نیو یارک: (ویب ڈیسک) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیوں کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اپنے اعلیٰ کمانڈر کو فوج کو نکالنے کے احکامات دے دیئے ہیں۔

پینٹا گون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے طالبان سے کیے گئے وعدوں کے بعد ہم نے اپنے اعلیٰ کمانڈرز کو احکامات دے دیئے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کی تیاریاں شروع کی جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ انخلاء کی تیاری شروع ہوئی کہ نہیں لیکن ہمیں افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد دس روز کے اندر اندر اپنی فوج نکالنے کی تیاری شروع کرنا ہونگی۔

مارک ایسپر کا مزید کہنا تھا کہ کابل میں امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر کے پاس اختیار ہے کہ وہ موجودہ قریباً 13 ہزار امریکی فوجیوں سے تقریباً 8600 فوجیوں کا انخلاء کرے۔

امریکی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ہم نیک نیتی کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں اور اپنی فوج کو واپس بلانا شروع کر دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا توقع کرتا ہے کہ افغانستان میں تشدد کا خاتمہ ہو گا، جس کے نتیجے میں طالبان سمیت افغان گروپوں کے مابین 10 مارچ تک امن مذاکرات کا آغاز ہو گا۔

واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ اگر افغان طالبان امن و امان کی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے وعدے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ہم اس تاریخی معاہدے کو ختم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

کابل میں موجود مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتے تو وہ اپنے ہم وطن افغانوں کے ساتھ بیٹھنے اور اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع کھو دیں گے۔

اس سے قبل ایک انٹرویو کے دوران امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے کی عوامی دستاویز کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرنے والے دو عناصر بھی فراہم کیے جائیں گے جو کہ خفیہ ہیں۔ یہ فوجی نفاذ کے دستاویزات ہیں جو ہمارے فوجیوں، ملاحوں، ایئر مین اور میرینز کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ نہیں جانتا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان طالبان کی ملاقات کب کہاں ہونگی۔

سی بی ایس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کا راستہ کھٹن اور ناہموار ہو گا۔ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔

پروگرام فیس دی نیشن میں انٹرویو دیتے ہوئے پومپیو کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ایک تاریخی دن تھا۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں باضابطہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہوگا جوکہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

انھوں نے افغانستان میں جنگ بندی کے معاہدے اور امن کوششوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ راستہ کھٹن اور ناہموار ہو گا۔ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔ لیکن تقریبًا دو دہائیوں کے دوران پہلی بار یہ مذاکرات افغان عوام میں ہوں گے اور ان مذاکرات کے لیے یہ مناسب جگہ ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

امریکی وزیر خارجہ مایئک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے کی عوامی دستاویز کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرنے والے دو عناصر بھی فراہم کیے جائیں گے جو کہ خفیہ ہیں۔ یہ فوجی نفاذ کے دستاویزات ہیں جو ہمارے فوجیوں، ملاحوں، ایئر مین اور میرینز کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ امریکی کانگریس کا ہر رکن کو ان دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملے گا، یہ انتہائی خفیہ اور قومی اہمیت کے حامل ہیں۔ اوریہ کسی ذیلی معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔

انھوں نے اوباما انتظامیہ کے دور حکومت میں ایران ایٹمی معاہدے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مکمل شفاف معاہدہ ہیں، یہ ماضی کہ ان معاہدوں کی طرح نہیں جن میں امریکا کو کبھی ان کی دستاویزات دیکھنے کا موقع نہیں ملا جن پر میں شکایت کرتا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے افغانستان میں موجود تمام فریقوں چاہیے طالبان ہوں یا سکیورٹی فورسز سے کہا ہے کہ وہ پر تشدد واقعات میں کمی لائیں۔

پومپیو کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے امریکی خون اور پیسہ افغان جنگ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ہم نائن الیون کے بعد افغانستان گئے تھے۔ اس دن کی تکلیف مجھ سے زیادہ کوئی نہیں محسوس کرسکتا لیکن یہ وہ اور وقت تھا لیکن اب طالبان جانتے ہیں کہ فیصلہ کا وقت آگیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے دو برسوں میں ہمیں طالبان سے لڑائی لڑنے کی اجازت دی اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں (طالبان) نے پہلی بار اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے تاریخی حلیف القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے لیے تیار ہیں جس نے امریکا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف امریکا کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، دستاویز پڑھ سکتے ہیں کہ طالبان اپنے پرانے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات نہیں ہونے دیں گے۔ یہ اس لحاظ سے تاریخی ہے اور کسی کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کی صلاحیت پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ آپ انسداد دہشت گردی کے خلاف ہمارے کام کو دیکھ سکتے ہیں چاہے وہ البغدادی کی موت ہو یا جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا میں وقت لگ سکتا ہے اور یہ انخلا طالبان کی جانب سے چند شرائط پر عملدرآمد کرنے سے مشروط ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس بارے میں قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ یہ واقعتاً کیا ہوگا لیکن معاہدے میں طالبان کی جانب سے مفصل طور پر متعدد وعدے کیے گئے ہیں جو اس سے پیدا ہونے والے پرتشدد واقعات پر بات کرتا ہے اور اس پر غور کرتا ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہو گی۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے مستقل قریب میں طالبان سے ملاقات کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ کب اور کہاں ملاقات ہو گی لیکن میں بہت پر امید ہوں کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہر کوئی یہ سمجھے کہ امریکا ان مذاکرات کی عمل میں بہت سنجیدہ ہے۔ ہم بہت طویل عرصے سے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اچھے مستقبل کی امید ہے اور ہم نے اس کے لیے جو کام کیا ہے طالبان اسے جانتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس عمل جس کا پہلا قدم گذشتہ روز دوحا میں اٹھایا گیا ہے کو درست سمت میں لے جانےکے لیے متحرک طور پر ہماری مدد کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی کاغذ پر الفاظ نہیں لینے جا رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہنے کو تیار ہیں یا نہیں۔ بش انتظامیہ اور اوبامہ انتظامیہ دونوں نے ماضی میں ایسے لفظی معاہدے کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو صرف کاغذات پر تھے اور جن پر وہ یہ کہتے تھے کہ طالبان القائدہ سے علیحدگی اختیار کرلیں گے۔ لیکن آج ہم نے یہ معاہدہ کر لیا ہے اور اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا طالبان ہماری توقعات کے مطابق اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے