حفاظت کے قلعے مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ سے رحمت، نصرت اور عافیت کا سوال ہے…آج کل دنیا بھر میں ایک بیماری اور ’’وباء‘‘ پھیلی ہوئی ہے… ہر طرف خوف ہے اور دہشت…’’طاعون‘‘ بھی اسی طرح کی ایک بیماری اور وباء ہے… بلکہ ’’کورونا وائرس‘‘ سے زیادہ خطرناک اور مہلک… کئی احادیث مبارکہ میں… اس کا تذکرہ ملتا ہے… اور ہم اُن احادیث مبارکہ سے… موجودہ صورتحال پر روشنی لے سکتے ہیں… حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریمﷺ سے ’’طاعون‘‘ کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے خبر دی کہ وہ ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اُس پر بھیج دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مؤمنوں کے حق میں رحمت بنایا ہے۔ فتح الباری
ایک اور حدیث میں حضور اقدسﷺ کا ارشاد گرامی ہے:۔
الطاعون شھادۃ لکل مسلم (بخاری)۔
طاعون ہر مسلمان کے لے شہادت ہے۔
یعنی جو مسلمان ایمان کی حالت میں… طاعون کی وباء سے مرے گا وہ شہید ہوگا… اب ہم اپنی بات یہاں روک کر… قرآن مجید کی طرف آتے ہیں… سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کے ایک گروہ کا تذکرہ موجود ہے… ملاحظہ فرمائیے آیت ۲۴۳ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے… ان پر موت کا خوف مسلط ہوگیا… اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ… اس کے بندے موت کے خوف سے بھاگتے پھریں… موت سے کون بھاگ سکتا ہے؟
موت نے تو ضرور آنا ہے… اور موت ایک مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذریعہ… اور راحت سے بھرپور تحفہ ہے… بہرحال بنی اسرائیل کے اس گروہ کو شیطان نے موت کے خوف میں مبتلا کردیا… شیطان اسی طرح کرتا ہے… وہ انسانوں کو موت سے ڈرا کر اُن سے غلط کام کرواتا ہے… مگر موت پھر بھی آجاتی ہے… بنی اسرائیل کے یہ ہزاروں یا لاکھوں لوگ… موت کے ڈر سے… اپنے علاقے سے بھاگ کھڑے ہوئے…۔
مفسرین فرماتے ہیں کہ… اُن پر دشمن کے حملے کا خوف تھا اور وقت کے پیغمبر نے انہیں جہاد کی طرف بلایا تھا… دشمن طاقتور تھا چنانچہ وہ ڈر گئے… اور یہ کہتے ہوئے بھاگ نکلے کہ… ہم جنگ نہیں چاہتے… بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ… اس علاقے میں کوئی مہلک بیماری اور وباء پھوٹ پڑی تھی… اور یہ اس سے بھاگے…۔
مگر جیسے ہی اپنے علاقے سے نکلے… اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا کہ… سارے مرجائو… چنانچہ ہر طرف لاشوں کے انبار لگ گئے… نہ جہاد میں انہیں دشمن نے مارا… اور نہ کوئی وباء آئی… مگر موت آگئی… موت نے جب آنا ہوتو پھر ضروری نہیں ہوتا کہ… دشمن ہی آپ کو مارے… یا کسی بیماری یا وباء سے آپ کو موت آئے… دنیا میں اور لاکھوں لوگ مرتے ہیں… اور جو موجود ہیں… وہ بھی مرجائیں گے… موت سے کوئی نہیں بچ سکتا…اس لیے موت سے بھاگنا فضول اور بُرا کام ہے… کوشش یہ ہونی چاہیے کہ موت اچھی آئے… اور موت کے بعد کا سفر اچھا ہو… حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یہ (واقعہ) پہلی اُمت (یعنی بنی اسرائیل) میں ہوا ہے کہ… کئی ہزار شخص گھر بار لے کر اپنے وطن کو چھوڑ نکلے… ان کو ڈر ہوا غنیم (یعنی دشمن کے حملے) کا اور لڑنے …(یعنی دشمن کا مقابلہ کرنے سے) سے جی چھپایا… یا ڈر ہوا ’’وباء‘‘ کا اور یقین نہ ہوا تقدیر کا… پھر ایک منزل میں پہنچ کر سارے مرگئے… پھر سات دن بعد پیغمبر کی دعاء سے زندہ ہوئے کہ آگے کو توبہ کریں…یہاں اس واسطے فرمایا جہاد سے جی چھپانا عبث ہے (یعنی فضول اور غلط کام ہے) موت نہیں چھوڑتی۔ (موضحِ قرآن)۔
بس یہ ہے اسلام کا مزاج… یہ ہے ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی تربیت…۔
علاج بھی جائز… کچھ نہ کچھ احتیاطی تدابیر بھی بجا… مگر خوف، وہم اور نیکیوں سے محرومی… جائز نہیں… مختصر مضمون میں پوری بات نہیں آسکتی… موت کے خوف پر قرآن مجید نے یہودیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے… اور اُن سے تقاضا کیا ہے کہ… اگر تم اپنی فضیلت اور بلندی کے دعووں میں سچے ہوتو… موت کی تمنا کرو… تم تو موت سے بھاگتے ہو… اور موت سے بھاگنے والے لوگ کبھی…اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے نہیں ہوسکتے… وباء پھیل چکی ہے… اگرچہ ہمارے ملک میں اس کا زور نہیں ہے… مگر غیروں کی نقل میں… یہاں بھی کافی افراتفری ہے… حالانکہ اس سے حفاظت کی بہترین تدبیر… اللہ تعالیٰ کی پناہ… اللہ تعالیٰ کا ذکر… اور اللہ تعالیٰ سے ’’عافیت‘‘ کا سوال ہے… نمازوں اور دیگر فرائض کا بھرپور اہتمام کریں… مساجد کو خوب آباد کریں… ذکر اللہ اور درود شریف کی مجالس سجائیں… اور عافیت کی یہ اہم دعاء… اپنا معمول بنائیں… وہ دعاء جسے رسول پاکﷺ…کبھی ناغہ نہیں فرماتے تھے:۔
روایت کے الفاظ دیکھیں:۔
لم یکن رسول اللّٰہﷺ یدع ھولاء الکلمات حین یمسی وحین یصبح
کہ رسول اللہ ﷺ کسی شام یا کسی صبح ان الفاظ کا ناغہ نہیں فرماتے تھے۔ (ابو دائود، مسند احمد)۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَ دُنْیَایَ وَ أَہْلِی وَ مَالِی اَللّٰہُمَّ استُرْ عَوْرَاتی وَآمِنْ رَوْعَاتی، اَللّٰہمَّ احْفَظْنِی مِنْ بَینِ یَدَیَّ وَ مِنْ خَلْفی وَ عَنْ یَمِیْنِی وَ عَنْ شِمَالِی وَ مِنْ فَوْقِی وَ أَعُوذُ بِعَظَمَتِکَ أنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ
دعائیں سکھائے … مدینہ مدینہ
حفاظت کے قلعے … مدینہ مدینہ
نہ مسجد کو چھوڑو … اے ایمان والو
سبق یہ سکھائے … مدینہ مدینہ
جو احادیث مبارکہ… طاعون کے بارے میں آئی ہیں…ان سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ…کوئی مسلمان خود کو جان بوجھ کر امتحان میں نہ ڈالے اور خود اس علاقہ میں نہ جائے… جہاں پر ’’وباء‘‘ پھیلی ہوئی ہو…وجہ یہ ہے کہ…ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ…لاعدویٰ…کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی…اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر… کسی سے کسی کو کوئی بیماری نہیں لگتی… جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہو…بس اسی کو لگتی ہے… کوئی خارش زدہ اونٹ…دوسرے اونٹوں کو بیمار اور خارش زدہ نہیں کرتا…جس کو بیماری لگتی ہے…اس کی اپنی تقدیر سے لگتی ہے… اب اگر کوئی وباء زدہ علاقے میں جائے گا اور اس کو اس کی تقدیر کی وجہ سے بیماری لگ گئی تو اس کا یقین بگڑ سکتا ہے… وہ اس وہم میں جاسکتا ہے کہ…یہ بیماری مجھے فلاں سے لگی ہے اور وہم ایک مومن کے لیے موت سے زیادہ برا ہے…اس لیے اچھا ہے کہ وہ ایسے علاقے میں جائے ہی نہ…اور دوسری بات ان احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ…جس علاقہ میں وباء آچکی ہو… وہاں سے کوئی مسلمان بھاگ کر دوسرے علاقے میں نہ جائے…زادالمعاد میں روایت درج ہے کہ… جو طاعون سے بھاگے گا وہ ایسا ہے جیسا کہ میدان جہاد سے بھاگنے والا…یعنی اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق…اگر بیماری اور موت قسمت میںلکھی ہے تو بھاگنے سے نہیں ٹلے گی… اور اگر نہیں لکھی تو… وباء زدہ علاقے میں موجود رہنے سے بھی نہیں آئے گی…لیکن موت اور بیماری کے خوف میں اَشرف المخلوقات انسان کا…اس قدر اَفراتفری میں پڑجانا…اس کے مقام کے بھی خلاف ہے…’’مدینہ مدینہ‘‘ نے…ایسے نسخے سکھادئیے ہیں کہ ان نسخوں کی پناہ گاہ میں…ایک انسان بغیر خوف اور دہشت کے…اطمینان کے ساتھ رِہ سکتا ہے…آپ نے کبھی اس دعاء پر غورفرمایا جو…حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں سے…حضرت آقا مدنیﷺ تک چلی آتی ہے…حضرت ابراہیم علیہ السلام اس دعاء سے… اپنے صاحبزادوں اسماعیل واسحاق علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیا کرتے تھے…جبکہ حضوراقدسﷺ اپنے لاڈلے نواسوں… سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو اس دعاء کے حفاظتی حصار میں لیتے تھے… دعاء بخاری شریف میں موجود ہے:۔
‘‘اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَ ھَامَّۃٍ وَ مِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃْ
اس دعاء میں…اللہ تعالی کے مکمل وطاقتور کلمات کے ذریعہ ہر شیطان ہر موذی جاندار اور ہر ’’نظر بد‘‘ سے پناہ مانگی گئی ہے…’’ھامۃ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ زہریلے حشرات الارض…چھوٹے چھوٹے موذی جانداران میں بیماریوں کے جراثیم بھی آجاتے ہیں…کرونا ہو یا کوئی اور جرثومہ … یہ بھی جاندارہوتے ہیں اور زہریلے ہوتے ہیں… جب ہم صبح شام اس دعاء کا اہتمام کریںگے… اور اپنے بچوں پر بھی اس کا دَم کریں گے تو ان شاء اللہ…ہر وبائی جرثومے سے بھی…پناہ مل جائے گی…۔
’’ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَ ھَامَّۃٍ وَ مِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃْ ‘‘
باقی رہے مختلف مقامات کے…فلاں جگہ جانا ہے یا نہیں؟ تو ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے دعاء سکھادی ہے یہ مسلم شریف کی روایت ہے حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔
’’من نزل منزلا فقال اعوذ بکلمات اللّٰہ التامات من شرما خلق لم یضرہ شیء حتی یرحل من منزلہ ذلک‘‘
جو کسی جگہ جائے اور وہاں یہ دعاء پڑھ لے تو جب تک اس جگہ پر رہے گا اسے کوئی چیز تکلیف نہیں پہنچاسکے گی۔
اعوذ بکلمات اللّٰہ التامات من شرما خلق (صحیح مسلم)۔
اس لیے مسجد میں جانا بند نہ کریں…دینی اجتماعات میں جانا بند نہ کریں وہاں جاکر ان مبارک کلمات کو پڑھ کر…اللہ تعالیٰ کے ناقابل تسخیر…ناقابل شکست کلمات کے مضبوط حصار میں آجایا کریں اور خوب توجہ اور مزے سے عبادت کیا کریں…۔
تعوذ کے حلقے ہیں مضبوط یارو
مدینہ کے نسخے موثر ہیں یارو
کسی کی نہ مانو … صرف اس کو دیکھو
جو ہم کو بتائے … مدینہ مدینہ
٭…٭…٭
بہت دعوے تھے ترقی کے…بہت دعوے تھے سائنس کی پہنچ کے…مگر ایک چھوٹے سے وائرس نے ساری دنیا کا پٹاخا نکال دیا ہے…اب نہ کوئی علاج ہے اور نہ کوئی دفاع…بس ہاتھ دھوتے رہو… اسلام نے تو الحمد للہ بہت پہلے ماننے والوں کو…ہاتھ دھونے پر لگادیا تھا… مگراس کا ہمیشہ مذاق اُڑایا گیا… روز پانچ ٹائم وضو میں سب سے پہلے ہاتھ دھولو… استنجے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھولو…کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھولو…نیند سے جاگو تو کسی کھانے پینے کی چیز کو چھونے سے پہلے ہاتھ دھولو…الحمد للہ، الحمد اللہ…طہارت ہی طہارت… پاکیزگی ہی پاکیزگی… تمہیں تو ابھی تک…جسم سے غلاظت دھونے کی سمجھ نہیں آرہی تھی…صرف ٹشو کا استعمال اور بدبومیں لتھڑے جسم…اوپر پرفیوم اب وائرس آیا تو…دن رات ہاتھ دھوتے ہو…ایڈز جیسی غلیظ بیماری کو تم نے خود دنیا بھر میں کاشت کیا…فطرت کے دشمنوں کو جو اس بیماری کا ذریعہ ہیں تم نے…خود عزت دی اور پھیلایا…کاش اس کے خلاف اس طرح کی احتیاطی مہم چلاتے… جس طرح کی ’’کورونا‘‘ کے خلاف چلارہے ہو اور اپنی اس بے وقوفانہ مہم کو… مسلمانوں پر زبردستی مسلط کررہے ہو…ھمارے ہاں جو سائنس اور یورپ کے پجاری ہیں وہ اب…ہاتھ دھونے اور منہ پرنقاب ڈالنے کو بھی…یورپ کی ترقی اور عقلمندی قرار دے رہے ہیں…حالانکہ مسلمانوں میں تو یہ چیزیں پہلے سے موجود تھیں…مسلمانوں کے پاس الحمد للہ…ترقی اور صحت کے اصل راز موجود ہیں…مگر افسوس کہ انہیں…اچھی قیادت فی الحال دستیاب نہیں ہے…اپنی تمام تر سائنس اور ٹینالوجی لگاکر بھی… اسوقت یورپ میں روز سینکڑوں افراد…اس وباء سے مر رہے ہیں جبکہ…غریب مسلمان ممالک الحمد للہ…کافی حد تک محفوظ ہیں اب ان مسلمان ممالک میں خوف،بدحواسی اور ہلچل مچاکر…دشمن اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کر رہے ہیں اور ان ممالک کو ایسے اقدامات پر مجبور کررہے ہیں جن کی وجہ سے معاشی بحران اور طرح طرح کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں…۔
اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ …مغرب کی اندھی تقلیدسے باز رہیں۔مدینہ مدینہ سے رہنمائی حاصل کریں اور دشمنوں کی سازش سے بچیں۔ھمارے ہاں تو ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہیں جو روزانہ کی روزی…اسی دن کماتے ہیں اگر ان کو کسی دن کمائی نہ ملے تو…اگلے دن ان کے گھر میں چولہا نہیں جل سکتا…ہمارے ملکوں کی دولت تو…امریکہ اور یورپ مختلف بہانوں سے لوٹ کرلے جاتے ہیں اور طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑکر یہاں عوام میں غربت پھیلاتے ہیں…پھر ہم ایک بیماری اور وباء کے خوف سے…ایسے اقدامات کیوں کررہے ہیں جن کی وجہ سے… مزدور کی روزی بند ہوجائے؟…کتنے افسوس کی بات ہے کہ…مغرب والوں نے…ہاتھ ملانے کی بجائے کہنیاں ملانا شروع کریں تو ہم نے بھی…فوراً اُن کی اقتداء شروع کردی… اگر ہاتھ نہیں ملانا تو ٹھیک ہے نہ ملاؤ…خود کو موت سے بچالو…مگر غیروں کی تقلیدمیں کہنیاں ٹکرانا…کونسی ترقی ہے اور کونسی عقلمندی… اور سب سے افسوسناک پہلو…لوگوں کومساجد اور دینی درسگاہوں سے محروم کرنا ہے… ارے یہی تو… انسانیت کی حفاظت اور بقاء کے مراکز ہیں…یہ ویران ہو گئے تو پھر… وباء نہیں قیامت آئے گی قیامت… مدینہ مدینہ نے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے… اللہ تعالیٰ سے ’’معوذتین‘‘ کا تحفہ لیا… اور انسانیت کو بخشا… دو ایسی سورتیں… جن کا کوئی مثل ہی نہیں… جن کا کوئی مقابل ہی نہیں…اور جن کے حفاظتی حصار کا دنیا میں کوئی توڑ ہی نہیں… نظر آنے والے دشمنوں کے لئے سورۃ الفلق… اور نہ نظر آنے والے دشمنوں کے لئے… سورۃ الناس… آپ ماضی کے اہل علم اور اہل عقل کی تحقیقات بھی پڑھ لیں… انہوں نے وبائی بیماریوں کے اسباب پر بہت تفصیل سے لکھا ہے… علامہ ابن قیم ؒ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں… وبائی امراض پر حکماء اور اطبّاء کی تحقیقات کو جمع فرمایا ہے… ان کے بقول وبائی امراض کی بڑی وجہ… ہوا کی خرابی… یا… جنات کا حملہ ہوتی ہے… کوئی لبرل ہنستا ہے تو ہنسے… مگر سچ یہی ہے کہ… جنات موجود ہیں… اور ان میں جو کافر ہیں وہ شیطان کے حواری … اور انسانوں کے دشمن ہیں… وہ بھی ایجادات کرتے ہیں… اور انسانوں پر اپنی دشمنی نکالنے کے لئے طرح طرح ہتھیار بناتے ہیں… اور پھر جب انسانوں سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اٹھتی ہے تو یہ جنات ان پر… مہلک حملے کرتے ہیں جو کہ… وباؤں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں… اسی طرح ہوا کی خرابی سے بھی یہ وباء وجود پاتی ہے… معوذتین اور آیۃ الکرسی میں ان دونوں اسباب کو توڑنے کی بے انتہا طاقت موجود ہے…حضور اقدس ﷺ نے اپنے ایک صحابی کو… صبح و شام سورہ اخلاص اور معوذتین پابندی سے پڑھنے کی تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا :۔
تکفیک من کل شیء ( ابوداؤد )۔
یہ ہر چیز کا مقابلہ کرنے کے لئے تمہیں کافی ہیں…۔
یعنی ہر شیطانی اور شرّی حملے کو روکنے کے لئے بہت ہیں… کافی ہیں… مسلمانوں کو صبح و شام ان سورتوں کا کم از کم تین بار اور زیادہ جس قدر ہو سکے اہتمام کرنا چاہیے… اور اگر ہر نماز کے بعد تین تین بار پڑھیں تو… سنت بھی پوری ہو… اور حفاظت و برکت کا خزانہ بھی ہاتھ لگ جائے… اسی طرح قرآن مجید کی وہ دعاء… جس پر عظیم سورت… التوبہ کا اختتام ہوتا ہے وہ بھی… تاثیر، حفاظت، حصار، قوت اور برکت کا خزانہ ہے…۔
حَسْبِیَ اﷲُ لَآ اِلٰہَ اِلََّا ھُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ
ان مبارک کلمات کے بارے میں ارشاد فرمایا
جو یہ صبح شام پڑھ لے
کفاہ اللّٰہ ما اھمہ من امر الدنیا والآخرۃ
اس کے لئے دنیا و آخرت کی تمام فکروں کے لئے کافی ہو جائیں گے…۔
’’راحت القلوب‘‘ میں … حضرت بابا فرید ؒ نے ان کلمات کی تاثیر پر عجیب واقعات لکھے ہیں… بے شک مسلمانوں کا دامن نعمتوں سے بھرا ہوا ہے…۔
شفاء کے خزانے … مدینہ مدینہ
ہیں روشن زمانے … مدینہ مدینہ
جو چاہو ملے گا … یقیں کر کے دیکھو
کرم کے خزانے … مدینہ مدینہ
٭…٭…٭
جو مسلمان اس ’’وباء ‘‘ میں مبتلا ہیں… اللہ تعالیٰ ان کو شفاء نصیب فرمائیں… جو اس وباء میں وفات پا چکے ہیں… اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت و اکرام کا مقام نصیب فرمائیں… اور جو مسلمان اس وباء سے محفوظ ہیں… اللہ تعالیٰ ان کو اپنی امان اور عافیت میں رکھے…۔
اس موقع پر … اتنی گذارش ہے کہ… اس معمولی سی بیماری سے … شکست نہ کھائیں… اگر ہم ایمان میں کمزور پڑے … ہمارا عقیدہ خراب ہوا… ہمارے اعمال میں کمی آئی… اور ہم نے بس موت اور بیماری سے بچنے کو ہی اپنا اصل مقصد بنا لیا تو یہ سب… خسارے اور شکست کی باتیں ہیں… مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھنا چاہیے… جو مصیبت کے وقت بھی نہ گڑگڑائے… اس کے لئے بڑی سخت وعید ہے… مساجد، عبادت، باجماعت نماز اور دینی روحانی مجالس سے اپنا رشتہ مضبوط بنائیں… آج کل طرح طرح کے ’’وظائف‘‘ بھی گردش کر رہے ہیں… کوشش کریں کہ خود کو… مدینہ مدینہ کے مسنون وظائف میں پابند رکھیں… یہ مستند اور محفوظ راستہ ہے…مزید کوئی دعاء یا وظیفہ پڑھنا ہو تو… مشورہ اور استخارہ کر لیں… بعض مجرب وظائف ہر کسی کے لئے مفید نہیں ہوتے… ان کا فائدہ کسی کسی کو ہوتا ہے… اور بعض وظائف کے الفاظ… درست عقیدے کے خلاف ہوتے ہیں… دو اوقات میں تھوڑی سی محنت فرما لیں… صرف ان دنوں نہیں بلکہ پوری زندگی… ایک صبح شروع ہونے کا وقت… یعنی فجر کے داخل ہونے کا وقت… اور دوسرا سورج غروب ہونے کے فوراً بعد کا وقت… ان دو اوقات میں دس پندرہ منٹ لگا کر … خود کو مدینہ مدینہ کے قرآن اور مسنون حصار میں محفوظ کر لیا کریں… وہ اعمال جو احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں
۔(۱) سورہ اخلاص، معوذتین… تین تین بار
۔(۲) سورہ فاتحہ … سورہ بقرہ کی پہلی ، درمیانی اور آخری آیات… ان میں آیۃ الکرسی بھی آ گئی… ۔
۔(۳) سات بار وہ دعاء جو حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بہت تاکید سے ارشاد فرمائی… ۔
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ وَ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ
۔(۴) وہ دعاء تین بار… جس کے بارے میں حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا… جو چاہے کہ اسے کوئی چیز تکلیف نہ دے اور اسے اچانک کوئی مصیبت نہ آئی پکڑے تو اوہ کہے
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْء ٌ فِی الْأَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَائِ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
۔(۵) وہ دعاء ایک بار جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ صبح پڑھ لو تو شام تک… اور شام کو پڑھ لو تو صبح تک ہر مصیبت سے محفوظ رہتا ہے…۔
اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ، عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ، وَ أَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ، مَا شَائَ اللّٰہُ کَانَ وَ مَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ ، أَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، وَ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا ، اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا، إِنَّ رَبِّی عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ( ابن السنی، ابو داؤد )
(۶)مَا شَآئَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ … حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الوَکِیلُ
یہ دونوں قرآنی دعائیں… جس قدر ہو سکیں
۔(۷) دعائے عافیت ( جو کالم کے شروع میں مذکور ہے) اور دو تعوذات جو پہلے عرض کئے ہیں… ’’حسبی اللّٰہ ‘‘ والی دعاء… اور صبح و شام کی مسنون دعائیں
بس یہ دس پندرہ منٹ کا عمل کر کے… بے فکر ہو کر… دین کے کام میں لگ جائیں…درود شریف کی کثرت کریں… صدقہ خیرات دیں… ہماری زندگی رکتی نہیں ہے… یہ موت کی طرف بڑھ رہی ہے… اس لئے اسے ضائع کرنے یا روکنے کی غلطی نہ کریں…۔
عمل میں بھلائی ، عمل میں فلاح ہے
عمل میں کرامت ، عمل میں نجاح ہے
نہ وہم و وساوس میں بے کار بیٹھو
ذرا دل سے بولو … مدینہ مدینہ
لا الہ الا اللّٰہ ، لا الہ الا اللّٰہ ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صلیٰ علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے