تحریر : ذبیح اللہ مجاہد

امریکا کےساتھ امارت اسلامیہ کے ہونیوالے معاہدے میں یہ بات صراحتا تحریر ہے کہ 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہوتے، تاکہ افغان تنازعہ کا حل  گفتگو کے ذریعے پرامن اور غیر فوجی طریقہ کار  سے ہوجائے۔

معاہدے کے متن میں یہ صریح طور پر  موجود ہے کہ اعتماد سازی کے لیے فریقین کو چاہیے کہ 6000 ہزار  قیدیوں کو رہا کریں جو مذاکرات کی میز کے لیے راہ ہموار کریں۔

اس حوالے سے امریکا کیساتھ ہونے والے معاہدے کے متن  میں درج ذیل صراحت موجود ہے۔

پانچ ہزار تک قیدی امارت اسلامیہ افغانستان جسے ریاستہائے متحدہ حکومت کی طور پر تسلیم نہیں کرتی اور طالبان کے نام سے جانتی ہے اور ایک ہزار قیدی دوسری فریق 15 رجب المرجب 1441 ھ بمطابق 10 مارچ2020 ء بین الافغان مذاکرات کے پہلے دن تک رہا کرینگے، فریقین کا ہدف یہ ہے کہ آئندہ تین مہینوں میں تمام قیدی رہا کیے جائینگے،ریاسہتائے متحدہ امریکا اس ہدف کا مکمل وعدہ کرتی ہے۔

مذکورہ متن میں ریاستہائے متحدہ امریکا باربار وعدہ (محکم وعدہ) کررہی ہےکہ قیدیوں کی رہائی  بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے پہلے روز مکمل ہوجا ئیگی۔

مذکورہ معاہدوں اور وعدوں  کو مدنظر رکھتے ہوئےایک ذمہ دار فریق کی حیثیت سے امریکا کا فریضہ تھا کہ  قیدیوں کی رہائی کا عمل بغیر کسی رکاوٹ، تاخیر اور تنازعہ سے شروع اور مکمل کرتا، تاکہ اہم ہدف اور مستقبل میں بڑی پیشرفت اور سیاسی قدم اٹھانے کےلیے بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہوجاتی۔

کابل انتظامیہ بھی دو دلائل کی رو سے ذمہ دار رہی،تاکہ رہائی عمل کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرتیں۔

اول : امریکا کیساتھ ہونے والا معاہدہ تفصیل کیساتھ امریکی حکام خصوصا ڈاکٹر زلمے خلیل زاد کی جانب سے ہر بار کابل انتظامیہ کے عہدیداروں اور دیگر سیاسی فریق  سےشریک اور اسے تسلیم کرلیا جاتا۔

دوئم : اگر امریکا کیساتھ ہونے والا معاہدہ احسن طریقے سے عملی ہوجائے، وہاں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کا وعدہ کیا گیا ہے،جسے بےشک کابل انتظامیہ کے حکام اور دیگر سیاسی حالات کو شدید ضرورت ہے۔

موجودہ  حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہورہا ہےکہ کابل انتظامیہ تجربے سے محروم ہے اوریا انتظامی اور قومی معاملات میں تعامل کی قابلیت نہیں رکھتی اور یا جان بوجھ کر مسائل پیدا کررہا ہے، کبھی قیدیوں کے حوالے سے فنی ٹیموں کے اجلاس کو مذاکرات کا  رنگ دے رہا ہے، کبھی ایک گھنٹے کی بات کو ایک ہفتہ میں مکمل نہیں کرسکتی، کبھی قیدیوں کی انسانی موضوع سے سیاسی فائدہ اٹھاتا ہے، کبھی وعدوں کو پس پشت ڈالتے ہیں اور قیدیوں کے تبادلے کو کورونا بیماری، ادھیڑ عمر اور اشرف غنی کے حکم کا رنگ دیتی ہے۔

جب کابل میں امارت اسلامیہ کا وفد رہائی پانے والے قیدیوں کی تصدیق اور عمل میں سہولت کی خاطر وہاں موجود تھا،  تو  بہانے کرتے رہتے،لیکن جب وفد  کی واپسی ہوئی، تو چند نامعلوم قیدیوں کی رہائی کا قدم اٹھایا، یہ سب کچھ اس عمل کو درہم برہم کرنے اور حقیقی صلح کی راہ میں جان بوجھ رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔

اگر اس طرح رکاوٹیں کھڑی کرنے سے بین الافغان مذاکرات کا سدباب کیا جاتا ہے،شرائط کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور نئی شرائط وضع کی جاتی ہیں، تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جنگ کو جاری رکھنے اور اس راہ سے مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

امارت اسلامیہ نے جارحیت اور اندرونی کرپشن کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے 19 برس جدوجہد کی، تو   اسے صرف فوجی جدوجہد اور جہاد جاری رکھنے پر مجبور کی جارہی ہے۔

مستقبل میں ہر قسم کے حادثات، بلا امتیاز تحولات اور مسائل کی ذمہ داری اس شخص پر عائد ہوگی، جو پرامن اور سیاسی طورطریقے کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا،  تباہی کی روک تھام نہیں کرتی اور یا جان بوجھ کر  امن عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے