربراہ اسلم فاروقی گرفتار ہوئے یا انہوں نے خود کو حکام کے حوالے کیا اس بارے میں ابہام موجود ہے ۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار ولی اللہ شاہین نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دراصل صوبہ کنڑ میں طالبان کے ہاتھوں داعش کی شکست کے بعد اسلم فاروقی نے طالبان رہنماوں سے رابطہ کیا تھا اور امارت اسلامیہ میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی، اس مقصد کے لیے اسلم فاروقی نے اپنے والد اور بھائی کو طالبان کے پاس بھیجا تھا لیکن چونکہ اس نے بہت ظلم کئے تھے اس لیے انہیں امارت میں شامل کرنے سے طالبان نے انکار کیا ۔
اسلم فاروقی کہاں اور کب گرفتار ہوئے اس کی وضاحت ابھی تک کابل حکام خصوصا ان کے سکیورٹی ادارے نے نہیں کی ہے بلکہ اس بارے میں مختلف لوگ یہ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ کنڑ میں طالبان کی جانب سے داعش کو شکست دینے کے بعد جب اسلم فاروقی اور ان کے ساتھیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوا تو انہوں نے کابل انتظامیہ سے پناہ مانگی، کیوں کہ اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جب طالبان نے داعش کے مسلح اہل کاروں کو شکست دی ہے یا ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا ہے تو کابل انتظامیہ نے انہیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے، صوبہ جوزجان کے ضلع درزاب میں جب داعش کو عبرتناک شسکت دی گئی تو ان کے کچھ اہل کار گرفتار ہوئے جب کہ اس تنظیم کے سرکردہ رہنماوں نے کابل انتظامیہ سے رابطہ کیا، معمول کے مطابق کابل انتظامیہ کے حکام نے انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ۔
اس کے علاوہ گزشتہ سال امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے صوبہ ننگرہار میں جب داعش کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا تو کئی بار کابل انتظامیہ نے طالبان کے مورچوں اور ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے اور داعش کے جنگجو کو میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے کا موقع دیا، رواں سال کے مارچ میں ایک بار پھر طالبان نے کنڑ کے تین اضلاع میں داعش کے چھپے ہوئے اہل کاروں کے خلاف آخری کارروائی شروع کی اور چند دنوں میں وہاں سے داعش کا مکمل صفایا کر دیا، اس حوالے سے امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک تفصیلی خبر شائع کی کہ داعش کے خلاف اب تک ہونے والی کارروائیوں میں داعش کے کتنے اہل کار ہلاک، زخمی اور گرفتار ہوئے اور کتنے اہل کاروں نے کابل انتظامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اس کی تفصیلات امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلم فاروقی نے افغان فورسز کے سامنے صوبہ پکتیا میں ہتھیار ڈالے ہیں، وہ ننگرہار سے پکتیا گئے تھے اور سرحد پار کرنا چاہتے تھے لیکن اس میں ناکام ہوئے اور خود کو حکام کے حوالے کر دیا ۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ انہوں نے دراصل اسلم فاروقی کو مزار درہ، کنڑ میں گھیر لیا تھا جہاں انہوں نے افغان فورسز سے رابطہ کیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔ افغان فورسز نے انہیں دراصل پناہ دی ہے اور وہ ان کے مہمان ہیں اور کابل حکام ان کی گرفتاری کا غلط تاثر دے رہے ہیں ۔
گزشتہ ایک برس سے داعش کو طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے افغانستان میں سخت نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، جب کہ اس کے سینکڑوں جنگجو کابل انتظامیہ کے سامنے بھی ہتھیار ڈال چکے ہیں، ننگرہار سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ظاہر قدیر نے پارلیمنٹ میں ثبوت کے ساتھ دعوی کیا اور خفیہ ادارے کے سابق سربراہ معصوم ستانگزئی پر الزام عائد کیا کہ داعش کی پرورش میں کابل انتظامیہ کے اعلی حکام ملوث ہیں انہوں نے استفسار کیا کہ جب طالبان نے ننگرہار اور کنڑ میں داعش کے خلاف کارروائیاں کیں تو اس دوران امریکی اور افغان فضائیہ نے کیوں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، انہوں نے کہا کہ داعش نے کنڑ اور ننگرہار میں نہتے شہریوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کے ذمہ دار صرف داعش کے شرپسند عناصر نہیں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے کابل کے اعلی حکام بھی ہیں، اسی طرح سابق رکن پارلیمنٹ عبیداللہ بارکزئی اور دیگر ارکان نے بھی کابل حکام پر متعدد بار یہ الزام لگایا ہے کہ داعش کی پشت پر کابل حکام کھڑے ہیں اور ان کی آشیرباد داعش کو حاصل ہے ۔
اس کے علاوہ زابل، جوزجان، ننگرہار اور کنڑ میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے جب بھی داعش کے خلاف کارروائی شروع کی تو ان پر امریکہ اور کابل انتظامیہ نے فضائی حملے کیے اور داعش کے جنگجو کو طالبان سے بچایا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ داعش کو کابل انتظامیہ کے اعلی حکام کی پشت پناہی حاصل ہے، اس حوالے سے امارت اسلامیہ نے آج کی بات کے عنوان کے تحت اس امر کو واضح کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کابل انتظامیہ کے اعلی حکام داعش شرپسند گروپ کے مفرور افراد کو پناہ دیتی ہے بلکہ سن 2018 میں بھی کابل انتظامیہ نے صوبہ جوزجان میں داعش کے صوبائی رہنما اور نائب صدر سمیت 200 جنگجوؤں کو مجاہدین کے آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹروں میں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا، اور مجاہدین کے گرفت سے بچایا حالانکہ مجاہدین نے ان کے گرد گھِیرا تنگ کر دیا تھا۔ نیز جب امارت اسلامیہ نے گذشتہ سال کے آخر میں ننگرہار سے داعش شر پسندوں کا صفایا کر دیا تو کابل انتظامیہ نے داعش کے ایک ہزار کے قریب مسلح افراد کو پناہ دی اور ان کی حفاظت کی۔ ننگرہار میں شکست کے بعد داعش کے باقی افراد صوبہ کنڑ فرار ہو گئے، جہاں انہیں رواں سال مارچ میں مجاہدین کی جانب سے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس گروہ کے سیکڑوں افراد کو کابل انتظامیہ نے پناہ دے دی ۔
حال ہی میں گرفتار ہونے والا شخص بھی ان باقی عناصر میں سے ہے جس نے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف ہتھیار اٹھایا تھا اور آخر کار ہتھیار ڈالنے کے بعد کابل انتظامیہ کی خفیہ ایجنسی کے ایک مرکز میں اس کو میڈیا کے سامنے سرنڈر کردیا۔ کابل انتظامیہ داعش کے خلاف مجاہدین کی فتوحات کو اپنے کھاتے میں ڈال کر کریڈیٹ لینے کی کوشش کررہی ہے اور اب اس گروپ کے ایک اعلی عہدیدار کی جانب ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کو دوسرے زاویہ میں پیش کرتی ہے تاکہ وہ اپنی کامیابی اور برتری ثابت کر سکے، لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کابل انتظامیہ اور اس کے آقاؤں نے داعش کے خلاف کبھی بھی حقیقی مقابلہ نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی کارروائیوں کے دوران ان شرپسند عناصر کو بچانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ حقیقت قوم پر عیاں ہو چکی ہے کہ اسلم فاروقی کی گرفتاری محض ایک ڈرامہ ہے اور اب اس ڈرامے کا فلاپ سین ہونے سے کابل انتظامیہ کا مکرہ چہرہ بھی بے نقاب ہوا ۔