دوحہ معاہدے کی تعمیل میں رکاوٹ ، تاخیر اور توڑنے کی کوششیں یکے بعد دیگرے کی جاتی ہیں

اس معاہدے کے بعد پہلا قدم قیدیوں کا تبادلہ تھا اس حوالے سے امریکہ کو سنجیدگی سے ہنگامی اقدام اٹھانا چاہئے تھا  لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی واضح عندیہ نہیں ملا ہے اور نہ ہی اس نے کوئی سچا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے ۔

کابل انتظامیہ صرف وقت گزارنے کی کوشش کررہی ہے، وہ کبھی بھی یہ جنگ افغانستان میں ختم ہونے کی خواہاں نہیں ہے، وہ اس ناکام جنگ سے امریکی فوج کے انخلا کے حق میں نہیں ہے، کابل حکام چاہتے ہیں کہ امریکی افواج ہمیشہ افغانستان میں تعینات رہیں اور ان کے اشارے پر وہ افغان عوام کا قتل عام جاری رکھیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے ۔

کابل کے حکام دوحہ معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ، بین الافغان مذاکرات کو معطل کرنے اور امن کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ وہ برسراقتدار رہے اور امریکی ڈالر کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری رہے ۔

اب انہیں اس قوم کی تکلیف دہ حالت کا کوئی پرواہ نہیں ، اب وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ جنگ نہ صرف امریکہ کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ افغانستان کی تباہی کا سبب بھی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ قیدیوں کے انسانی معاملات پر بھی سیاست کر رہے ہیں۔ کرونا وبا کے اس خطرناک اور حساس وقت میں بھی وہ ہزاروں انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ۔

کابل حکام آپس میں بھی دست و گریبان ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ عوام کے درد و غم سے کتنے پریشان ہوں گے؟ اور وہ امن کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہوں گے؟

امارت اسلامیہ نے بارہا کہا ہے کہ کابل انتظامیہ کے حکام میں معاملات حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اس سلسلے میں امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرے، قیدیوں کی رہائی جو دوحہ معاہدہ کی تعمیل اور تکمیل کا پہلا قدم ہے، اور امریکہ نے وعدہ بھی کیا ہے، وہ غیر جانبدار نہ رہے، اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ مستقبل کے اقدامات کی راہ ہموار ہوسکے ۔

امریکیوں جنھوں نے متعدد بار میدان جنگ میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور کابل حکام کی درخواست پر ڈرون حملے اور بمباریاں کی ہیں، کیا وہ کابل حکام کو یہ نہیں بتاسکتے ہیں کہ وہ قیدیوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ کریں ۔

ہم جانتے ہیں کہ اگر آج امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہ کرے اور وعدہ پورہ کرنے سے اپنی حیثیت کو برقرار رکھے تو مختصر عرصے میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوگا اور ساتھ ہی بین الافغان مذاکرات کے لئے بھی معاہدے کے مطابق راہ ہموار ہو جائے گی ۔

ایک ہفتہ سے امارت اسلامیہ کی تکنیکی ٹیم امریکی حکومت اور کابل انتظامیہ کی درخواست پر کابل میں مقیم ہے، تاکہ قیدیوں کی رہائی کے لئے تکنیکی کام انجام دے سکے لیکن افسوس کہ وہاں پر ڈرامائی انداز سے رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور ہر بار نئے مطالبات پیش کئے جاتے ہیں ۔

امارت اسلامیہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے نمائندہ وفد کو اس طرح کے اجلاسوں میں شرکت سے منع کرے کیوں کہ وہاں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کی جاتی ہے ۔

اس سلسلے میں ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے، خدا نخواستہ اگر کورونا سے قیدیوں کو نقصان ہوا، بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہوئی یا امن کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا تو اس کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوگی کیوں کہ اس نے کابل انتظامیہ کو غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہ کرنے اور غیر سنجیدہ اقدامات سے باز رہنے سے نہیں روکا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے