تحریر: سیف العادل احرار
امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان اہم اور تاریخی معاہدے سے ثابت ہوا کہ مولوی سیاست کا شہزادہ اور حکومت اسلامی کا بہترین چہرہ ہے، امارت اسلامیہ کے قائدین اور بالخصوص معاہدے پر دستخط کرنے والے محترم ملا بردار اخوند کا انداز نہایت خوبصورت اور پرکشش ہے، سپرپاور امریکہ کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات کے بعد تاریخی معاہدے پر دستخط کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اسلامیت اور افغانیت سے مزین، داڑھی، پگڑی اور سفید شلوار وقیمص کی زیبائش سے آراستہ ملا بردار اخوند اور دیگر قائدین بیک وقت علم و عمل، شریعت و طریقت اور خدمت و سیاست سے آرائش یافتہ ہیں ۔
قطر معاہدے کے بعد دنیا کے مشہور تجزیہ کاروں نے امارت اسلامیہ کے قائدین پر مختلف مگر مثبت تبصرے کئے، بی بی سی اردو نے ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ قطر کے شہر دوحہ میں سفید شلوار قمیض میں ملبوس، سر پر پگڑیاں پہنے اور کاندھوں پر چادر رکھے طالبان رہنما ہر کسی کے مرکزِ نگاہ تھے جبکہ وہاں موجود بین الاقوامی میڈیا کے نمائندگان کے لیے کسی بھی طالبان رہنما سے بات کرنا ہی بڑی خبر تھی ۔
اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر امن معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد مرکزی ہال سے باہر نکلے تو صحافی ان پر ایسے ٹوٹ پڑے کہ ملا بردار کے ساتھیوں کو دخل انداز ہونا پڑا ۔
ملا برادر جب صحافیوں کے گروہ میں پھنس گئے تو ہر جانب سے مختلف زبانوں میں سوالات کیے جا رہے تھے، کوئی انگریزی میں تو کوئی پشتو، دری اور فارسی میں سوال داغ رہا تھا۔ کم گو ملا برادر دھیمی آواز میں جواب دیتے بھی رہے مگر صحافیوں کے شور کے باعث ان کی آواز سننا مشکل تھا ۔
اس کے برعکس جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو مرکزی ہال سے باہر آئے تھے تو فوٹو گرافرز نے ان کی تصاویر ضرور لیں تھیں مگر رپورٹرز ان کی جانب ایسے نہیں لپکے تھے جیسے ملا برادر کی جانب ۔
معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ 19 برسوں میں بہت سارے امریکی فوجیوں، سکیورٹی اہلکاروں، افغان شہریوں اور بے گناہ لوگوں کا خون بہا ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات کا تذکرہ کیا کہ اب طالبان افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔
ملا عبدالغنی برادر اخوند نے پشتو زبان میں ٹھہر ٹھہر کر تقریر کی۔ انہوں نے افغانستان میں تمام متحارب گروہوں سے کہا ہے کہ اگر وہ سچے دل سے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو وہ آگے بڑھیں اور ملک کی بہتری کے لیے اقدام کریں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ اور افغانستان کی اسلامی امارت کے درمیان کامیاب مذاکرات اور معاہدہ افغانستان کی ’مجاہد عوام‘ اور خطے کے لئے مثبت اقدام ہے جس کے باعث عوام اب سکون کا سانس لے سکیں گے ۔
اس تقریب میں دو درجن سے زائد ممالک کے سفیر اور وزرائے خارجہ موجود تھے جبکہ بڑی تعداد میں عالمی مبصر اور اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ ملا برادر کی تقریر کے دوران اور اختتام پر وہاں موجود طالبان رہنماؤں نے زوردار آواز میں نعرہ تکبیر بلند کر کے تمام حاضرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ۔
حیران کُن بات یہ تھی کہ تقریب سے پہلے طالبان رہنما کسی سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھے اور اگر کوئی صحافی پھر بھی بلند آواز میں سوال کر لیتا تو یہی جواب ملتا کہ ’سب خیر ہو جائے گا‘ اور یہ کہ ’یہ ایک تاریخی اور یادگار دن ہے ۔‘
تاہم امن معاہدے پر دستخط ہونے کی تقریب کے بعد کچھ طالبان رہنماؤں نے صحافیوں سے بات چیت کی اور اپنا مؤقف سامنے رکھا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے ۔
اس معاہدے کے تحت دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی، افغانستان سے امریکی اور دیگر ممالک کے فوجیوں کا بتدریج انخلا، افغان میں مذاکرات کے عمل کا آغاز، اسلامی حکومت کے قیام اور سکیورٹی کے موضوعات پر بات چیت اور دیگر تمام مسائل کے حل کے لئے اقدامات بتائے گئے ہیں ۔
طالبان رہنماؤں سے جب پوچھا گیا کہ آخر اس 19 سالہ جنگ میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ تو صحافی کریں گے مگر ان (طالبان) کے خیال میں یہ طالبان کی فتح ہے کیونکہ طالبان تو مذاکرات کے لئے ہر وقت تیار تھے امریکہ مذاکرات نہیں چاہتا تھا اور اب اگر امریکہ نے مذاکرات کر کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں تو یہ طالبان اور افغان عوام کی فتح ہے ۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ وہ افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ طالبان تو ’لبریشن‘ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ حکومت کا حصول نہیں چاہتے، تو ایسے میں وہ اس دھڑے کی حکومت کو کیسے تسلیم کر لیں جو امریکہ کے بل بوتے پر اقتدار میں آیا ہے ۔
اس کے علاوہ مشہور کالم نگار حفیظ محمد عاصم نے دوحہ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ دوحہ کے مشہور ہوٹل شیراٹون کے ہال میں امریکہ کے سرنڈر معاہدے پر دستخط کرتے ہی اللہ اکبر کے نعرے گونج اٹھے۔ وہاں موجود درجنوں داڑھی پگڑی والے میڈیا کی چکاچوند سے دور رب کائنات کی بارگاہ میں سربسجود ہو گئے۔ امارات اسلامیہ کے جھنڈے لہراتے ہوئے مارچ کرنے لگے ۔ سامنے وہی دشمن تھے جو دو دہائیاں قبل پورے لاؤ لشکر سمیت آئے تھے۔ پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کا نعرہ لگایا تھا۔ اب بھی وہی سامنے تھے لیکن بے بس و مجبور۔ یہ کوئی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا محاذ نہیں تھا بلکہ قطر کا فائیو سٹار ہوٹل جہاں ایک سپر پاور کا غرور دفن ہو رہا تھا۔ کون جیتا کون ہارا۔ فیصلہ کرنا انتہائی آسان ہے۔ خود پتہ کر لیں کہ پہاڑوں کی غاروں میں محاذوں پر ڈٹے طالبان تک مذاکرات کا پیغام کس نے پہنچایا۔ کون ان کے ہوائی سفر اور دنیا بھر کے دوروں کا انتظام کرتا رہا۔ معاہدہ ہونے کے بعد خوشی اور جذبات سے نعرے کس نے لگائے۔ عالمی میڈیا کا مرکز کون تھے ؟ کوئی امریکی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سننے نہ گیا، البتہ ان درویشوں کے پیچھے پوری دنیا کا میڈیا تھا جو ان کا ایک ایک لفظ سننا چاہتا تھا۔ ہر کوئی ان سے بات کرناچاہتا تھا۔ ہر کیمرہ ان پر فوکس تھا اور انہیں ہی دیکھا رہا تھا ۔
جی یہ اس صدی کی سب سے بڑی خبر ہے کہ ایک سپر پاور جو اپنے پچاس سے زائد اتحادی ممالک کی افواج لیکر حملہ آور ہوا۔ اسے ان طالبان نے شکست دی جن کی مدد تو دور کی بات کوئی ان کے ساتھ تعلق کا بھی اعتراف نہیں کرتا۔ جنہیں امریکہ کے کہنے پر سب نے چھوڑ دیا بلکہ بعض تو امریکی حمایتی بن گئے لیکن وہ طالبان تنہا لڑے۔ رب کے آسرے پر لڑے۔ خاموشی سے امریکہ کو زخم لگاتے رہے ۔
انیس سال کا صبر۔ قربانیاں اور میدان جنگ کی سختیاں لیکن ان کے حوصلے نہ ٹوٹے اور وہ سپر پاور کے دعویدار کو روندتے رہے۔ امریکہ ہزاروں ارب ڈالر ڈبو کر بھی انہیں نہ جھکا سکا۔ حالت یہ ہو گئی کہ خود امریکی اپنی اشیائے خوردونوش پہنچانے کے لئے طالبان علاقوں سے گزرنے کا تاوان دیتے اور انہی ڈالرز سے اسلحہ و ساز وسامان خرید کر امریکہ پر حملے کئے جاتے ۔
طالبان نے امریکی سے اسلحہ ا ور ساز وسامان چھین کر امریکہ سے لڑائی کی اور امریکہ کو شکست فاش دی۔ امریکہ و اتحادی تو چند سال کے لئے آئے تھے کہ طالبان کو ماریں گے۔ نئی حکومت بنوائیں گے، کلچر معاشرے اور نظریات کو بدل دیں گے ایک مغرب زدہ اور ماڈرن افغانستان بنا کر واپس آ جائیں گے لیکن طالبان کی استقامت، عزم اور صبر و استقلال نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا، امریکہ رسوا ہو کے امن کی بھیک مانگتا رہا اور کئی سالوں کے اس مذاکراتی عمل کے بعد انخلاء کے معاہدے پر مجبور ہوا، خود کئی طالبان لیڈر رہا کرکے افغانستان پہنچائے، کئی ممالک سے رہائی دلوائی، آج جس ملا عبدالغنی برادر نے اس معاہدے پر دستخط کئے وہ بھی رہا کراکے وہاں پہنچائے گئے تھے، ان کے ساتھ بیٹھے ملا محمد فاضل اخوند، ملا خیر اللہ خیرخواہ سمیت رہنما گوانتاناموبے جیل سے لائے گئے، ہر ایک کی اپنی اپنی کہانی ہے، اس محفل میں طالبان فاتح کی طرح بیٹھے، تقریب سے پہلے کسی نے پوچھا معاہدے پر دستخط کون کرے گا تو جواب ملا ” امارات اسلامیہ ” ۔ یعنی یہ معاہدہ امریکہ اور انیس سال قبل کی طالبان حکومت کے درمیان ہوا ہے، اسی لئے تو انہوں نے پرجوش نعرے لگائے اور امارات اسلامیہ کے پرچم لہرا کر مارچ کیا، طالبان نے سب کا شکریہ ادا کیا، یہ لبرل و سیکولر نظریات کی بھی شکست ہے کہ جو امریکہ و مغرب کی ظاہری طاقت، اسلحہ اور شان و شوکت سے متاثر ہیں، ان کے لئے خبر ہے کہ افغانستان کے ان مجاہدین نے امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے جن کے پاوں میں اب بھی چپلیں ہیں اور دنیا میں کوئی انہیں اسلحہ نہیں دیتا، کوئی واضح حمایتی نہیں ہے، ٹیکنالوجی اور جدت کیساتھ ان کا دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، ان کی ایمانی طاقت اور صبر و ہمت و استقلال نے آج ایک نام نہاد سپر پاور کو شکست دی ہے ۔
یہ صرف امریکہ کی شکست نہیں بلکہ امریکہ کے تمام اتحادیوں اور نیٹو کی شکست ہے، جنہوں نے افغانستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے، اپنے حمایتی گروہ بنانے اور افغان کٹھ پتلی حکومتوں کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جو کہ یکدم زمین بوس ہو چکی ہے، خطے کی صورتحال یکدم بدل جائے گی، افغانستان میں طالبان کے اثر و رسوخ کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، انہوں نے سپر پاور کو ہرایا ہے تو ان کے اعتماد کا لیول کیا ہو گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے