تحریر: پروفیسر ذاکر جلالی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امارت اسلامیہ اور امریکہ کے مابین جارحیت کے خاتمے کا معاہدہ افغانستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی پیشرفت ہے جس میں تیس سے زائد ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس معاہدے پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی موجودگی میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اور افغان امن کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے ساتھ افغان تنازع کا ایک اہم مرحلہ جو اس مسئلے کا بیرونی پہلو تھا ، ختم ہوجاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان سے اپنی تمام فوج کا مکمل انخلا کرے گا اور اس کے بعد افغانوں پر بمباری نہیں کر سکے گا اور نہ ہی کسی افغانی کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی طرح معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد طالبان غیر ملکی افواج پر حملے بند کردیں گے۔ اس سے پہلے امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے جہادی کارروائیوں میں کم لا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک قیادت کے ماتحت منظم اور متحد ہیں اور ان کے احکامات کے پابند ہیں اور اسی طرح وہ دوحہ معاہدے کے لئے پرعزم ہیں۔ اسی دوران غیر ملکی افواج نے بھی معاہدے کی کوئی واضح خلاف ورزی نہیں کی ۔

ایک اعلی سطح کی تقریب :۔

 فروری 29 کو تاریخی معاہدے کی تقریب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک سمیت علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے تقریبا 30 ریاستوں کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں نے شرکت کی، جس سے معاہدے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، میزبان ملک نے ایک بہت ہی اعلی سطح کی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ یہ معاہدہ دوحہ کے مشہور شیراٹن میں ہوا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا جسے ہماری آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔

معاہدے پر دستخط کی اعلی سطح کی تقریب کے انعقاد سے یہ ظاہر ہوا کہ افغانستان کے امن و استحکام کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔ امریکہ سے متعدد اختلافات کے باوجود حریف ریاستوں کے نمائندوں نے اس تقریب میں حصہ لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ریاستوں کے بہت سے معاملات میں مفادات کا ٹکراو ہے لیکن افغانستان میں امن اور استحکام لانے میں ان کے مفادات مربوط اور مشترک ہیں۔ اس کے علاوہ تقریب کے اعلی پروفائل نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک طالبان اب دہشت گرد نہیں بلکہ افغان معاشرے اور سیاست کے اہم جز ہیں جس سے نہ صرف انکار کیا جاسکتا ہے بلکہ عالمی برادری بھی ان کو افغانستان کی عسکری اور سیاسی قوت تسلیم کرتی ہے ۔

نیا باب :۔

امریکہ اور طالبان کے مابین طویل مذاکرات اور دوحہ معاہدے پر دستخط کا ایک اور اہم پیغام یہ ہے کہ افغان سیاست میں ایک نیا باب کھولے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمنی کے شہر بون میں دسمبر 2001 میں طالبان کی غیر موجودگی میں جو باب کھل گیا تھا جس نے غیر ملکی افواج کی افغانستان آمد کو "قانونی حیثیت” دی ، وہ اب کارآمد نہیں رہا ۔

اگر ہم طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کے متن پر نظر ڈالیں اگرچہ امریکہ طالبان کو حکومت (اسلامی امارت افغانستان) کے طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے، لیکن یہ بھی واضح ہوا ہے کہ موجودہ کابل انتظامیہ "اسلامی جمہوریہ افغانستان” کو بھی منفی کر دیا ہے کیونکہ معاہدے کے متن میں "نئی افغان اسلامی حکومت” کی اصطلاح سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے تعلقات کو نئی شکل دی گئی ہے۔ جو باہمی احترام پر مبنی ہوں گے۔ امریکہ کو دوبارہ یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ افغانستان کی آئندہ حکومت کی قومی خودمختاری کے اصول سے انکار کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 18 سال کی جنگ کے بعد دونوں فریقین مستقبل میں مثبت تعلقات پر زور دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جنگ کا تسلسل اب ان کے مفاد میں نہیں ہے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا اور موجودہ حالات کے مطابق نئی پالیسی کو وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔

طالبان قیادت کا مثبت پیغام :۔

دوحہ میں معاہدے پر دستخط ہونے کے چند ہی لمحوں کے بعد امارت اسلامیہ کے زعیم شیخ ھبۃ اللہ اخندزادہ کا پیغام جاری ہوا۔ اس پیغام میں بہت ساری باتیں نئی تھیں اور پچھلے پیغامات کی نسبت یہ بہت مختلف اور نئے حالات کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ طالبان سربراہ نے معاہدے کو پوری افغان قوم کی "مشترکہ فتح” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کا انخلا اور مستقبل میں مداخلت نہ کرنا ایک بڑی کامیابی ہے” ۔

طالبان سربراہ کے پیغام میں بین الافغان مذاکرات کے لئے بھی عندیہ دیا گیا ہے، پیغام میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو "پیچیدہ” قرار دیا گیا ہے۔ پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی سے تمام افغانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ "ہم ایک قابل عمل اور منصفانہ حل کے لئے تیار ہیں”۔ شیخ ھبۃ اللہ اخوندزادہ نے کابل انتظامیہ کے اہل کاروں سے دستبرداری کی اپیل کی ہے ۔

ایک اور مثبت نکتہ ہے کہ امیرالمومنین نے اپنے پیغام میں مخالفین کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے، پیغام میں ان کے لئے "عام معافی دینے” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے زعیم نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاہدے کے بعد اپنے تمام مخالفین کو عام معافی کا اعلان کر دیا ۔

طالبان رہنماؤں کے مثبت خیالات :۔

اس معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل مولوی امیر خان متقی نے دوحہ میں درمیان ملا برادر اخوند کی موجودگی میں اپنے ارکان سے خطاب میں اس معاہدے کو "تمام افغانوں کی فتح” قرار دیا۔ متقی صاحب نے کہا کہ افغانستان تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے، متقی صاحب کے الفاظ سے اگلے بین الافغان مذاکرات کے لئے طالبان کی تیاریاں ظاہر ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ مستقبل میں کس طرح ایک مشترکہ نظام قائم کرنا ہے جس میں تمام افغان شامل ہو ۔

شیراٹن ہوٹل میں منعقدہ افتتاحی تقریب سے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی بردار نے مختصر مگر پرمغز خطاب کیا۔ ملا برادر اخوند نے معاہدے پر عمل درآمد کے سلسلے میں امریکہ سے وعدہ کیا کہ وہ معاہدے پر مکمل عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان کی فوجی اور سیاسی قوت کی حیثیت سے اپنے ہمسایہ ممالک ، خطے اور دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ ملا برادر اخوند نے اپنے خطاب میں غیر ملکی افواج کے انخلا پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ "تمام عوام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سکون سے زندگی گزاریں گے اور خوشحال زندگی کا آغاز کریں گے ۔”

ملا عبد الغنی برادر نے کہا کہ ہم بین الافغان مذاکرات کے لئے تیار ہیں، غیر ملکی افواج کے بعد ملک کی سلامتی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ہم مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گے، میں تمام افغانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ایک آزاد اور مضبوط اسلامی نظام کے لئے دیانتداری کے ساتھ مذاکرات شروع کریں اور سنجیدگی کے ساتھ ملک کے مسائل کے حل کے لئے مثبت کردار ادا کریں ۔

کابل انتظامیہ کی مخالفت :۔

ان تمام شرائط اور قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی اتفاق رائے کے بعد ابھی بھی جس چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے کابل انتظامیہ کا مؤقف۔ اشرف غنی اور ان کے سرکردہ افراد ابتداء سے خلیل زاد کی سربراہی میں امن مذاکرات کے مخالف تھے اور کبھی کبھار وہ اس کا اظہار بھی کرتے تھے، واشنگٹن میں گذشتہ سال قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کا بیان اس مخالفت کی ایک زندہ مثال ہے ۔

اشرف غنی نے کچھ عرصہ قبل طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کی تھی لیکن جب امن عمل دوحہ میں آگے بڑھا اور بات چیت میں عملی پیشرفت ہوئی ، اشرف غنی کا موقف تبدیل ہوا۔ متعدد مواقع پر کابل انتظامیہ کے سربراہ ریڈ لائن کا ذکر کیا لیکن جب امریکہ کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھا تو سب کچھ بدل گیا۔ انس حقانی کی عدم رہائی سے متعلق ان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے لیکن ان کی رہائی سے متعلق اشرف غنی کی دھمکی اور ریڈ لائن سب کچھ بدل گیا ۔

اب جب کہ طالبان اور امریکیوں نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ اشرف غنی دباؤ میں ہیں۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے ایک دن بعد انہوں نے نفرت آنگیز بیان دیا، انہوں نے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی لیکن مخالفت کے بعد انہیں صدر ٹرمپ نے فون کیا اور "اگلے اقدامات” کے بارے میں بتایا۔ اگرچہ غنی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے واضح طور پر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا ہے، تاہم دوحہ کے معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات سب قبل قیدیوں کی رہائی اعتماد سازی کے لئے ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اشرف غنی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کرتے رہیں گے؟ امریکی دباؤ کے سامنے وہ ٹہر سکیں گے؟ حسب روایت اس بار بھی ایسا لگتا ہے کہ امریکہ مداخلت کرسکتا ہے۔ زیرحراست افراد کی رہائی اس لئے اہم ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز جو 10 مارچ کو ہونا ہے ، اس اقدام پر منحصر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی حکام اشرف غنی کی مخالفت اور بین الافغان مذاکرات میں تاخیر کو برداشت نہیں کریں گے ۔

مستقبل :۔

ان تمام تر حالات اور پیشرفت کے باوجود جو بات ابھی تک مبہم ہے وہ بین الافغان ڈائیلاگ کا مرحلہ ہے۔ طالبان ، جنہوں نے امریکہ کے ساتھ گیارہ ادوار پر مشتمل مذاکرات اور حال ہی میں دوحہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں ، وہ بین الافغان بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الافغان مکالمے میں کون حصہ لے گا؟ کابل انتظامیہ کی جانب سے وفد کی تقرری پر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اشرف غنی اور عبداللہ کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے اور سیاستدانوں اور کابل انتظامیہ کے مابین فاصلہ بڑھتا جارہا ہے، یہ اختلافات اگرچہ باعث تشویش ہیں لیکن اتنے بڑے پیمانے پر شروع ہونے والا امن عمل کو متاثر نہیں کر سکتے ہیں ۔

کابل کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ امریکہ کی مداخلت کے بغیر کابل انتظامیہ اور سیاستدان ایک متفقہ مذاکراتی وفد کی تقرری پر متفق نہیں ہو سکیں گے جو مختصر مدت میں سب کے لئے قابل قبول ہو۔ اسی بنیاد پر اگلا مرحلہ ایک بار پھر امریکہ کے ارادوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر یہ مرحلہ مکمل طور پر کابل انتظامیہ نے اپنے کنٹرول میں لیا تو بین الافغان ڈائیلاگ کا عمل متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ اشرف غنی اور ان کے مخالف سیاستدانوں کے مابین ایک اور مقابلہ ہوگا۔ وہ ایک متفقہ وفد کی تعیناتی پر باہم دست و گریبان ہیں، اشرف غنی کی خواہش ہے کہ وہ چند محدود سرکاری افراد پر مشتمل مذاکراتی ٹیم تشکیل دیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں جبکہ ڈاکٹر عبداللہ اور دیگر سیاستدان مذاکراتی وفد میں صرف سرکاری عہدیداروں کو شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ تمام اہم جماعتوں پر مشتمل ایک جامع وفد کی تقرری ضروری ہے جس میں تمام جماعتوں اور سرکردہ شخصیات کی نمائندگی شامل ہو، اس صورتحال میں امریکہ غیر جانبدار نہیں رہ سکتا کیونکہ مذاکراتی عمل کی ناکامی کا الزام صرف کابل انتظامیہ اور سیاستدانوں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ ان سے بڑھ کر امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الافغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے لئے کابل انتظامیہ کو سہولت فراہم کرے گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے