آج کی بات

قیدیوں کے تبادلے کا عمل دوحہ معاہدے کے تحت بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ جس کی بنیاد پر بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔  ایک ماہ کی تاخیر کے بعد فریق مخالف نے محض تبادلہ کا عمل شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو حوصلہ افزا امر ہے۔ اس سے امن کے لیے راہ ہموار ہوگی ۔ امارت اسلامیہ تیار ہے کہ وہ فریقِ مخالف کے ایک ہزار قیدی باعزت طریقے سے رہا کر دے۔ اسی طرح فریق مخالف سے بھی توقع ہے کہ وہ امارت اسلامیہ کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔ اس حوالے سے فوری اقدامات کر کے ضروری سہولیات فراہم کرے ۔

اس وقت امارت اسلامیہ کا تین رکنی وفد قیدیوں کی پہچان اور رہائی کے بعد ان کی محفوظ مقام پر منتقلی کے لیے دارالحکومت کابل میں موجود ہے۔ امید ہے تبادلہ کا یہ عمل بہتر انداز سے مکمل ہو کر مظلوم عوام کے زخموں کا مداوا بنے گا۔

تبادلے کے بعد دوسرا مرحلہ بین الافغان مذاکرات کا ہے۔ اس میں ملک کے طویل عرصے سے جاری بحران کے حل کے لیے اہم اور مضبوط فیصلے ہوں گے۔ یہاں یہ امر لازمی ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق اقدامات کیے جائیں۔ پہلا قدم وہ وفد ہے، جسے حال ہی میں حکومت نے کابل میں مقرر کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے اس وفد کی تشکیل سنجیدہ طور پر نہیں کی گئی ہے، بلکہ وہ کوئی عارضی سیاست اور سطحی مفادات کی خاطر کیا گیا اقدام ہے۔ دوحہ معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات میں کابل حکومت سمیت تمام افراد ‘حکومت یا بالاتر فریق کی حیثیت’ کے بجائے اپنی مؤثر نمائندگی کی حیثیت سے شریک ہوں گے۔کسی بھی فریق کو امن عمل اپنے کنٹرول میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔

کچھ دن قبل وزارت برائے امورِ امن کے ترجمان نے کہا تھا کہ ‘بین الافغان مذاکرات میں طالبان کے ساتھ صرف حکومت بات چیت کر سکتی ہے۔’ اب انہوں نے جو وفد تشکیل دیا ہے، وہ نہ صرف دوحہ معاہدے کے خلاف ہے، بلکہ کابل میں موجود تمام سیاست دانوں اور اہم سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔  کابل انتظامیہ نے اپنے متنازع اقدام کو جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اشرف غنی کے مشیر نے کہا ہے کہ ‘حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایک چھوٹا وفد طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل دے گی۔ جب کہ فیصلوں کا اختیار ایک بڑی مشاورتی کونسل کے پاس ہوگا۔’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وفد کو خبر وصول اور وقت ضائع کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات میں بھیجا جائے گا۔ جب کہ فیصلے پھر بھی ایوان صدر کے تحت ہوں گے۔

یہ بات واضح ہے کہ کابل انتظامیہ امن اور بین الافغان امن عمل سے افغانستان کے مسئلے کا مستقل حل نہیں چاہتی ہے۔ وہ اپنے متنازع اقتدار کی مدت بڑھانا چاہتی ہے۔ لہذا امریکا سمیت عالمی برادری کو افغان انتظامیہ کے حربوں اور عزائم کی حمایت کرنے کے بجائے افغان عوام کی بنیادی خواہشات اور ضروریات کو سمجھنا ہوگا، تاکہ اس مسئلے کو مزید پیچیدگیوں کے بجائے حل کی طرف لے جایا جا سکے۔ امارت اسلامیہ پھر بھی دوحہ معاہدے کی روشنی میں اس عمل کے ہر حصے میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے۔ وہ فریق مخالف کی جانب سے خلاف ورزی کی صورت میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہ سکتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے