ہفتہ وار تبصرہ

امارت اسلامیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے درمیان جارحیت کے خاتمہ کا معاہدہ افغان تنازعہ کے حل میں ایک اہم اور بنیادی قدم سمجھا جاتا ہے،جس نے پہلی مرتبہ مسئلے کی سمت کو معلوم کردی۔جیسا کہ جارحیت کا خاتمہ مسئلہ کے بیرونی پہلو کے حل و فصل کے لیے اہم ہے، امارت اسلامیہ نے موضوع کی اندرونی جہت کے حل کے لیے بھی قابل دید اقدامات اٹھائےہیں۔

اندرونی پہلو میں بین الافغان مذاکرات کی آمادگی کے علاوہ ایک اہم پیشرفت یہ تھا کہ جارحیت کے خاتمہ پر معاہدے کے دستخط کے بعد  امارت اسلامیہ کے زعیم امیرالمؤمنین شیخ ہبۃاللہ اخندزادہ حفظہ اللہ نے دشمن کی صفوف میں موجود افراد کے لیے عام معافی اور شفقت بھرا پیغام نشر کیا،تاکہ اس سے بےاعتمادی کی فضا بدل جائےاور وہ افراد جو مختلف دلائل کی وجہ سے مخالف صف میں کھڑے ہیں، نکل جائیں۔

اسی پیغام کےبعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ کئی ہفتوں میں مسلسل طور پر وہ فوجی، جنگجو اور دیگر مسلح افراد جو ماضی میں استعمار کےزیرپرچم مجاہدین کے خلاف لڑ رہے تھے،استعماری افواج اب  ملک سے انخلا کررہا ہے،تو وہی افراد  جنگ پر اصرار کرنا نہیں چاہتا، اسی لیے امارت اسلامیہ کی دعوت کو  لبیک کہتے ہوئے مخالف صف کو چھوڑکر  مجاہدین سے وابستہ ہورہے ہیں۔

گذشتہ چند دنوں بغلان، بلخ، غور ،لغمان وغیرہ صوبوں میں مخالف صف میں مسلح کاروائیوں میں مصروف سینکڑوں اہلکاروں نے امارت اسلامیہ  کی صف میں شمولیت کا اعلان اور یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے بھی خلوص دل سے ان کا شاندار استقبال کیا۔

ایک بارپھر امارت اسلامیہ اعلان کرتی ہے کہ ہم کسی گروہ یا فرد کیساتھ ذاتی دشمنی اورعقدہ نہیں رکھتے، بلکہ اس ملک میں اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں، جس میں سب کی بھلائی ہے، تو وہ افراد جو استعمار اور اس کے کٹھ پتلی انتظامیہ  کی صف میں سرگرم ہے،ان کے لیے ہماری  عام معافی اور اخلاص کے دروازے کھلے ہیں، اگر وہ مخالفت سے دستبردار ہوئے، تو ان کی جان و مال کی حفاظت امارت اسلامیہ کریگی۔

تاکہ مسئلےکے بیرونی پہلو کی طرح اندرونی پہلو بھی عافیت سے حل وفصل ہوجائے، سب سے اہم یہ ہے کہ شمولیت اور مخالفت سے دستبردار ہونے کا عمل  مزید وسیع اور تیزتر ہوجائے۔ اس سلسلے میں معاشرے کے آگاہ طبقات مثلا علماء کرام، بااثراشخاص،تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور قبائلی عمائدین اپنی ذمہ داری ادا کریں۔  اربکی(قومی جنگجو)اور دیگر جنگجو ؤں کو سمجھانا چاہیے کہ جنگ جاری رکھنے کے بجائے پرامن زندگی پر غور کریں،تاکہ مستقبل کے المیوں کے عوامل ناکارہ اور ہمارا ملک ایک حقیقی صلح کی جانب سے لوٹ  جائے۔

اس شعبے میں امارت اسلامیہ نے ہمیشہ  عام معافی کی پالیسی  اپنائی ہے، دشمن کے جنگی افراد کیساتھ ہمیشہ اسلامی سلوک کیا ہے، دشمن کے زخمیوں کا علاج اور  ہزاروں قیدیوں کو مختلف اوقات میں رہا کردیاہے،  تاکہ اپنے گھر اور خاندان والوں  کیساتھ آزادانہ زندگی گزاریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے