آج کی بات

 فروری 29 کو امارت اسلامیہ اور امریکا کے مابین جنگ کے خاتمے کا معاہدہ ہوا۔ عوام نے معاہدے کا بڑے پیمانے پر جوش و خروش سے خیرمقدم کیا۔ اس پر مسرت کا اظہار کیا۔ کابل انتظامیہ نے نہ صرف اس معاہدے کی حمایت نہیں کی، بلکہ مختلف طریقوں سے اس نے ملک کی آزادی اور امن کے معاہدے پر عمل درآمد کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور جارحیت کو دوام دینے کی کوشش کی۔

امارت اسلامیہ اور امریکا کے مابین ہونے والے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے قبل قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ عوام انٹرا افغان مذاکرات کے لیے پرامید تھے اور ہیں۔ کیوں کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعے موجودہ جنگ کا خاتمہ اور دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔

کابل انتظامیہ ایک طرف مختلف بہانوں سے بین الافغان مذاکرات کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف عام اور مظلوم لوگوں کو نشانہ بنانے اور ان کے گھر تباہ کر رہی ہے۔ وہ عام شہریوں کے گھروں پر بمباری کر رہی ہے۔ ان کی املاک لوٹ رہی ہے۔ گزشتہ روز مختلف علاقوں میں درجنوں شہری شہید اور زخمی ہوئے اور انہیں مالی نقصان پہنچایا گیا۔

صوبہ قندوز کے ضلع دشت آرچی کے علاقے تاجک قشلاق میں کابل انتظامیہ کی بمباری میں 4 شہری شہید ہو گئے۔ اسی صوبے کے ضلع امام صاحب کے علاقے ‘یکہ توت’ میں کابل انتظامیہ نے عام شہریوں کے گھروں پر بمباری کی، جس سے خواتین اور بچوں سمیت 11 شہری شہید اور چار افراد زخمی ہوگئے۔

صوبہ فاریاب کے ضلع المار کے قلعہ بخاری میں کٹھ پتلی فورسز نے مقامی آبادی پر گولہ باری کی، جس میں 2 مکانات تباہ اور 4 شہری زخمی ہو گئے۔

اس کے علاوہ صوبہ پکتیا کے ضلع احمدآباد کے علاقے غڑک میں کابل انتظامیہ نے عام شہریوں کے گھروں اور مساجد پر حملہ کیا۔ نہتے شیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ گھروں کے دروازے دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیے اور مساجد کے فرش نذر آتش کر دیے۔ دکانوں اور دواخانوں کو نقصان پہنچایا اور عوام کی گاڑیاں چھین لیں۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ عام شہریوں کے قتل عام اور ان پر تشدد کرنے سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہی فریق کامیاب ہوگا، جس کو عوام کی حمایت حاصل ہو۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مادی وسائل کے لحاظ سے کمزور مجاہدین کو جدید وسائل اور ہتھیاروں سے لیس دشمن پر برتری حاصل ہے۔باس کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدین کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ جب کہ اس کے برعکس دشمن کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وہ بہت سے وسائل کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہے۔

آئے دن حکومت کے خلاف مظلوم عوام کی نفرت بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے خلاف مجاہدین کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حتی کہ دشمن کے زیرکنٹرول علاقوں کے لوگ بھی مجاہدین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ تاکہ انہیں کابل انتظامیہ کے مظالم سے نجات ملے۔ اسی طرح دشمن کی صف سے جوق در جوق مسلح اہل کار امارت اسلامیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ وہ کابل انتظامیہ سے اظہار نفرت کرنے کے ساتھ عوام کی دشمنی سے دست بردار ہو رہے ہیں۔ اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ کی سربریت اور ظلم و ستم کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مظلوم افغان عوام ایک آزاد اسلامی نظام سے مستفید ہو کر پرسکون زندگی گزاریں گے۔ ان کی قربانیاں رنگ لائیں ۔گی۔ ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے