کابل: (ویب ڈیسک) قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ہیں، طالبان نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ جب تک قیدی رہا نہیں ہونگے تب تک انٹرا افغان مذاکرات نہیں ہونگے۔

 طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ قطر میں ہونے والے معاہدے کی ایک شق میں لکھا ہوا ہے کہ انٹرا افغان کے مذاکرات سے پہلے 5ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جس کے بعد ہم ایک ہزار کے قریب سرکاری لوگوں کو رہا کریں گے۔

 ان کا کہنا تھا کہ اگرمذاکرات کامیاب کرنے ہیں توقیدیوں کورہا کرنا ہوگا۔ 5000 قیدیوں کی رہائی کا انتظار کررہے ہیں۔ قیدی نہ چھوڑے گئے تو بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے، جب تک پانچ ہزارقیدی نہیں چھوڑے جاتےافغان مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ قیدی رہا کرنے سے متعلق معاہدے میں لکھا ہوا ہے، یہ امریکا پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قیدی رہا کروائیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم نے بھی سنا اور پڑھا ہے کہ ٹرمپ افغان طالبان سے ملنا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک امریکی انتظامیہ کا ہمارے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے، اگر مستقبل کے دنوں میں یہ رابطہ ہو جائے تو یہ ملاقات ممکن ہے۔

پروگرام کے دوران افغان طالبان کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ انٹرا افغان مذاکرات ناروے میں ہونگے کہ سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے ابھی تک کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ بہت سارے ممالک نے پیشکش کی ہے۔ اس کا فیصلہ آئندہ دو سے تین روز میں ہو جائے گا۔

افغان اپوزیشن کے ساتھ رابطے سے متعلق سوال کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات افغانستان میں اپوزیشن کے رہنماؤں اور بہت سارے افراد کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں تاکہ ہماری افغانستان میں لوگوں کے ساتھ بات چیت ہو۔ پچھلے کچھ مہینوں کے ساتھ بہت سارے لوگوں سے رابطے میں ہیں۔

اس سے قبل ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ جب تک معاہدے کے مطابق 5 ہزار قیدی رہا نہیں کئے جائیں گے تب تک افغانیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔

واضح رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ میری حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ نہیں کیا، دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کہا گیا ہے۔

قطر میں ہونے والے تاریخی امن معاہدے کے مطابق 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان کے زیر حراست ایک ہزار قیدیوں کو 10 مارچ تک رہا کیا جائے گا۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی یہ رہائی ’بات چیت کی شرط نہیں ہو سکتی‘ لیکن مذاکرات کا حصہ ضرور ہو سکتی ہے۔

رائٹرز کو ٹیلیفونک انٹرویو دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہم ایک مرتبہ پھر واضح انداز میں بتا رہے ہیں کہ انٹرا ڈائیلاگ سے قبل ہمارے قیدی رہا نہیں کیے جاتے تو ہم کسی صورت مذاکرات نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے پانچ ہزار افغان طالبان کی رہائی کے بدلے میں افغان طالبان نے بھی ایک ہزار سے زائد حکومتی نمائندوں کو چھوڑنے کی حامی بھری تھی۔

دوسری جانب طالبان کے مذاکراتی ٹیم میں شامل اہم رہنما محمد عباس استنکزئی نے امن معاہدے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکا نے اُنہیں پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد دس مارچ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گا، اگر قیدی رہا نہ کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات بھی تاخیر کا شکار ہوں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان طالبان نے افغان فورسز پر حملے شروع کرنے کا اعلان کر دیا، اعلان کے بعد افغانستان میں بم دھماکا ہوا۔

اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں فٹبال میچ کے دوران بم دھماکا ہوا، دھماکے سے تین افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ گیارہ زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق بارود سے لدی موٹر سائیکل میں نصب بم فٹبال سٹیڈیم کے قریب پھٹ گیا، واقعہ کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔

افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو انٹرا افغان مذاکراتی ٹیم کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہو گئے، صدر اشرف غنی نے حکومتی ٹیم آٹھ ممبران تک محدود رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے مذاکراتی ٹیم میں اختلافات پر صدارتی محل پر اجارہ داری کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاست دانوں نے ہفتے کے روز ہونے والی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق یکم مارچ کو ہونے والے امریکا اور افغان طالبان کے مابین تاریخی معاہدے کے تحت انٹرا افغان ڈائیلاگ 10مارچ تک شروع کرنا لازم ہیں۔

ان مذاکرات میں آئندہ افغان حکومت کی تشکیل سمیت دیگر داخلی معاملات پر بات چیت ہو گی جس میں مختلف افغان دھڑوں کی شرکت متوقع ہے، ان مذاکرات کا مقصد باہمی اختلافات جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے۔

دریں اثناء امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کا راستہ کھٹن اور ناہموار ہو گا۔ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔

پروگرام فیس دی نیشن میں انٹرویو دیتے ہوئے پومپیو کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ ایک تاریخی دن تھا۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں باضابطہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز بھی ہوگا جوکہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

انھوں نے افغانستان میں جنگ بندی کے معاہدے اور امن کوششوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ راستہ کھٹن اور ناہموار ہو گا۔ کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ یہ مذاکرات مشکل نہیں ہوں گے۔ لیکن تقریبًا دو دہائیوں کے دوران پہلی بار یہ مذاکرات افغان عوام میں ہوں گے اور ان مذاکرات کے لیے یہ مناسب جگہ ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

امریکی وزیر خارجہ مایئک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے کی عوامی دستاویز کے ساتھ ساتھ عملدرآمد کرنے والے دو عناصر بھی فراہم کیے جائیں گے جو کہ خفیہ ہیں۔ یہ فوجی نفاذ کے دستاویزات ہیں جو ہمارے فوجیوں، ملاحوں، ایئر مین اور میرینز کی حفاظت کے لیے اہم ہیں۔ امریکی کانگریس کا ہر رکن کو ان دستاویزات کو دیکھنے کا موقع ملے گا، یہ انتہائی خفیہ اور قومی اہمیت کے حامل ہیں۔ اوریہ کسی ذیلی معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔

انھوں نے اوباما انتظامیہ کے دور حکومت میں ایران ایٹمی معاہدے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مکمل شفاف معاہدہ ہیں، یہ ماضی کہ ان معاہدوں کی طرح نہیں جن میں امریکا کو کبھی ان کی دستاویزات دیکھنے کا موقع نہیں ملا جن پر میں شکایت کرتا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکا کو ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے افغانستان میں موجود تمام فریقوں چاہیے طالبان ہوں یا سکیورٹی فورسز سے کہا ہے کہ وہ پر تشدد واقعات میں کمی لائیں۔

پومپیو کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے امریکی خون اور پیسہ افغان جنگ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ہم نائن الیون کے بعد افغانستان گئے تھے۔ اس دن کی تکلیف مجھ سے زیادہ کوئی نہیں محسوس کرسکتا لیکن یہ وہ اور وقت تھا لیکن اب طالبان جانتے ہیں کہ فیصلہ کا وقت آگیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے دو برسوں میں ہمیں طالبان سے لڑائی لڑنے کی اجازت دی اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں (طالبان) نے پہلی بار اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے تاریخی حلیف القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے لیے تیار ہیں جس نے امریکا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف امریکا کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، دستاویز پڑھ سکتے ہیں کہ طالبان اپنے پرانے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے واقعات نہیں ہونے دیں گے۔ یہ اس لحاظ سے تاریخی ہے اور کسی کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کی صلاحیت پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ آپ انسداد دہشت گردی کے خلاف ہمارے کام کو دیکھ سکتے ہیں چاہے وہ البغدادی کی موت ہو یا جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا میں وقت لگ سکتا ہے اور یہ انخلا طالبان کی جانب سے چند شرائط پر عملدرآمد کرنے سے مشروط ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس بارے میں قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ یہ واقعتاً کیا ہوگا لیکن معاہدے میں طالبان کی جانب سے مفصل طور پر متعدد وعدے کیے گئے ہیں جو اس سے پیدا ہونے والے پرتشدد واقعات پر بات کرتا ہے اور اس پر غور کرتا ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہو گی۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے مستقل قریب میں طالبان سے ملاقات کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ کب اور کہاں ملاقات ہو گی لیکن میں بہت پر امید ہوں کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہر کوئی یہ سمجھے کہ امریکا ان مذاکرات کی عمل میں بہت سنجیدہ ہے۔ ہم بہت طویل عرصے سے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اچھے مستقبل کی امید ہے اور ہم نے اس کے لیے جو کام کیا ہے طالبان اسے جانتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس عمل جس کا پہلا قدم گذشتہ روز دوحا میں اٹھایا گیا ہے کو درست سمت میں لے جانےکے لیے متحرک طور پر ہماری مدد کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی کاغذ پر الفاظ نہیں لینے جا رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہنے کو تیار ہیں یا نہیں۔ بش انتظامیہ اور اوبامہ انتظامیہ دونوں نے ماضی میں ایسے لفظی معاہدے کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو صرف کاغذات پر تھے اور جن پر وہ یہ کہتے تھے کہ طالبان القائدہ سے علیحدگی اختیار کرلیں گے۔ لیکن آج ہم نے یہ معاہدہ کر لیا ہے اور اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا طالبان ہماری توقعات کے مطابق اپنے وعدے پورے کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے