طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کے منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر کو بنیاد بناتے ہوئے افغان حکام سے اس سلسلے میں ہونے والی بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے پیر کی شب ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں کہا کہ طالبان نے اپنے قیدیوں کی شناخت اور تصدیق کے لیے ایک ٹیم کابل بھیجی تھی کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے اور معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے رہائی کے عمل میں مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر تاخیر کی جا رہی ہے‘ اس لیے ان کی تکنیکی ٹیم منگل سے شروع ہونے والی بےثمر ملاقاتوں میں شرکت نہیں کرے گی۔

طالبان کا تین رکنی وفد 31 مارچ کو کابل پہنچا تھا اور اس دورے کا مقصد 29 فروری کو امریکہ سے طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان جیلوں سے طالبان قیدیوں کی رہائی کے عمل کا انتظام کرنا تھا۔

اس وفد کے افغان حکام سے ملاقاتوں کے کئی دور بھی ہوئے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی اور تبادلے کا عمل 10 مارچ سے شروع ہونا تھا لیکن افغان حکومت کی جانب سے قیدیوں کو ایک ساتھ رہا نہ کرنے کے اعلان کے بعد یہ تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔

افغان حکومت کا کہنا ہے کہ تاخیر کی بنیادی وجہ افغان طالبان کا یہ اصرار ہے کہ رہا کیے جانے والے قیدیوں کی پہلی ٹکڑی میں ان کے 15 سینیئر کمانڈر شامل ہونے چاہییں۔

یہ بات چیت انٹرنیشل کمیٹی آف ریڈ کراس کی سربراہی میں ہو رہی تھی اور ریڈ کراس کے مطابق ان مذاکرات میں دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی ہی مرکزی نکتہ تھا۔

طالبان نے اس بات چیت کے لیے ایک بڑی مذاکراتی ٹیم بھیجنی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے صرف تین رکنی ٹیم مذاکرات کے لیے کابل بھیجی گئی۔

دوحہ میں امریکہ اور طالبان میں ہونے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے 5000 قیدی رہا کرے گی جبکہ اس کے بدلے میں طالبان افغان سکیورٹی فورسز کے 1000 قیدی رہا کرے گا۔

اگرچہ امریکہ نے طالبان سے معاہدے کے مطابق گذشتہ ماہ سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔ تاہم صدر اشرف عنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان مختلف امور پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات سست روی کا شکار ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے