تحریر: عنایت اللہ خاموش
افغانستان پر غیر ملکی حملہ آوروں کی جارحیت اور ناجائز قبضہ کے 19 برس مکمل ہو گئے ہیں، انہوں نے ہمارے ملک پر جارحیت کا ارتکاب کیا اور پھر یہاں پر ان لوگوں کو مسلط کیا جنہیں ملک کے بجائے ذاتی مفادات عزیز ہیں ۔
جس وقت حملہ آور افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اسی وقت انہوں نے ایسے افراد کی تلاش شروع کی جنہوں نے اپنا زیادہ تر وقت مغربی ممالک میں گزارا تھا یا پھر ایسے لوگ تھے جنہوں نے افغانستان میں عوام کے قتل عام میں ریکارڈ قائم کیا تھا، جب امارت اسلامیہ نے ملک میں اسلامی حکومت قائم کی تو ایسے جرائم پیشہ عناصر ملک سے فرار ہو گئے اور بیرون ممالک میں پناہ لی اور وہاں پر بہت ذلت کی زندگی گزا رہے تھے، وہ حصول اقتدار کے لئے کسی کی مدد حاصل کرنے کی تلاش میں تھے اور بین الاقوامی میڈیا پر امارت اسلامیہ اور اسلامی نظام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہے تھے، بالآخر انہوں نے امریکہ کو افغانستان پر فوری اور براہ راست حملہ کرنے پر قائل کیا، اس نے بھی ان پر یقین کیا اور افغانستان پر حملہ کیا اور اسلامی حکومت کا خاتمہ کر کے انہیں ملک پر مسلط کیا، انہوں نے بینک بیلنس بڑھانے اور حملہ آوروں سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے ایسے مظالم کیے جو دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، انہوں نے جارحیت پسندوں کے مصنوعی خیالات کو فروغ دینے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا اور حملہ آوروں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، داڑھی اور پگڑی والے افراد پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، مغربی لباس کو ترقی، روشن خیالی کی علامت قرار دیکر قابض قوتوں کے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا، سابقہ مجاہدین اور کمانڈروں نے داڑھیاں منڈوا کر ٹائی اور پتلون کو زیب تن کیا، بڑے پیمانے پر کرپشن کر کے اپنی دولت باہر ممالک منتقل کر دی، کابل شہر میں بلند اور عالی شان عمارتوں کے مالک بن گئے، بڑے بڑے عہدوں پر براجماں ہوئے، ملک میں اسلامی اقدار اور قومی وقار کو داو پر لگایا، آزادی اظہار رائے کے نام پر میڈیا کو استعمال کیا اور خواتین کے حقوق کے نام پر عورتوں کو نچوانے کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملک میں فحاشی و عریانی کو فروغ دیا ۔
دوسری طرف امارت اسلامیہ کی صفوں کی تنظیم نو کی گئی اور امریکی جارحیت کے خلاف ملک بھر میں جہاد اور مزاحمت کا سلسلہ شروع کر دیا، امارت اسلامیہ کی قیادت میں افغان عوام اور غیور مجاہدین نے امریکہ اور اس کے 48 ممالک اتحادیوں کے خلاف ایمانی قوت سے مقابلہ کیا، ملک کے طول و عرض میں سفاک دشمن پر تابڑتوڑ حملے شروع کئے، فدائی مجاہدین نے دشمن کی ٹینکالوجی اور مہلک ہتھیاروں کو شکست دے دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن نے اعتراف کیا کہ طالبان کو فوجی طاقت کے ذریعے شکست دینا ناممکن ہے، کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں یہ طویل جنگ ہے، ایک سپرپاور کا دعوی رکھنے والا ملک 19 برس سے ایک کمزور اور غریب ملک میں جنگ میں مصروف ہے لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکل رہا ہے، جن طالبان کو امریکہ نے صفحہ ہستی سے مٹانے کا دعوی کیا تھا، انہوں نے اپنی مزاحمت کا آغاز زیرو سے شروع کیا اور 19 برس کے بعد ملک کے ستر فیصد رقبے پر حاکم بن گئے، اس لئے امریکہ نے جارحیت کے خاتمے اور افغانستان سے باعزت واپسی کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا اور 16 ماہ کے مذاکرات کے بعد امارت اسلامیہ کے ساتھ تاریخی معاہدہ کیا ۔
اب ناجائز قبضے کا خاتمہ ہونے والا ہے، ملک آزاد ہوگا اور اس میں اسلامی نظام نافذ ہو کر رہے گا، لیکن چند عناصر جو مغربی نظریات سے آراستہ ہیں یا ناجائز قبضے میں مادی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، جارحیت کے خاتمے سے ان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے وہ امن کے مخالف ہیں اور امن عمل میں رخنہ ڈالنے کی سازشیں اور مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں، وہ قیدیوں کی مشروط رہائی کے اعلانات کر رہے ہیں، وہ جارحیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر قسم ہتھکنڈے بروئے کار لارہے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے ان کے تمام حربے ناکام ثابت ہوں گے ۔
امن کے دشمنوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک پر ناجائز قبضے کے تسلسل کو برقرار رکھنا کس کے لئے نقصان دہ ہے؟ اگر یہ قبضہ برقرار رہے تو عوام کا نقصان ہوگا یا ضمیر فروش حکمرانوں کا؟ جارحیت کو دوام بخشنے سے ہماری اقدار کو نقصان پہنچے گا یا حملہ آوروں کو؟
لہذا جو لوگ امن کی راہ میں اپنے ذاتی مفادات کے لئے رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے خلاف مل کر جدوجہد کرنی چاہیے کیونکہ یہ دھرتی ہماری ہے اور ہماری اقدار اسلام سے ماخوذ ہیں ، جو عناصر غیر ملکیوں کے کہنے پر اپنی اقدار کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں وہ درحقیقت اسلامی نظریہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، لہذا ہمیں قبضے کے خاتمے اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
آئیے اپنی اقدار اور آزادی کا دفاع کریں اور ان کا مقابلہ کریں جو ہمیں مارنے اور ہماری اقدار تباہ کرنے کے لئے مغرب سے لائے گئے اور ہم پر مسلط کئے گئے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے