تحریر: سیف العادل احرار
امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان تاریخی معاہدے کے تحت دس مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع اور اس سے قبل اعتماد سازی کے لئے چھ ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے فریقین عملی اقدامات کریں گے لیکن دس دن گزر گئے، قیدی رہا ہوئے اور نہ ہی بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے، اب میڈیا پر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے اور اس عمل کو تعطل کا شکار بنانے کے ذمہ دار کون ہیں؟ اس حوالے سے اشرف غنی کے حامی ٹاک شوز میں طالبان کو مورد الزام ٹہراتے ہیں اور ان پر بیہودہ اور شرمناک الزامات لگاتے ہیں، جبکہ حقیقت کچھ اور ہے جو پوری قوم جانتی ہے، اشرف غنی نے معاہدے کے ایک دن بعد قیدیوں کو رہا نہ کرنے کا اعلان کیا اور پھر اگلے روز ننگرہار میں اشتعال آنگیز تقریر کر کے پیشگی شرائط لگا کر امن عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تاہم امریکہ کے دباو پر انہوں نے حسب سابق یوٹرن لیتے ہوئے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم صادر کیا اور اس کے باوجود اب تک قیدیوں کی رہائی کا عمل تعطل کا شکار ہے جس پر امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمی خلیل نے بھی کہا کہ قیدیوں کی رہائی کا وقت آگیا ہے، فریقین قیدیوں کی رہائی کے لئے اقدامات کریں ۔
گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی ٹاک شو میں اشرف غنی کے حامی اور سابق کمونسٹ کمانڈر، جنرل عبدالواحد طاقت نے اشرف غنی کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے تمام الزامات طالبان پر لگا کر انہیں باغی گروپ قرار دیا، ان کے چند شرمناک الزامات اس تحریر میں زیر قرطاس لاکر ان کے جوابات دینا ضروری سمجھتا ہوں
پوری قوم اور دنیا کو معلوم ہے کہ طالبان کی ٹیم متحد اور آمادہ ہے، اس کا ایجنڈا بھی تیار ہے لیکن کابل انتظامیہ اور افغان سیاستدان ایک پیج پر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا ایجنڈا معلوم ہے ۔
طالبان قیدی رہا کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اشرف غنی قیدیوں کی رہائی کے عمل میں رکاوٹ ہیں، وہ قیدیوں کو معاہدے کے مطابق غیر مشروط طور پر رہا کر کے بین الافغان مذاکرات کے لئے متحد ٹیم تشکیل دیں ۔
جنرل طاقت نے الزام لگایا کہ طالبان، القاعدہ اور داعش سب امریکہ کے آلہ کار اور پس پردہ سب ایک ہیں، امریکہ نے طالبان کو اربوں ڈالر دیئے اور ہمسایہ ممالک کے ذریعے انہیں جدید ہتھیار فراہم کئے، جب طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی ہیں تو امریکہ طالبان کے دفاع کے لئے افغان فورسز پر فضائی حملہ کرتا ہے ۔
اشرف غنی دیانتدار اور محب وطن افغان ہیں، وہ امن پسند اور عوام دوست لیڈر ہیں ۔
قطر دفتر کے ارکان کو امریکہ نے 33 ملین ڈالر دیئے جس پر کوئٹہ شوری کے ارکان نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنے حصے کا مطالبہ کیا، اس لئے کوئٹہ شوری اور قطر دفتر کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، افغانستان میں لڑنے والے جنگجو طالبان اور کمانڈروں نے امن معاہدہ مسترد کیا کیونکہ وہ پانچ سو ملین ڈالر منشیات کی مد میں اور چھ سو ملین سنگ مرمر کی مد میں وصول کر رہے ہیں، اگر جنگ کا خاتمہ ہوا تو انہیں اتنی خطیر رقم پر کہاں سے ملے گی لہذا وہ امن کے خلاف ہیں اور اسی بنیاد پر جنگجو کمانڈروں اور کوئٹہ شوری کے درمیان بھی سنگین اختلافات موجود ہیں ۔
ملا محمد رسول کی طرح ملا محمد یعقوب اور خلفیہ سراج الدین بھی حکومت میں شمولیت اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن ہمارے اندرونی اختلافات کی وجہ سے انہوں نے حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی ۔
طالبان میں بہت سارے گروپس ہیں، کوئٹہ شوری، ملا محمد یعقوب، حقانی نیٹ ورک، داعش، وغیرہ وغیرہ، ہم طالبان کے ساتھ معاہدہ کریں تب بھی یہ جنگ ختم نہیں ہوگی ۔
طالبان مذاکرات کے اصول کے پابند نہیں ہیں انہوں نے ایک ہفتہ کے لئے جنگ کی شدت میں کمی لائی اور معاہدہ کرنے کے بعد دوبارہ کارروائیاں تیز کر دیں جو وعدے کی خلاف ورزی ہے، دنیا میں کوئی باغی گروپ سرنڈر ہوتا ہے تو وہ اصول کا پابند ہوتا ہے لیکن طالبان جنگ کے اصول نہیں جانتے اور نہ ہی ان میں عملی صلاحیت ہے کیونکہ دنیا کے کس قانون میں پانچ ہزار قیدی دس دن میں رہا ہو سکتے ہیں؟ طالبان نے دس دن میں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر کے اپنی کم علمی کا اظہار کیا ۔
اگر طالبان امن پر یقین رکھتے ہیں تو وہ ہتھیار ڈال کر حکومت میں شمولیت اختیار کریں انہیں وزارت مذہبی امور کے علاوہ دو تین محکمے ان کو دیئے جائیں، وزارت مذہبی امور کے علاوہ طالبان کو کوئی دوسرا محکمہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ وہ اس وزارت کے علاوہ اور محکمے چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر اشرف غنی امن پسند اور عوام دوست لیڈر ہیں پھر امن کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی بقا کے لئے امن عمل کو سبوتاژ کر رہے ہیں اور وہ امن عمل کے خلاف عملی اقدامات کے علاوہ متعدد بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ امن عمل کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کے لئے دو تین سال نہیں بلکہ طویل وقت اور صبر کی ضرورت ہے اس کا مطلب ہے کہ جنگ جاری رہے گی تاکہ وہ اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کریں ۔
اگر امریکہ طالبان کو ہتھیار اور ڈالر دے رہا ہے تو پھر ان کے درمیان جنگ کیوں ہورہی ہے، ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور ہزاروں مجاہدین شہید ہوگئے، امریکہ کے اربوں ڈالر اس جنگ میں خرچ ہوئے، کیا امریکہ اتنا بے وقوف ہے کہ وہ نام نہاد جنگ میں اپنے ہزاروں فوجیوں کو مروائے اور اربوں ڈالر ضائع کرے، دوسری بات یہ ہے اگر ایسا ہی ہم مان لیں تو پھر اشرف غنی نے امریکہ کے ساتھ دفاع کے لئے سیکورٹی معاہدہ کیوں کر رکھا ہے، اس کو خلاف ورزی پر توڑنے کا اعلان کریں ۔
مخالفین کے الزامات میں بھی تضاد ہے، ایک بار الزام لگایا کہ طالبان، القاعدہ اور داعش سب اندرون خانہ ایک ہیں اور پھر الزام لگایا کہ طالبان میں تو بہت اختلافات ہیں، قطر دفتر، کوئٹہ شوری، ملا یعقوب اور حقانی نیٹ ورک، یہ تو ایک پیج پر نہیں ہیں ۔
الزام لگایا کہ طالبان تو منشیات اور سنگ مرمر کی مد میں اربوں روپے وصول کر رہے ہیں اور پھر الزام لگایا کہ امریکہ کے پاس وسائل اور ہتھیار کہاں سے آگئے یہ تو امریکہ فراہم کر رہا ہے، مخالفین کے اس الزام میں بھی کھلا تضاد پایا جاتا ہے ۔
الزام لگایا کہ ہم طالبان کے ساتھ معاہدہ کریں تب بھی جنگ ختم نہیں ہوگی کیونکہ طالبان متحد نہیں ہیں ان میں کئی گروپس سرگرم ہیں، پھر شکوہ کیا کہ طالبان جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں اس لئے امن عمل تعطل کا شکار ہے، طالبان نے ایک ہفتہ تک جنگ کی شدت میں کمی لانے کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد معمول کے مطابق جہادی کارروائیاں شروع ہوئیں کیونکہ امارت کی قیادت نے مستقل جنگ بندی یا جنگ کی شدت میں کمی لانے کا وعدہ نہیں کیا تھا جس کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔
الزام لگایا کہ طالبان کی علمی صلاحیت کم ہے، دس دن میں پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں ہے، یہ اعتراض تو امریکہ پر بھی ہوا کیونکہ صرف طالبان نہیں بلکہ امریکہ نے بھی دس دن میں قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر دستخط کیا ہے، اس کا مطلب ہوا کہ امریکی حکام کی عملی صلاحیت بھی کم ہے ۔ علاوہ ازین ہمسایہ ملک ایران میں بھی کرونا وائرس کی وجہ سے ایران کی حکومت نے 85 ہزار قیدیوں کو رہا کر دیا جس کے مقابلے میں پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی معمولی بات ہے ۔
طالبان اگر امن کے خواہاں ہیں تو ہتھیار ڈال کر حکومت میں شمولیت اختیار کریں انہیں وزارت مذہبی امور سمیت دو تین محکمے دیئے جائیں گے، اتنے بے وقوف ہیں کہ طالبان نے ایک دو وزارت کے لئے اتنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کی، وہ اتنے کم علم اور کم ظرف ہیں کہ ابھی تک طالبان کی جدوجہد کا مقصد نہیں سمجھتے اور بڑے دانشور بن کر ٹاک شوز میں تبصرے کرتے ہیں ۔ طالبان نے جب امریکہ سمیت 48 ممالک کی افواج کو شکست دیکر انخلا کے معاہدے پر مجبور کیا تو وہ شکست خوردہ کی حیثیت سے نہیں آئیں گے اور نہ ہی ایک دو وزارت کی بھیک مانگنے کے لئے اشرف غنی کی ٹیم سے مزاکرات کریں گے، وہ فاتح بن کر آرہے ہیں، وہ اصل حکمران بن کر کابل میں داخل ہو جائیں گے اور سچے افغانوں کو اقتدار میں شریک کریں گے جن کے دامن پر خیانت، کرپشن اور قتل و غارت کے سیاہ دھبے نہیں ہوں گے، اسلام اور ملک کے وفادار ہوں گے ۔
قوم جانتی ہے کہ اشرف غنی کی کابینہ میں شامل وزراء کی جیبوں میں دو دو پاسپورٹ پڑے ہیں ان کے اہل خانہ اور بچے باہر ممالک میں عیاشیاں کر رہے ہیں اور وہ یہاں پر کرپشن میں مصروف ہیں ۔
تاریخ میں یہ بات درج ہو گئی کہ اشرف غنی نے ملک کو نیلام کرنے کا معاہدہ کیا اور طالبان نے قابض امریکہ کو انخلا پر مجبور کر کے جارحیت کے خاتمے کا تاریخی معاہدہ کیا، وہ دن دور نہیں کہ وطن عزیز مکمل طور پر آزاد اور اس میں لاکھوں شہداء کی امنگوں کے مطابق اسلامی نظام نافذ ہو جائے گا ۔ ان شاء اللہ تعالی
