آج کی بات
کابل انتظامیہ کے عہدے داروں نے دعوی کیا ہے کہ افغانستان کے لئے داعش شرپسند گروپ کے سربراہ کو متعدد ساتھیوں سمیت ایک کارروائی کے دوران گرفتار کرلیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت دیگر افراد کی طرح کابل انتظامیہ سے پناہ مانگی اور کابل انتظامیہ نے انہیں سیاسی پناہ دی ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کابل انتظامیہ کے اعلی حکام داعش شرپسند گروپ کے مفرور افراد کو پناہ دیتی ہے بلکہ سن 2018 میں بھی کابل انتظامیہ نے صوبہ جوزجان میں داعش کے صوبائی رہنما اور نائب صدر سمیت 200 جنگجوؤں کو مجاہدین کے آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹروں میں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا، اور مجاہدین کے گرفت سے بچایا حالانکہ مجاہدین نے ان کے گرد گھِیرا تنگ کر دیا تھا ۔
نیز جب امارت اسلامیہ نے گذشتہ سال کے آخر میں ننگرہار سے داعش شر پسندوں کا صفایا کر دیا تو کابل انتظامیہ نے داعش کے ایک ہزار کے قریب مسلح افراد کو پناہ دی اور ان کی حفاظت کی ۔
ننگرہار میں شکست کے بعد داعش کے باقی افراد صوبہ کنڑ فرار ہو گئے، جہاں انہیں رواں سال مارچ میں مجاہدین کی جانب سے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس گروہ کے سیکڑوں افراد کو کابل انتظامیہ نے پناہ دے دی ۔
حال ہی میں گرفتار ہونے والا شخص بھی ان باقی عناصر میں سے ہے جس نے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف ہتھیار اٹھایا تھا اور آخر کار ہتھیار ڈالنے کے بعد کابل انتظامیہ کی خفیہ ایجنسی کے ایک مرکز میں اس کو میڈیا کے سامنے سرنڈر کردیا ۔
کابل انتظامیہ داعش کے خلاف مجاہدین کی فتوحات کو اپنے کھاتے میں ڈال کر کریڈیٹ لینے کی کوشش کررہی ہے اور اب اس گروپ کے ایک اعلی عہدیدار کی جانب ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کو دوسرے زاویہ میں پیش کرتی ہے تاکہ وہ اپنی کامیابی اور برتری ثابت کر سکے، لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کابل انتظامیہ اور اس کے آقاؤں نے داعش کے خلاف کبھی بھی حقیقی مقابلہ نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی کارروائیوں کے دوران ان شرپسند عناصر کو بچانے کی کوشش کی ہے ۔