تحریر: سیف العادل احرار

امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اہم اور تاریخی معاہدہ ہوا معاہدے پر امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ محترم ملا عبدالغنی برادر اور امریکہ کی جانب سے وزارت خارجہ کے خصوصی نمائندے زلمی خلیل نے دستخط کر دیئے جو اللہ تعالی کی نصرت اور 19 برس کی عظیم قربانیوں کا ثمرہ ہے ۔

جہاد کے دو اہم مقاصد :۔

امارت اسلامیہ کے مجاہدین دو اہم مقاصد ” ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ” کے حصول کے لئے 19 برس سے جہاد کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے، امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کر کے بہت بڑی غلطی کی کیونکہ اس وقت امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے واضح طور پر امریکہ کو متنبہ کیا تھا کہ افغانستان پر حملہ کرنا امریکہ کی بہت بڑی غلطی ہوگی، امریکہ افغانستان پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن اس کا خمیازہ پھر اس کو بھگتنا پڑے گا، امریکہ دنیا کی فہرست میں پہلے نمبر سے آخری نمبر پر جائے گا، امریکہ کے ہتھیار ہلاکت خیز ضرور ہیں لیکن امریکی افواج کو موت سے نہیں بجا سکتے ہیں، روس نے بھی کہا تھا کہ افغانستان پر حملہ کرنا آسان ہے لیکن یہاں جنگ جیتنا اور جان چڑھانا مشکل کام ہے، امیرالمومنین رحمہ اللہ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد یہاں طویل جنگ لڑی جو امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے، امریکہ ایک ایسی جنگ کی دلدل میں پھنس گیا کہ جس سے جان چڑھانا اور باعزت واپسی کا راستہ اختیار کرنا امریکہ کے لئے درد سر بنا آخر کار امریکہ نے تسلیم کیا کہ ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے اور نہ ہی افغان تنازع کا فوجی حل ممکن ہے، لہذا طویل جنگ کے خاتمے کے لئے امریکہ نے سیاسی کوششوں کا آغآز کیا جس کے تحت امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان 16 مہینوں کے دوران مذاکرات کے دس ادوار مکمل ہوئے اور 29 فروری کو یہ تاریخی معاہدہ ہو گیا ۔

افغان عوام نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران دنیا کی دو اہم قوتوں سوویت یونین اور امریکہ کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور دونوں قوتوں کو سرزمین افغانستان پر شکست دیکر نئی تاریخ رقم کی، امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہے جس پر افغان عوام اور تمام مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں یہ اللہ تعالی کی مدد اور افغان عوام اور مجاہدین کی گرانقدر قربانیوں کا نتیجہ ہے جس کی بدولت امریکہ کو افغانستان سے فوجی انخلا پر مجبور کیا ۔

امارت اسلامیہ کی قیادت میں افغان عوام نے ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے عظیم قربانیاں دیں ایک مقصد ” ملک کی آزادی” حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دوسرے مقصد ” اسلامی نظام کا نفاذ” کے لئے بین الافغان ڈائیلاگ میں تمام افغانوں کے ساتھ مل کر وطن عزیز میں مستحکم اسلامی نظام نافذ کریں گے، یہ دو اہم نکات ہیں پہلے کا تعلق امریکہ کے ساتھ تھا اس لئے امارت اسلامیہ نے امریکہ کے ساتھ معاملات طے ہونے پر زور دیا جو دوسرے مرحلے میں جانے کے لئے پیش خیمہ ثابت ہو گا اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا ۔

کانفرنس سے قبل فاتحانہ مارچ :۔

29 فروری کو دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط سے قبل امارت اسلامیہ کے قائدین نے روانگی سے قبل منظم شکل میں مارچ کیا جن کے ہاتھوں میں کلمہ طیبہ سے مزین سفید پرچم کی بہار نے ایمان افروز منظر پیش کیا اور عجیب سماں باندھ دیا، اس موقع پر محترم شیر محمد عباس ستنازئی نے مختصر خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج کا تاریخی دن پوری افغان قوم کی فتح کا دن ہے، انگریز اور سوویت یونین کی شکست کا تسلسل ہے، میں پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس موقع پر محترم ملا امیر خان متقی نے مجاہدین اور اپنے حامیوں کو اہم ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر کسی کو طعنہ دینے سے گریز کریں، مخالفین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں اور اس عظیم کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کریں ۔

اس کے بعد ایک کاروان کی شکل میں امارت اسلامیہ کے قائدین ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے، پچاس رکنی وفد میں امارت اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے علاوہ مختلف کمیشنز کے سربراہان بھی شامل تھے، کانفرنس ہال میں درجنوں ممالک سے آئے ہوئے تین سو کے قریب مہمان شریک تھے جبکہ دنیا بھر سے ڈھائی سو صحافی بھی پہلے سے موجود تھے جس سے اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اسٹیج پر دو کرسیاں رکھی گئی تھیں جبکہ اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے

کانفرنس سے رہنماوں کا خطاب :۔

کانفرنس سے کا آغاز ہوا تو قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن نے افتتاحی تقریب سے خطاب کیا اور اس کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپیو نے خطاب کیا اور آخر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ محترم ملا برادر اخوند نے کانفرنس سے مختصر مگر پرمغز خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میں سب کو اس معاہدے کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، ہم اس معاہدے کی پاسداری کریں گے، افغان عوام چالیس برس سے مشکلات سے دوچار ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں امن آئے گا اور ایک مستحکم اسلامی نظام نافذ ہو جائے گا، ہم پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں ۔

تاریخی معاہدے پر دستخط :۔

اس موقع پر امارت اسلامیہ کی جانب سے محترم ملا برادر اخوند اور امریکہ کی جانب سے زلمی خلیل زاد نے جارحیت کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کر دیئے، اس وقت پرکیف ماحول بنا جب ہال نعرہ تکبیر کی نعروں سے گونج اٹھا، اس معاہدے کے حصے ہیں جن کے اہم نکات درج ذیل ہیں ۔

نمبر 1  ۔ تمام غیر ملکی افواج 14 مہینوں میں افغانستان سے نکل جائیں گی ۔

نمبر 2 ۔ 10 مارچ تک امارت اسلامیہ کے 5 ہزار اور کابل انتظامیہ کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا ۔

نمبر 3 ۔ 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع ہو جائیں گے ۔

نمبر 4 ۔ امریکہ 135 دنوں میں افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کر کے فوج کی تعداد 8600 تک کم کرے گا ۔

نمبر 5 ۔ بقیہ 9 مہینوں میں بتدریج تمام غیر ملکی فوجیوں کا انخلا مکمل کیا جائے گا ۔

نمبر 6 ۔ امریکہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ۔

نمبر 7 ۔ امریکہ امارت اسلامیہ کے قائدین کے نام 27 اگست تک مطلوب افراد کی فہرست سے نکالے گا ۔

نمبر 8 ۔ امریکہ 29 مئی تک اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے امارت اسلامیہ کے قائدین کے نام نکالنے کا اقدام اٹھائے گا ۔

نمبر 9 ۔ امارت اسلامیہ کے قائدین ضمانت دیں گے کہ افغان سرزمین امریکہ اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی ۔

نمبر 10 ۔ آئندہ اسلامی حکومت اور امریکہ کے درمیان تعلقات مثبت ہوں گے ۔

اس موقع پر امیر المومنین شیخ مولوی ھبۃ اللہ اخوندزادہ نے بھی ایک اہم پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے ملک کی ترقی کے لئے کردار ادا کرنے کے علاوہ تمام مخالف افراد کو عام معافی دینے کا اعلان کر دیا، جس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

جہاد کے ثمرات سامنے آرہے ہیں، وطن عزیز پر امریکہ کا قبضہ ختم ہونے کا معاہدہ ہو گیا جبکہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے لئے جلد بین الافغان مذاکرات میں پیشرفت ہونے کا امکان ہے، ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کا نفاذ افغان عوام کا دیرینہ خواب اور اولین ترجیح ہے جس کا پہلا مرحلہ شروع ہوا، لہذا پوری قوم اور امت مسلمہ کو اس تاریخی معاہدے اور عظیم فتح پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے