دل سے دل تک

سعدی کے قلم سے

اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہے ہیں…میرے دل کو بھی دیکھ رہے ہیں…اور آپ سب کے دلوں کو بھی…ہمارے دلوں کے ارادوں کو بھی… خیالات کو بھی ہاں سب کچھ دیکھ رہے ہیں…کس دل میں ایمان ہے اور کس میں نفاق… کس دل میں اخلاص ہے اور کس میں ریاء…

کس دل میں محبت ہے اور کس میں خیانت…کس دل میں دنیا کی لالچ ہے اور کس دل میں آخرت کی چاہت… ہمارے دل بظاہر چھپے ہوئے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ کھلی کتاب کی طرح ہیں… جس کا دل جتنا پاک وہ اسی قدر معتبر… جس کا دل جس قدر صاف وہ اسی قدر اپنے رب کے قریب… جس کا دل جس قدر سادہ وہ اسی قدر عقلمند اور ہوشیار… قرآن مجید نے کھل کر ’’دل‘‘ پر بات فرمائی ہے… آج کل جو نسخے قرآن مجید کے اکثر چھپتے ہیں… اُن میں تیسرے صفحے سے ہی دل کا باقاعدہ تذکرہ شروع ہو جاتا ہے… فرمایا ’’ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ‘‘ …منافق کا دل بیمار ہوتا ہے… پھرہم دل کا تذکرہ …جگہ جگہ قرآن مجید میں پڑھتے جائیں گے… کہیں اچھے دل، کہیں اندھے دل…کہیں کامیاب دل، کہیں ناکام دل…یہ سلسلہ قرآن مجید کی آخری سورت کی آخری آیات تک چلا جاتا ہے… خناس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ…وہ خناس جو انسانوں کے دل میں ’’وسوسے‘‘ ڈالتا ہے …یہ ’’خناس‘‘ جنات میں سے بھی ہوتے ہیں…اور انسانوں میں سے بھی… اندازہ لگائیں … دل کا معاملہ کتنا اہم ہے… قرآن کے آغاز سے بات شروع ہوئی… اور قرآن کے آخر تک چلتی گئی…قرآن کی سب سے بڑی دعوت ہے ایمان… اور ایمان کے رہنے کی جگہ کون سی ہے… جی ہاں! دل ، صرف دل… وہ جن کے دلوں میں ابھی ایمان نہیں اترا تھا… مگر وہ زبان سے کلمہ پڑھ چکے تھے…دل میں کفر بھی نہیں رکھتے تھے…سورۂ حجرات میں ان کو کہہ دیا گیا کہ…ابھی خود کو ’’ایمان والا‘‘ نہ کہو…صرف اتنا کہو کہ ہم نے فرمانبرداری کا اقرار کر لیا ہے… جگہ جگہ ایک بات سمجھا دی کہ فیصلے دل کے مطابق اُترتے ہیں…جیسا دل ویسے فیصلے… تمہارے دل سیدھے رہیں گے تو اوپر سے فیصلے بھی تمہارے حق میں اُتریں گے… اور جب تک تمہارے دل سیدھے راستے سے نہیں ہٹیں گے …اس وقت تک فیصلے تمہارے حق میں اُترتے رہیں گے… قرآن مجید دل کی طاقت کو بیان کرتا ہے…اس طاقت سے انسان سب کچھ پا سکتا ہے… جی ہاں! وہ سب کچھ جوپایا جا سکتا ہے… اور قرآن مجید دل کی کمزوری کو بیان کرتا ہے… دل کی کمزوری زندہ انسان کو مردوں میں شامل کر دیتی ہے…دل کی بیماری کیا ہے؟ دل کا علاج کیا ہے؟ …دل کی زندگی کیا ہے؟… دل کی موت کیا ہے؟… دل کا اطمینان کیا ہے…اور دل کا سکینہ کیا ہے؟… قرآن مجید نے ہر سوال کا جواب دیا ہے…کیونکہ انسان کی روح اس کے دل میں رہتی ہے… اور انسان کی کامیابی اور ناکامی کا مدار اُس کے ’’دل‘‘ پر ہے… اس لئے ہر بات کھول کر سمجھا دی…قرآن مجید کی ایک سورۂ مبارکہ کا نام ہے… سورۂ نور… یہ سورت دل کو روشن بنانے کا طریقہ سکھاتی ہے… ایک طاقچہ، اس طاقچے میں شیشے کا ایک ظرف… اور اس شیشے کے ظرف میں ایک چراغ… اور اس چراغ میں زیتون کا خالص تیل… انسان کا سینہ، اس میں شیشے کی طرح شفاف دل …اور اس دل میں اللہ تعالیٰ کے نور کا چراغ… اور اس چراغ میں… اخلاص کا ایندھن… اللہ، اللہ، اللہ…

نور کہتے ہیں روشنی کو… طاقت اور پاور کو…آج کی زبان میں بجلی اور توانائی کو…دل کے لئے جس بجلی، روشنی اور توانائی کی ضرورت ہے…وہ ہے اللہ تعالیٰ کا نور… اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ… آج مصنوعی بجلی کی روشنی بہت ہے مگر دلوں میں تاریکی ہے، موت ہے ، بیماری ہے… شیطان نے ہر طرف غفلت کے جال بچھا دئیے …تاکہ کوئی اپنے دل کے بارے سوچ ہی نہ سکے… فلم شروع ہوئی تین گھنٹے گزر گئے… نہ دل یاد، نہ دل کی روشنی یاد… میچ شروع ہوا دس گھنٹے گزر گئے… نہ دل کی طرف توجہ، نہ دل کا کوئی دھیان… بس ایک گول گیند کے پیچھے دماغ دوڑ رہا ہے… اور اپنے سینے میں رکھی ہوئی گیند یاد نہ رہی کہ… اس کو بھی غذاء دینی ہے… اس کو بھی چارج کرنا ہے… قرآن مجید جگہ جگہ ہمیں سوچنے، غور کرنے اور تدبر کرنے کی تاکید فرماتا ہے… کیا ہمارے پاس دس منٹ بھی فارغ ہیں کہ…ہم سوچ سکیں؟… ہم اپنے اندر جھانک سکیں…ہم کچھ غور و فکر کر سکیں؟… آج پوری دنیا اندھوں کی طرح دوڑ رہی ہے… کسی کے پاس اپنے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کا وقت نہیں… اگر لوگ غور کرتے تو کفر کیوں کرتے؟… اگر لوگ غور کرتے تو نفاق میں کیوں گرتے؟…اگر لوگ غور کرتے تو دن رات پیسہ کیوں جمع کرتے… اگر لوگ غور کرتے تو مشینوں، صنعتوں اور عمارتوں میں اتنا غلو کیوں کرتے کہ…آج زمین تباہ ہونے کے دہانے پر ہے…اگر لوگ غور کرتے تو انسانوں کے اعضاء نکال کر کیوں بیچتے؟… اگر لوگ غورکرتے تو زمین پر امیر اور غریب کے درمیان اتنا فرق کیوں ہو جاتا ؟ مگر حرص، لالچ،غفلت کی دوڑ ہے… کشتیوں اور ریسلنگ کے مقابلوں پر وقت برباد کرو… بعد میں پتا چلتا ہے… سب جھوٹ تھا، فریب تھا… وہاں بھی مافیاز اور جوئے بازوں کا راج ہے… مرضی کے پہلوان کو ہرایا جاتا ہے …اور مرضی کے پہلوان کو جتایا جاتا ہے… مگر انسانوں کا کتنا پیسہ اور کتنا وقت برباد ہو گیا… یہی حال تقریباً ہر پروفیشنل کھیل کا ہے… ہاں بے شک دنیا تقریباً پاگل ہو چکی… ہاں بے شک زمین والوں نے زمین پر رہنے حق کھو دیا ہے… عورتوں کی شادیاں عورتوںسے اور مردوں کی شادیاں مردوں سے کرائی جا رہی ہیں… نہ کوئی شرم نہ کوئی سوچ اور نہ کوئی ندامت… اسی لئے اب دنیا تیزی سے…تباہی کی طرف جا رہی ہے … بہت بڑی تباہی…کیونکہ دل جب مر جائے تو انسان مردہ شمار ہوتا ہے… اور مردے زیادہ ہو جائیں تو بدبو اور تعفن پھیل جاتا ہے… اور بالآخر قدرت پھر صفائی کا عمل شروع کرتی ہے… ہاں زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں… کیونکہ آج زمین کے اکثر لوگ بے اختیار ہو چکے …کسی کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے اور سوچنے کا اختیار نہیں…اور اقتدار اُن کے ہاتھ میں ہے … جو اندھے ہیں، مردہ ہیں …اور متعفن ہیں …کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ … روز روز کے سیکورٹی پلان بنانے سے زمین پر امن آ جائے گا… کوئی امن آنے والا نہیں… کیونکہ مردہ لاشوں میں کیڑے پڑتے ہی رہتے ہیں…

امن کے لئے دنیا میں … اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر ﷺ بھیجے… امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اُتارا… امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور ہر جن کو…ایمان کی دعوت دی… امن کے لئے اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف عطاء فرمایا… مگر دنیا کی اکثریت امن کے ان جھرنوں سے کٹ گئی… اور پھر ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی… اور اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب لاشوں کی صفائی کے لئے…زمین پر بڑے بڑے واقعات ہوں گے… اور پھر ایمان والوں کو ایک بار پھر دنیا کی قیادت دے دی جائے گی… مگر ہم اس وقت جس مرحلے میں ہیں … وہ بڑی آزمائش والا ہے… بظاہر دور دور تک کوئی روشنی نظر نہیں آ رہی… ظاہری انتظام ایسا ہے کہ … صدیوںتک مسلمانوں کی اسلامی حکمرانی کا کوئی امکان ہی نہیں… اس مرحلے پر قدم ڈگمگا جاتے ہیں… انسان پہلے جہاد سے کٹتا ہے… اور پھر اسلام سے ہی دور ہوتاچلا جاتا ہے… اس وقت جو چیز ہمیں بچا سکتی ہے وہ ہے… دل کا ایمان… دل کی روشنی…دل کی طاقت…اور دل کا غور و فکر… ہاں دل کی اپنی آنکھیں ہوتی ہیں… اور دنیا کی سب سے طاقتور دوربینوں سے بھی زیادہ دور دیکھ سکتی ہیں… کیا مکہ مکرمہ میں اسلام کے غالب ہونے کا کوئی امکان تھا؟… نہیں بالکل نہیں… صدیوں تک بھی کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا…مگر دار بنی ارقم میں… جو چالیس افراد بیٹھے تھے وہ دل بنا چکے تھے…ان کا دل دور دور تک دیکھ رہا تھا…اس لئے وہ جمے رہے، ڈٹے رہے…اور صدیوں کا فاصلہ انہوں نے بیس سال میں طے کر لیا… اور پھر اگلے تیس سال میں ساری دنیا کوہی بدل دیا… وہ دنیا جس کے تبدیل ہونے کا ایک ہزار سال تک کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا… اب بھی حالات اس وقت سے کچھ ملتے جلتے ہیں… کفر نے حد درجہ طاقت بڑھا لی ہے… اور اہل ایمان ہر طرح سے کمزور ہیں … اب اگر دین پر رہنا ہے…جہاد پر رہنا ہے تو دل والا ایمان ہی کام آ سکتا ہے… ان شاء اللہ حالات اہل ایمان کے حق میں بہتر ہوں گے … اور دنیا فانی اور آخرت ہمیشہ ہے…اس لئے بھائیو اور بہنو! کچھ وقت اپنے دل کے لئے … کچھ فکر اپنے دل کی… اور کچھ توجہ اپنے دل کو بنانے، جگانے،چمکانے… منور کرنے اور زندہ کرنے کی…

میں بھی اس کا محتاج ہوں کہ…اپنے دل پر محنت کروں… اور آپ سب کو بھی اس کی ضرورت ہے… یا اللہ ہمارے دلوں کو ایمان، زندگی، قوت، روشنی ، بہادری ،سخاوت، قناعت ، رقت، مضبوطی، نرمی اور پاکی عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے