تحریر: عبدالرحیم ثاقب سیاسی اور جہادی امور کے تجزیہ کار

طالبان اور دیگر مصنفین نے افغانستان میں ملا محمد عمر (مجاہد) کی کوششوں سے اسلامی تحریک کے قیام کے بارے میں بہت ساری تحریریں اور کتابیں لکھی ہیں لیکن ایک سوال کے بارے میں کسی نے نہیں لکھا ہے کہ طالبان کی اسلامی تحریک کو امارت اسلامیہ میں کیوں تبدیل کیا گیا، پہلے اس تحریک کا نام تحریک اسلامی طالبان تھا پھر اس کا نام تبدیل کر کے امارت اسلامیہ افغانستان رکھ دیا ۔

قندہار میں علماء کرام کا ایک بہت بڑا اجلاس ہوا جس میں 1500 سے زائد علماء کرام نے شرکت کی، ملا محمد عمر (مجاہد) نے ان کی مشاورت کے بعد تحریک کا نام تبدیل کر کے امارت رکھ دیا، اس کے متعدد عوامل تھے جو ملا محمد عمر (مجاہد) کی جانب سے تحریک اسلامی کو امارت اسلامیہ میں تبدیل کرنے کا باعث بنے، وہ وجوہات درج ذیل ہیں ۔

اسلامی تحریک طالبان کے قیام کے دوران افغانستان خانہ جنگی کی آگ کے شعلوں میں جل رہا تھا ، وہ آگ جس نے جہاد کے تمام مقاصد اور امیدوں کو جلا دیا، طالبان کی اسلامی تحریک کی بنیاد تنظیمی اختلافات اور جنگوں کے خاتمے کے لئے رکھ دی گئی اور اس کی تشکیل سیاسی اور عسکری طور پر کسی تنظیم کی طرح کی گئی ۔

ملا محمد عمر (مجاہد) نے طالبان کے تنظیمی ڈھانچے کو ایک جامع اور وسیع امارت اسلامیہ میں تبدیل کردیا تاکہ افغانستان کے تمام مجاہدین جو سوویت یونین کی جارحیت اور قبضے کے دوران مختلف تنظیموں میں سرگرم عمل تھے، ان سب کو امارت اسلامیہ کے پرچم تلے جمع کر کے جہاد کے ادھورے مقاصد اور نامکمل امیدوں کو پورا کرنے کے لئے سب مل کر جدوجہد کریں ۔

چونکہ جہاد کا بنیادی مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ہے اور شرعی احکام کو نافذ کرنا ہے، فقہ میں بہت سارے اصول موجود ہیں جن کے نفاذ کے لئے امیر اور امارت کی موجودگی ضروری ہے، ملا محمد عمر (مجاہد) ) نے اسی مقصد کے لئے امارت اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا تاکہ ان کی حکمرانی میں اسلامی شریعت کے ان قوانین کو نافذ کیا جا سکے جو اس معاشرے کی سلامتی اور امن کے لئے ضروری ہیں، مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنا، ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے پر قاتل کو قصاص کی سزا دینا وغیرہ قابل ذکر ہے ۔

اسلامی تحریک کے قیام کے وقت عوام کو امن کی سب سے بنیادی ضرورت تھی اور امن کو قائم کرنے کے لئے بنیادی طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت تھی جو فطری طور پر لوگوں کو امن و سکون کا احساس دلائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیام امن امارت اسلامیہ کی بنیادی خصوصیت تھی جس کا دوست اور دشمن دونوں اعتراف کرتے ہیں، اور اس وقت چند محدود افراد پر ان شرعی قوانین کو لاگو کرنا پورے ملک میں میں قیام امن اور عوام کی خوشحالی اور سکون کا باعث بنا، یہ اللہ تعالٰی کے اس قول کا مقصداق ہے ۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )۱۷۹)

3 ۔ افغانستان میں سوویت حملہ آوروں کے خلاف افغان قوم کا جہاد اس لئے تھا کہ افغانستان پر سوویت قبضہ اور کمیونسٹ نظام کے خاتمے کے بعد یہاں ایک اسلامی نظام کی حکمرانی ہوگی اور اس ملک کے تمام امور شرعی نظام اور اسلامی قوانین کی روشنی میں انجام پائیں گے ۔

اس نظام کے لئے ایک باقاعدہ فریم ورک تشکیل دینا ناممکن تھا لہذا ملا محمد عمر (مجاہد) نے اسلامی تحریک طالبان کو امارت اسلامیہ میں تبدیل کیا تاکہ پورے ملک میں ایک جامع اسلامی نظام قائم کیا جاسکے اور اس کو تمام تنظیمی اور سیاسی اختلافات سے دور رکھا جائے ۔

اس اقدام کی وجہ سے جہادی تنظیموں کے بیشتر مخلص مجاہدین بغیر کسی عہدے اور سیاسی مراعات کے حصول کے سب امارت اسلامیہ میں شامل ہوگئے اور جہاد کے ادھورے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اس نظام کے تحت دوبارہ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ۔

مثال کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مشہور جہادی شخصیت مولوی جلال الدین (حقانی) ، سوویت قبضے کے دوران جہادی تنظیم کے اہم رہنما مولوی محمد یونس خالص، نیز جہادی رہنماؤں میں مشہور شخصیت الحاج مولوی محمد نبی (محمدی)، مشہور جہادی شخصیت شہید مولوی نصراللہ منصور کا  تمام اہل خانہ ، مشہور جہادی شخصیت الحاج ملا محمد ربانی ، مشہور جہادی اور علمی شخصیت مولوی جلیل اللہ مولوی زادہ ، صوبہ زابل کے مشہور جہادی کمانڈر شہید ملا مدد کا پورا خاندان ، اسلامی انقلاب کابل کے مشہور جہادی کمانڈر شہید مولوی شفیع اللہ کے بھائی مولوی صدیق اللہ صاحب ، زابل کے مشہور جہادی کمانڈر ملا عبد السلام راکٹی ، جنوبی زون کے مقبول جہادی کمانڈر مولوی ارسلا رحمانی ، شمالی زون میں حرکت انقلاب اسلامی تنظیم کے کوآرڈینیٹر مولوی عبد الجبار اور دیگر جہادی شخصیات ہیں جنہوں نے امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد سب نے ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کی ۔

اگرچہ مذکورہ بالا جہادی رہنماوں میں سے ہر ایک اپنے علاقے میں ملا محمد عمر مجاہد سے مشہور اور صاحب حیثیت تھا اور ان کا فوجی ، سیاسی اور معاشرتی اثر و رسوخ زیادہ تھا تاہم انہوں نے جہاد کے ادھورے مقاصد کو پورا کرنے کی صلاحیت امیر المومنین ملا محمد عمر (مجاہد) میں دیکھ کر ان کی قیادت تسلیم کی اور اپنے تمام سیاسی ، فوجی اور معاشرتی اثر و رسوخ سے گزر گئے اور اس عظیم خواہش کی تکمیل کے لئے ملا محمد عمر (مجاہد) کو شرعی امیر منتخب کیا گیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے