اَللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے کورونا کے خوف نے پورے عالَم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ساری دنیا شدید ہراس کے عالم میں ہے اور دُنیا کے اکثر حصے میں اس خوف نے سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کو بُری طرح متاثر کر رَکھا ہے۔ بہت سی ایسی غیر انسانی سرگرمیاں بھی اس کی وجہ سے معطل ہیں جو اِنسانوں کی عادت بن چکی تھیں اور انہیں اس سے باز رکھنے کی ہر دعوتی کوشش ناکام ہو چکی تھی۔ بے بہا اِختلاط کے داعی یورپ میں آج کوئی فرد کسی دوسرے فرد کو چھونا تو درکنار قریب بیٹھنے پر بھی آمادہ نہیں۔ ہر طرح کی حرام کاریوں پر بھی طبی قدغنیں عائد ہیں اور وہ لوگ جو یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ان کے ممالک میں یہ سرگرمیاں آزاد نہ رہیں تو وہ گھٹن سے مر جائیں گے۔ اب پابندیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔ خیر ان کا تو ذکر ہی فضول ہے ، ان کا ویسے کون سا کام عقل،شعور اور انسانیت کے معیار پر پورا اترنے والا ہے کہ انہیں طعنے دینے کی فضول حرکت کی جائے البتہ اس موقع پر ان مسلمانوں سے ضرور بات کرنے کا حق بنتا ہے جو دن رات شرعی پابندیوں کا رونا روتے رہتے ہیں اور انہیں (نعوذ باللہ) اپنی ترقی کے راستے کی رکاوٹ بتاتے ہیں۔ جن کے خیال میں اِختلاط کی اجازت نہ ہونا ہمارے معاشرے کی پسماندگے کی وجہ ہے۔ بدکاریوں کی چھوٹ نہ ملنا معاشرے میں گھٹن کا سبب ہے۔ جن کی ہر بات کی تان مذہبی عقائد پر استہزاء اور دینی روایات کے تمسخر پر ٹوٹتی ہے۔ جن کاموں کی طرف معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور خوفِ آخرت کی بنیاد پر مائل کرنے کی ہر کوشش کی راہ میں ٹانگ اَڑانا وہ اپنا لازمی فریضہ گردانتے تھے کورونا کے خوف نے معاشرے کو ان میں سے اکثر کا پابند بنا دیا ہے۔ پردہ خواتین سے بڑھ کر مردوں میں بھی عام ہو گیا ہے۔ناچ گانے اور لہو و لعب کی مجالس بند ہیں۔ شادیاں سادگی سے اَنجام پا رہی ہیں۔ ہوٹلوں پر رَش گھٹ رہا ہے۔ مرد و زن کے اِختلاط سے پرہیز ہو رہا ہے۔ اور جن لوگوں کی ترقی کا سب سے بڑا سبب خدا فراموشی اور مذہب بیزاری بلکہ مکمل اِلحاد کو بتا کر مسلمانوں کو ان کی راہ چلانے کی دن رات کوشش میں یہ طبقہ ہلکان ہو رہا تھا وہ خود اب اس وباء میں خدا کی یاد پر مجبور ہو گئے اور ان کے ہاں دُعائیہ اَیام منائے جا رہے ہیں۔ جس سائنس کو ہر مسئلے کا حتمی حل بتا کر دُعاء اور خدا سے اُمید کا مذاق اُڑانا عام سی بات تھی اس سائنس کو خدا بنانے والے خود اس سے بھاگ کر خدا کا سایہ اور مدد ڈھونڈ رہے ہیں۔ اللہ اللہ… وہ مالک الملک جب اپنا آپ منوانے پر آتے ہیں تو اسی طرح اپنے لشکروں کو استعمال فرماتے ہیں۔ کاش مسلمانوں کے گھروں میں جنم لینے والی یہ بھٹکی ہوئی بھولی ہوئی قوم ان کے حال سے عبرت حاصل کر کے حقیقت کی طرف لوٹ آئے جن کی اندھی تقلید اور پیروی نے انہیں راہ بھلا رکھی ہے۔ یہ جیسے بھی ہیں اور جتنی بھی زبانی اور عملی تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں لیکن بہرحال ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کا حق ہے کہ ان کی ہدایت کے لئے ضرور دعاء کی جائے۔

دوسری درخواست ہمارے دین سے وابستہ طبقے سے ہے۔ ایسا پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس آفت کی وجہ سے دینی طبقے کو مسلسل امورِ دین میں رُخصت اور فرار کے راستہ پر گامزن کر دیا گیا ہے۔حرمین جو اہل ایمان کے لئے جائے پناہ اور مقامِ امن ہیں مسلمانوں کے لئے بند کر دئیے گئے ہیں اور بجائے اس کے کہ فطری اصول کے مطابق خراب حالات میں مسلمانوں کے لئے ان کی طرف زیادہ رُجوع کی ترغیب ہوتی تو یہ ایک بہتر ایمانی طرز عمل ہوتا۔ اسی طرح مسلمانوں کا اب مختلف بہانوں خصوصاً احتیاط کے نام پر مسجد اور جماعت کی نماز سے گریز بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ جن علمائِ کرام کے اِحتیاطی تدابیر اِختیار کرنے کی ترغیبات پر مبنی بیانات سے یہ نتائج اَخذ کئے جا رہے ہیں کہ ان کی رو سے مسجد اور جماعت کی حاضری سے رخصت مل گئی انہوں نے تو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات خود فرما دی ہے کہ اِحتیاط اِختیار کرنے کا حکم تب تک ہے جب یہ کسی فرض یا واجب کی تکمیل میں رکاوٹ نہ بنے۔ نماز فرض ہے اور جماعت کی حاضری واجب، اور واجب بھی کوئی معمولی نہیں۔جماعت کے اہتمام کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے اِرشادات گرامی کو غور سے پڑھا جائے تو سمجھنے میں مشکل نہیں کہ آپ ﷺ کے ہاں جماعت کی کیا اہمیت ہے اور امت کو آپ ﷺ نے اس کی کتنی شدت کے ساتھ تاکید فرمائی۔ حتی کہ آپ ﷺ نے جماعت ترک کر کے گھروں میں نماز ادا کرنے والوںپر کیسی ناراضی اور شدید غصے کا اظہار فرمایا اور انہیں سخت سزا دینے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اب ایک مسلمان کے لئے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ محض ایک خدشے کی بناء پر ایسے مؤکد حکم کو ترک کر دے اور اپنے لئے بلا عذر اس میں رخصت تلاش کرے؟ علماء کرام نے احتیاط کی ترغیب کے ساتھ اس کی حدود بھی واضح کر دی ہیں اور ساتھ ہی اصل ترغیب اس بات کی ارشاد فرمائی ہے کہ لوگ اس بیماری سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں، توبہ کریں، استغفار کی کثرت کریں اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کریں۔ ان سب باتوں سے صرفِ نظر کر کے بس اس پہلو کو پکڑ لیا گیا کہ انہوں نے احتیاط کا کہہ دیا ہے لہذا احتیاطاً مسجد سے فرار اختیار کر لیا جائے۔

لا حول ولا قوۃ الا باللہ

سنتیں اور نوافل بے شک گھر جا کر ادا کئے جائیں ۔ یہ عمل تو خود سنت سے ثابت ہے لیکن فرض نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر نہ ہونا کورونا کے مرض میں مبتلا ہو جانے سے بھی بُری مصیبت اور آفت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے آمین

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقع پر خوف پھیلانے سے مکمل اِحتراز کیا جائے اور امید افزاء بات کی جائے۔ وَبائی امراض کے پھیلاؤ کے بارے میں اسلامی عقیدے کی مکمل اور کھل کر وضاحت کی جائے۔ مسلمان کے حق میں اس کا حکم بیان کیا جائے۔ اس موقع پر ایک مسلمان کا ایمانی طرز عمل کیا ہونا چاہیے اس موضوع پر بات کی جائے، مسلمان کے حق میں وبائی مرض میں ابتلاء اس کے لئے شہادت کا حکم رکھتا ہے۔ کتنے بڑی شان والے صحابہ کرام ایسے امراض میں دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ جو امین الامۃ ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں مرض طاعون میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب اس مرض کی علامات ان پر ظاہر ہو گئیں تو شوق سے طاعون کے پھوڑے کو دیکھا کرتے اور فرماتے کہ یہ مجھے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرائے گا۔ ہر مسلمان کو ایسے امراض میں ابتلاء سے پناہ مانگنی چاہیے جس کا سب سے بہترین ذریعہ مسنون دعائیں ہیں۔ اس کے بعد سب سے ضروری کام یہ ہے کہ خود کو موت کے لئے مکمل تیار کرنا چاہیے کہ کسی بھی وقت آ جائے تو اچھی حالت میں آئے۔ تیسرا کام یہ ہے کہ ماحول میں امید اور رجوع الی اللہ کی دعوت پھیلائی جائے نہ کہ خوف و ہراس۔ خوف نہ تو مرض سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے دفعیہ میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ مصیبت کو بڑھاتا ہے کم نہیں کرتا۔ احتیاط ضرور کی جائے اور کرائی جائے لیکن بس اس حد تک جس حد تک اسباب کا استعمال اور ان پر بھروسہ مشروع ہے اور اس حالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جائے کہ کوئی مرض یا اس کا خوف ہمارے اور احکام شرع کی ادائیگی کے درمیان حائل ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ ان علماء کرام کو اپنی شان کے مطابق اجر عظیم سے نوازے جنہوں نے اس خوف کے ماحول میں امید کی آواز بلند کی۔فرار کے موسم میں ثبات کی تلقین کی اور اللہ سے بھاگنے والوں کو اللہ کی طرف بھاگنے کی دعوت دی۔ ہم سب اس طرز عمل کو اپنائیں اور اسی پیغام کو عام کریں۔ کورونا یا کسی بھی مرض میں موت آ جانا مسلمان کے لئے اتنی بڑی مصیبت نہیں جتنی بڑی مصیبت ان حالات میں شیطان کا شکار ہو کر ایمان، عقیدے اور ایمانی طرزِ عمل سے اس کا محروم ہو جانا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے