عالمی سطح پر کرونا وائرس سے ہونے والی مجموعی ہلاکتیں ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اس عالمی وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی سترہ لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔

امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق اس وائرس سے قریب ستر فیصد ہلاکتیں یورپ میں ہوئی ہیں۔ وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے، جہاں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ یورپ میں اب تک مجموعی طور پر ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

بلغاریہ

امریکا میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 19،701 ہو گئی ہے، جو دنیا میں کسی بھی ملک میں اس وائرس سے ہونے والی سب زیادہ ہلاکتیں ہیں۔

اٹلی میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 19،468 بنتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کورونا وائرس سے اموات دونوں ممالک کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔

ادھر امریکا میں ایک دن میں سب سے زیادہ 2000 اموات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دوسری ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ٹاسک فورس کا مقصد اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ملک میں کاروبار زندگی کو دوبارہ کیسے کھولا جا سکتا ہے۔ یہ ٹاسک فورس محکمہ صحت کے حکام اور کاروباری رہنماؤں پر مشتمل ہو گی۔

اٹلی

ٹکنالوجی کے میدان میں دو سرکردہ امریکی کمپنیاں ایپل اور گوگل مل کر ایک ایسی ٹکنالوجی بنا رہی ہیں جو کسی کرونا وائرس متاثرین سے رابطے کی صورت میں ملنے والے افراد کو الرٹ جاری کر سکے گی۔ اس ٹکنالوجی کا مقصد کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

ادھر جب سے کرونا وائرس کی عالمی وبا نے نیویاک کو بری طرح اپنی پکڑ میں لے رکھا ہے تو دوسری جانب 911 کو موصول ہونے والی کالز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔

کال سینٹر کا کہنا ہے کہ انہیں ان دنوں تقریباً ہر 15 سیکنڈ میں ایک کال آتی ہے۔ کال کرنے والے شخص کی آواز بھرائی ہوئی ہوتی ہے اور وہ گڑگڑا کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس کا عزیز موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ اس کی سانسیں رک چکی ہیں، خدارا جلدی سے مدد کریں۔

فرانس

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق حالیہ دنوں میں کالز کا حجم معمول سے کم ازکم 40 گنا بڑھ گیا ہے۔ کال کے جواب میں امدادی ٹیم بھیجنے میں ان دنوں تقربیاً 10 منٹ لگ رہے ہیں جب کہ اس سے پہلے 3 منٹ کے لگ بھگ لگتے تھے۔

کال وصول کرنے والا سوال پوچھ کر مرض کی سنگینی کا اندازہ لگاتا ہے۔ جن مریضوں کی حالت تشویش ناک نہیں ہوتی، انہیں عموماً گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل کے حالات میں روزانہ 3300 کے لگ بھگ مریضوں کو اسپتال پہنچایا جا رہا ہے۔ کال سینٹرز کے عملے پر اتنا بوجھ ہے کہ اکثر اوقات انہیں 16گھنٹوں کی شفٹ میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔

سوئس ہسپتال کا منظر

نائین ون ون کا کہنا ہے کہ ایک طرف کرونا کی وبا زوروں پر ہے تو دوسری طرف ہارٹ اٹیک کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ آج کل روزانہ تقریباً300 ایسی کالز ملتی ہیں جن میں فون کرنے والا رو کر بتا رہا ہوتا ہے کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس کے پیارے کا سانس رک گیا ہے۔ ان میں سے 200 سے زیادہ مریض عموماً ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پہلے اس نوعیت کی کالز کی روزانہ اوسط 64 تھی۔

ایمرجینسی کال سینٹر کی طرح اسپتالوں پر بھی کام کا بہت بوجھ ہے۔ اسپتالوں کی ایمرجینسی کے سامنے ایمبولینسز کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ مریض کو اسپتال کے حوالے کرنے میں 40 منٹ سے زیادہ لگ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے