تحریر: سیف العادل احرار
افغانستان میں دو سو سال بعد تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، دو سو سال قبل بھی بیک وقت دو حکمران گزرے تھے اور اب بھی نام نہاد الیکشن کے بعد اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ نے الگ الگ حلف اٹھایا، افغانستان کی موجودہ آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہے، جبکہ 95 لاکھ افراد کے نام ووٹر لسٹوں میں درج ہیں، چھ ماہ قبل الیکشن کمیشن نے ملک میں صدارتی الیکشن کا اعلان کیا، مجموعی طور پر 18 امیدواروں نے اس میں حصہ لیا لیکن بعد میں حنیف اتمر سمیت تین امیدواروں نے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دستبردار ہونے کا اعلان کیا، ویسے گل بدین حکمتیار نے بھی الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا اور متعدد بار اس بات کا اظہار کیا کہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہوں گے بلکہ کابل میں امریکی سفارت خانہ سے سب کچھ کنٹرول کیا جارہا ہے، جب ان سے سوال کیا گیا کہ جب انتخابات شفاف نہیں ہوں گے تو آپ اس میں حصہ کیوں لیتے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ عوام کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے انتخابی مہم چلا رہا ہوں، طالبان نے الیکشن سے بائیکاٹ کی جو اپیل کی ہے وہ درست ہے اور ان کا موقف بجا ہے، متعدد امیدواروں نے امارت اسلامیہ کا موقف تسلیم کیا ۔
نام نہاد الیکشن سے قبل امارت اسلامیہ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جعلی اور دھاندلی زدہ الیکشن سے بائیکاٹ کریں، ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں، جب ملک کی فضا اور سرزمین پر غیر ملکی افواج قابض ہوں، ان حالات میں ہرگز شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے ۔
ستمبر 2019،28، کو صدارتی انتخابات ہوئے لیکن ٹرن اوٹ اتنا کم تھا کہ انتخابات کا وقت شام کو پانچ بجے ختم ہو رہا تھا، الیکشن کمیشن نے رات آٹھ بجے تک الیکشن جاری رکھا، اس کے باوجود عوام نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، ملک کی مجموعی آبادی میں سے محض پندرہ لاکھ ملازمین اور افراد نے ووٹ کاسٹ کیا جن میں لاکھوں کی تعداد جعلی ووٹ کاسٹ ہوئے، صوبہ زابل کے دارالحکومت قلات سے ایک سماجی کارکن نے فیس بک پر لکھا تھا کہ پورے صوبے میں صرف دارالحکومت قلات کی تین پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹ کاسٹ ہوئے، اور وہ بھی جعلی ووٹ کاسٹ کئے گئے، تینوں اسٹیشنوں پر اشرف غنی کے لئے ٹھپے لگائے گئے، اس سے الیکشن کی شفافیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
الیکشن کے انعقاد کے پانچ ماہ بعد نتائج کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق 18 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، اشرف غنی نے نو لاکھ ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جو کہ پانچ فیصد بنتا ہے، جبکہ ڈاکٹر عبداللہ نے سات لاکھ سے زیادہ ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی، اس اعلان کے بعد ملک میں انارکی پھیل گئی، تمام امیدواروں اور اہم شخصیات نے الیکشن نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا، ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ 15 لاکھ بائیومیٹرک ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں جن کے مطابق وہ ملک کے منتخب صدر بن گئے ہیں جبکہ تین لاکھ غیر بائیو میٹرک ووٹ کو مسترد کر دیا جائے، حامد کرزئی سمیت دیگر سیاستدانوں نے بھی الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا ۔
ڈرامہ تب شروع ہوا جب اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ دونوں نے 27 فروری کو حلف اٹھانے کا اعلان کیا، اور مختلف رہنماوں کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی، جبکہ ڈاکٹر عبداللہ نے متعدد صوبوں کے لئے گورنر کو تعینات کرنے کے احکامات بھی جاری کئے لیکن چونکہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان جارحیت کے خاتمے کا اہم معاہدہ ہونا تھا اس لئے زلمی خلیل زاد کے کہنے پر دونوں فریقین نے تقریب حلف برداری کو 9 مارچ تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا ۔
مارچ9  سے قبل زلمی خلیل زاد نے اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان مصالحت کی بہت کوشش کی، 8 مارچ کو خلیل زاد نے چھ بار اشرف غنی اور عبداللہ سے ملاقات کی لیکن ان کی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئیں اور 9 مارچ کو کابل میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ نے حلف برداری کے الگ الگ پروگرام منعقد کئے، حلف برداری کی تقریب کا وقت صبح نو بجے رکھا کیا تھا تاہم ناگزیر وجوہات کی بناء پر سہ پہر کو یہ تقریبات منعقد کی گئیں، اشرف غنی نے ایوان صدر میں فارسی زبان میں جبکہ ڈاکٹر عبداللہ نے سپیدار میں پشتو زبان میں بیک وقت حلف اٹھایا، اشرف غنی نے حسب سابق امن سے متعلق اشتعال آنگیز باتیں کیں، انہوں نے کہا کہ گزشتہ کابل میں داعش نے دھماکہ کیا جس کے ذمہ دار طالبان ہیں، اگر ہم طالبان کے ساتھ معاہدہ کریں اور تب بھی دھماکے ہوتے رہیں گے تو اس پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ معاہدہ مفید ہے یا نہیں؟ انہوں نے چند دن پہلے قیدیوں کو رہا نہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم امریکی دباو کے بعد انہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنے کا اعلان کیا، دوسری جانب ڈاکٹر عبداللہ امن معاہدے کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں قیام امن کے لئے میں اقتدار سمیت ہر قسم قربانی دینے کے لئے تیار ہوں، ان کی تقریب حلف برداری میں لوگوں نے نعرہ تکبیر، امریکہ مردہ باد اور اسلام زندہ باد کے نعرے بھی لگائے ۔
حامد کرزئی، گل بدین حکمتیار، یونس قانونی سمیت اہم شخصیات نے کسی کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی، افغانستان جیسے تاریخی ملک میں بیک وقت دو افراد کی جانب سے تقریب حلف برداری کے انعقاد سے دنیا کو کیا میسج گیا، اس شرمناک اقدام سے ہر ایک کا سر شرم سے جھک گیا، افغانستان کی تاریخ میں دو سو سال قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا، اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ کا ڈرامہ شرمناک ، نفرت آنگیز اور افسوسناک ہے ۔
آج سے دو صدیاں قبل 1818 میں وزیر فتح خان کے قتل کے بعد محمد زئی اور سدوزئی کے شہزادوں کے مابین ایک تنازعہ پیدا ہوا تھا، محمد زئی کے بھائیوں نے سدوزئی کے حکمرانوں شاہ محمود اور کامران کو شکست دی اور کابل سمیت متعدد علاقوں پر اپنا کنٹرول حاص کیا، محمد زئی کے بھائیوں نے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی، ان میں سردار عظیم خان اور امیر دوست محمد خان شامل تھے۔ لیکن انہیں ایک اور قانونی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کے لوگ اصل حکمران احمد شاہ بابا کے پوتے (سدوزئی) سمجھتے تھے اور محمدزئی کو غاصب کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس لئے عظیم خان اور دوست محمد خان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے احمد شاہ بابا کے خاندان میں سے کسی کو ظاہری بادشاہ کی حیثیت سے برقرار رکھنے پر مجبور ہوئے ۔
اس منصوبے کے تحت عظیم خان نے تیمور شاہ کے بیٹے ایوب شاہ کو راضی کیا کہ وہ بادشاہ بنیں گے، جبکہ امیر دوست محمد خان نے شاہ زمان کے بیٹے سلطان شاہ کو منایا کہ انہیں بادشاہ مقرر کریں گے، دراصل عظیم خان اور دوست محمد خان اختایرات کا سرچشہ تھے جبکہ بظاہر ایوب شاہ اور سلطان شاہ حکمران بن گئے، ہر ایک نے اپنے آپ کو حکمران بنایا اور بادشاہ کے محل (بالا حصار) میں مسند اقتدار پر بیٹھ گئے، ایوب شاہ اور سلطان شاہ جو کزن اور بھتیجے تھے، بظاہر حکمران تھے لیکن عملی طور پر ان کا کوئی اختیار نہیں تھا ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں بادشاہ بالا حصار کے ایک محل میں رہتے تھے، اشرف غنی اور عبداللہ کی طرح دونوں نام نہاد بادشاہ تھے، ایوب شاہ اور سلطان شاہ خود کو خودمختار بادشاہ سمجھتے تھے اور آپس میں جھگڑا بھی کرتے تھے لیکن پس پردہ خودمختار بادشاہ عظیم خان اور دوست محمد خان تھے جو اپنی طاقت کو وسعت دینے کے لئے شاہی محل کے باہر لڑتے رہے۔ عظیم خان نے سازش کا منصوبہ بنایا اور اپنے ماتحت بادشاہ ایوب شاہ سے کہا کہ وہ سلطان شاہ کو قتل کریں جبکہ میں دوست محمد خان کو قتل کروں گا تاکہ مکمل بادشاہ بن جائیں ۔
اس سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایوب شاہ کے بیٹے اسماعیل خان نے چپکے سے سلطان شاہ کے کمرے میں گیا، وہ سو رہا تھا جس کو موقع پر مار دیا گیا، ایوب شاہ خوش ہوئے اور عظیم خان سے کہا کہ اب اپنے بھائی دوست محمد خان کو مار دینا چاہئے لیکن عظیم خان نے دوست محمد خان کو مارنے سے انکار کر دیا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آخر کار ایوب شاہ اور عظیم خان کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا، اور چند دن کے بعد عظیم خان نے ایوب شاہ کو شاہی محل سے نکال دیا، ان کی توہین کی گئی، ایوب شاہ بھی شاہ شجاع کی طرح ہندوستان فرار ہوگئے اور سیکھوں کے ماتحت پناہ حاصل کی ۔
اشرف غنی اور عبداللہ جنہوں نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کیا اور افغانستان کو قابض دشمن پر فروخت کیا، گزشتہ پانچ سال کے دوران جس شرمناک طریقے سے عوام پر مسلط رہے، ان کے دور میں افغانستان میں قابض دشمن کی جانب سے مظلوم عوام پر جتنے مظالم ڈھائے گئے، چھاپوں اور فضائی میں جو اضافہ ہوا ، وہ تاریخ یا سیاہ باب ہے، اب ایک بار پھر انہوں نے ایوب شاہ اور سلطان شاہ کی تاریخ کو زندہ کر دیا اور دونوں نے حلف اٹھا کر تاریخ کی صفحات پر سیاہ دھبہ لگا دیا ۔
آج کے ایوب شاہ اور سلطان شاہ خوش ہوں گے کہ وہ ملک کے حکمران بن گئے ہیں لیکن لوگ جانتے ہیں کہ اصل اختیار اس شخص کے پاس ہے جو سفارت خانے کی عمارت سے اس شرمناک شو کو کنٹرول کرتا ہے اور نام نہاد صدور کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے، ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو ایوب شاہ اور سلطان شاہ کا ہوا تھا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے