ترتیب : اکرم تاشفین

امارت اسلامیہ اور امریکا کے مذاکرات کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکی نمائندہ زلمی خلیل زادناروے کے شہر بروکسل میں ناٹو اورامریکی حکام کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد پاکستان گئے اور وہاں سے افغانستان آچکے  ہیں۔ کابل انتظامیہ کے صدراشرف غنی اور دیگر افغان رہنماوں سے الگ الگ ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ معاہدے کے بارے میں نئی پیش رفت یاعدم پیش رفت کے حوالے سے انہیں آگاہ کرچکے ہیں۔ اس دوران میڈیا پر ان کا یہ بیان آیا ہے کہ مذاکرات پر کوئی تازہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

قارئین  کرام !میڈیا پر جاری بیانات اور صورتحال سے یوں  معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات اس وقت امریکا کی جانب سے اس شرط آکر اٹک گئے ہیں کہ وہ معاہدے سے پہلے جنگ بندی کا اعلان چاہتے ہیں۔ اس کے لیے پہلے دائمی جنگ بندی ، پھر کچھ مہینوں اور بعدازاں دس دن کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ امارت اسلامیہ کو یہ سب منظور نہیں تھا۔ بعدازاں امریکا نے امارت اسلامیہ کی جانب سے جنگ بندی کی بجائے کشیدگی میں کمی کرنے کے اتفاق رائے کو تسلیم کرلیا۔ امارت اسلامیہ نے امن معاہدے کی جانب قدم بڑھانے اورمعاہدے کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ مگر "تشدد اور کشیدگی میں کمی” کی تعریف پر آکرامریکا نے پھر سے روڑے اٹھکانے شروع کردیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ اور خود بعض امریکی حکام امن معاہدہ نہیں چاہتے۔ باربارطے شدہ معاملات پر پھر سے شرائط رکھی جاتی ہیں۔ جنگ بندی کےموضوع کولے کر ایک بارپھر یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ طالبان امن معاہدے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مگر دوسری جانب زلمے خلیل زاد نے افغان رہنماوں کو بین الافغانی مذاکرات کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ افغان سیاسی رہنماوں نے کہا ہے کہ اشرف غنی طالبان سے مذاکرات کے لیے دائمی جنگ بندی کی شرط ڈال کر بین الافغانی مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان سے غیر مشروط مذاکرات ہونے چاہییں۔حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ دونوں کا یہی موقف ہے۔ بین الافغانی مذاکرات کی تیاری سے معلوم ہوتا ہے معاہدے کا وقت قریب ہے۔ کیوں کہ یہ مذاکرات امن معاہدے کے بعد ہی ہوں گے۔

یہ معاہدہ کب طے پاتا ہے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا مگر اب بہت سی رکاوٹوں پر قابو پایا جاچکا ہے۔ محترم سہیل شاہین صاحب نے گذشتہ ماہ جنوری میں بھی کہا تھا کہ معاہدہ اس ماہ ہی ہوجانے کے امکانات ہیں۔ مگر ناٹو اور امریکی حکام کی طویل مشاورتیں تکمیل کو تاحال نہ پہنچ سکیں۔

قارئین !7 اکتوبر 2001 کی وہ رات تو سب کو یاد ہوگی جب امریکا بدمست ہوکر چڑھ دوڑا تھاافغانستان کے کوہساروں پر۔ بارود اور آتش کی برسات نے سرما کی وہ سردیاں دوعشروں کے جنگ زدہ افغان عوام پر دہکتا الاو بنادی تھیں۔امریکا نے اس وقت تو بہت کچھ سوچ رکھا تھاخداکی شان مگر بڑی بے نیاز ہے۔

امارت اسلامیہ کی عقب نشینی کے بعد امریکا نے امارت اسلامیہ اور القاعدہ کے تمام رہنماوں کو بلا امتیاز بلیک لسٹ میں ڈالر کر پوری دنیا میں ان کے سفر پر پابندی عائد کردی تھی۔ دس سال تک امریکا افغانستان کے کوہساروں سے سر ٹھکراتا رہا۔ ٹیکنالوجی، منصوبہ بندی، میزائل، طیارے، جاسوسی نیٹ ورک ، کیا کیا دعوے دنیا نے سنے اور دیکھے۔ بستیاں تباہ کردیں، گاوں مٹادیے  اور افغانستان کے بے بس غریب عوام کی زندگیوں سے خوب کھیلا۔دس سال تک خود بھی بے رحم پہاڑوں سے لہولہان ہونے کے بعد 2011  میں پہلی بار امریکا کو خیال آیا کہ جنگ نہیں اب مذاکرات سے مسئلے کا حل ہونا چاہیے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے افغانستان سے متعلق امریکا کی پالیسی کا از سرنو جائزہ لیااور یہ طے کیا کہ طالبان اور القاعدہ کی فکری اور انتظامی علیحدگی  کو تسلیم کیا جائے اور اسی طرح سے انہیں ڈیل کیا جائے۔امریکا کی پالیسی میں اس تبدیلی کا محرک بھی اس وقت کے امریکی نمائندہ برائے افغانستان وپاکستان رچرڈ ہالبروک کو قرار دیا جاتا ہے ۔ جن کا 14 دسمبر 2010 کو انتقال ہوگیا۔

ایک بات مگر واضح ہونی چاہیے کہ  مذاکرات سے2011میں بھی امریکا کا مقصد صلح یا امن کی جانب کوئی قدم اٹھانا نہیں تھا۔ بلکہ مذاکرات کی دعوت دے کر   وہ امارت اسلامیہ کے درمیان اختلاف کی دراڑ ڈالنا چاہتا تھا۔ امریکا کا خیال تھا کہ اس طرح جنگ سے بے زار ساری امارت اسلامیہ یا اس کے کچھ رہنما الگ ہوجائیں گے اور کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے زیر سایہ آکر سیاست میں حصہ لینے لگ جائیں گے۔  یعنی پہلے ٹیڑھی انگلی کا استعمال کیا ، اب سیدھی انگلی سے گھی نکالا جائے گا۔امارت اسلامیہ  کے سابق رہنماوں کے ذریعے بھی  امارت سے رابطہ کی کوشش کی گئی۔ اس وقت  کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بارہا کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ  طالبان ہتھیار ڈال کر مذاکرات کریں اور سیاسی عمل میں شریک ہوں۔

افغانستان کے مسئلے پر امریکا کی جانب سے نظر ثانی اور اس کے پرامن حل کافیصلہ کرنے کے بعد اس نے کابل انتظامیہ کو اس کے لیے متحرک کردیا ۔ اس وقت کی انتظامیہ کے صدر حامد کرزئی نے اس کے لیے کچھ اقدامات کیے جو کامیاب نہ ہوسکے۔پہلے انہوں نے صبغت اللہ مجددی صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ امارت اسلامیہ کومذاکرات کی دعوت دیں اور پرامن حل کے لیے قائل کریں۔ انہوں نےآتے ہی اعلان کرڈالا کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں اور نئے آئین کو تسلیم کرلیں۔ ظاہر ہے مذاکرات سے قبل اس طرح کی شرائط اور یہ لہجہ کسی طورمذاکرات کے لیے راہ ہموار نہیں کرتا۔ دوسری کوشش سعودی عرب کے ذریعے کی گئی ۔ سعودی حکومت نے طالبان نمائندوں سےملاقات کرکے انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر سعودی عرب نے بھی دیگر شرائط کے ساتھ طالبان کے سامنے جنگ بندی اور نئے آئین کو تسلیم کرنے کی شرط رکھی۔ اس کا بھی انجام وہی ہوا جو پہلی کوشش کا ہوا تھا۔ اگلے قدم میں حامد کرزئی افغان ہائی پیس کونسل کے نام سے ایک کمیٹی قائم کی۔اس کا سربراہ برہان الدین ربانی کو بنایا گیا۔  کمیٹی کی ذمہ داری بھی یہی تھی کہ وہ طالبان سے رابطہ کریں اور انہیں ہتھیار ڈال کر آئین کو تسلیم کرنے اور سیاسی عمل کا حصہ بننے پر راضی کریں۔اس کے بعد اگلے مرحلے میں حامد کرزئی نے پاکستان حکومت سے رابطہ کرنے شروع کردیے۔خود حامد کرزئی کا کہنا ہے افغانستان کی پوری تاریخ میں میں وہ واحد حکمران ہوں جس نے سب سے بڑھ کر پاکستان سے بہتر تعلقات رکھےاور پاکستان کے 19 دورے کیے۔ حامد کرزئی کا خیال تھا جیسا کہ کابل انتظامیہ کاروز اول سے پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان طالبان پراثر انداز ہوسکتا ہے۔ مگر ان کی یہ آروزوئیں بھی خیال خام ثابت ہوئیں۔ اگلے قدم میں حامد کرزئی نے خودبڑھ کر بڑے بڑے اجتماعات اور جرگوں میں طالبان کو دعوت دی کہ وہ آکر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں۔ انہوں نے  پہلی بار تسلیم کیا کہ یہ اپنے وطن کے بیٹے ہیں اس لیے اپنے وطن کی خدمت کے لیے آگے آئیں اور سیاست کا حصہ بن جائیں۔

تمام تر کوششوں میں مایوسی کے بعد امریکا نے خود بڑھ کر طالبان کو سیاست کی جانب دعوت دینے کا فیصلہ کیااس کے لیے 18جون 2011 کو امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ قرار داد پاس کروایا کہ القاعدہ اور طالبان کو دو الگ الگ فہرستوں میں ڈالا جائےگا۔ یہ دونوں تنظیمیں فکری اور انتظامیہ لحاظ سے الگ الگ ہیں اس لیے انہیں ایک سمجھنا اور ایک سا سلوک کرنا غلط ہے۔ یہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق ختم کرکے افغانستان کے سیاسی عمل میں شریک ہوناچاہیں توان کو عام معافی دی جاسکتی ہے۔ امارت اسلامیہ کے لیےمگر یہ ساری چیزیں مضحکہ خیز تھیں۔ امارت اسلامیہ کے عظیم مقصد اور مشن اور مجاہدین کی عظیم قربانیوں کو سیاست کی کرسیوں میں تولنے والوں پر ہنسنا ہی بنتا تھا۔ اس سے زیادہ اس کا جواب کیا دیا جاسکتا تھا۔ خود امریکی ماہرین اور میڈیا کا بھی خیال تھا کہ اوباما انتظامیہ کا مقصد ان کوششوں سے ہر گز یہ نہیں کہ وہ طالبان کو سیاست میں لانا چاہتے ہیں بلکہ دراصل یہ طالبان کوجانچنے اور پرکھنے کا عمل ہے۔ امریکا سمجھنا چاہتا کہ طالبان کے شرائط کیا ہیں ، ان میں سے کون کون اور کس حد تک مذاکرات پر رضامندی دکھا سکتا ہے۔ امارت اسلامیہ نے ا ن کی ہر پیشکش کا انتہائی سنجیدگی سے ایک جواب دیاکہ ہم بھی افغانستان کے قضیے کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ افغان عوام پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ کا خاتمہ سب سے زیادہ ہماری خواہش ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ افغان عوام اور ان کی نمائندہ قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے وطن کے مسائل کا حل ڈھونڈیں اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کریں مگر یہ سب اس وقت ممکن ہے جب امریکایہاں نہیں ہوگا۔ امریکا کی موجودگی اور اس کے تسلط میں افغان عوام کبھی آزادانہ فیصلے نہیں کرپائیں گے۔ ہم افغانستان پر مکمل قبضے یا اقتدار پر بلاشرکت غیرے حاکمیت کا خواب نہیں دیکھ رہے۔ ہم اپنے وطن کی آزادی چاہتے ہیں۔ امریکا افغانستان سے نکل جائے تو افغان عوام مل بیٹھ کر اپنے جھگڑے خود نمٹالیں گے۔

سن 2012 میں امریکہ کی جانب سے طالبان کو سیاسی دفتر کے قیام کی دعوت دی، امریکا چاہتا تھا  طالبان کا سیاسی ایڈریس مہیا ہواور وہ آسانی اوریجنل ذرائع سے مذاکرات کے لیے رابطہ کرسکے۔ اس دفترکے لیے  ترکی، متحدہ عرب امارات، جاپان اور قطر میں سے کسی ملک کو منتخب کرنے کی تجویز تھی۔ اس سلسلےمیں گفت وشنید کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنوری کے اوائل ہی میں امارت اسلامیہ نے دفتر قائم کرنے کی حمایت کردی۔ حامد کرزئی نے بھی امریکا کی براہ راست مذاکرات کی کوششوں کی حمایت کردی اورفروری میں یہ دعوی کیا کہ امریکا طالبان اور کابل انتظامیہ کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے ہیں ۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی تردید کردی۔مجاہد صاحب کے اس بیان کی تصدیق پاکستان میں افغان سفیر عمر زاخیلوال نے بھی کی اور کہا کہ مذاکرات صرف امریکا طالبان کے ہورہے ہیں۔ مارچ  میں مذاکرات امارت اسلامیہ کی جانب سے  بو برگڈال (گرفتار شدہ امریکی فوجی )کے بدلے پانچ قیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر ایک بارپھر رک گئے۔اپریل کے اواخرمیں امریکا ، افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ امن کانفرنس ہوئی جس میں طالبان کو ایک بارپھر مذاکرات کی دعوت دی گئی ۔29 جون 2012 کوجاپان میں منعقدہ ایک کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے نمائندے مولوی دین محمد حنیف نے اپنا مقالہ پیش کیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئندہ مذاکرات کی بحالی کی امید ظاہر کی۔

سن 2013 میں مذاکرات میں بڑی پیش رفت جو ہوئی وہ امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کا قیام تھا۔ 18جون کوقطر دفتر کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا۔ وہائٹ ہاوس کے اعلی افسر نے اعتراف کیا کہ امریکا براہ راست طالبان سے مذاکرات کرنے والا ہے۔ قطر دفتر کے افتتاح کے بعد امریکی مذاکرات کاروں کا وفدبھی قطر پہنچا۔ مذاکرات کے لیے 20 جون کی تاریخ بھی رکھی گئی یہ سلسلہ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ بظاہراس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ کابل انتظامیہ نے طالبان کے سیاسی دفتر کی تختی جس پر”دفتر سیاسی  امارت اسلامی افغانستان "درج تھا اور اس میں لگے پرچم پر اعتراض کیا تھا۔ افغان انتظامیہ کا امریکی حکومت سے مطالبہ تھا کہ اس طرح طالبان افغان انتظامیہ کی متوازی حکومت تسلیم کیے جارہے ہیں ۔ مذاکرات کا پہلاموضوع امارت اسلامیہ کی جانب سے قیدیوں کا تبادلہ تھا، جس پر گذشتہ ایک سال سے مذاکرات موقوف تھے۔  امریکا کی جانب سے مذاکرات کے لیے وہی شرائط رکھی جانی تھیں  جس پر 2011 سے وہ مختلف صورتوں میں اصرار کرتا آرہا تھا۔ 1۔ شدت پسندی چھوڑ دیں۔2۔القاعدہ سے تعلق ختم کردیں۔3۔ افغانستان کے نئے آئین کو تسلیم کریں۔بہرحال مذاکرات منسوخ ہوگئے۔ جس کے بعد جولائی کے پہلے عشرے میں امارت اسلامیہ نے قطر دفتر عارضی طورپر بند کرنے کا اعلان کردیا۔

سال2014 کا سال دو وجہ سےاہم سال رہا۔ اس سال  اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مینڈیٹ کے مطابق امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود بین الاقوامی افواج 2014 کے اختتام تک سکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں افغان افواج کو سونپنے والی تھیں۔لیکن کابل انتظامیہ اور امریکا کے درمیان ’سیکیورٹی اور دفاع کے تعاون کا معاہدہ‘ طے پانے کی وجہ سے امریکا کو یہ اختیار ملا کہ وہ  تقریباً 10,000 امریکی فوجی اگلے دس سال تک افغانستان میں رکھ سکتا  ہے۔اس معاہدے کا  تقاضہ امریکا کی جانب سے حامدکرزئی سے بھی کیا جارہا تھامگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے ۔ 14 جون کو نام نہاد افغان  انتخابات کا حتمی مرحلہ انجام پایا۔ ستمبرمیں اشرف غنی کابل انتظامیہ کے نئے صدر بنے اور عبداللہ عبداللہ کی مسلسل تنقیداور دھمکیوں کے باعث ان کے لیے چیف ایگزیکٹوکا عہدہ تخلیق کرکے انہیں سونپ دیاگیا۔نئی انتظامیہ نے  اس معاہدے پر دستخط کردیے۔یہ افغانستان کی تاریخ کا ایک انتہائی ذلت آمیز معاہدہ تھا افغان عوام نے کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ یہ افغان عوام کی غلامی پر مزید دس سال کے لیے مہر تصدیق ثبت کرنا تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کفر اور صلیب کی غلامی پرہم راضی ہیں ۔

دوسرا اہم واقعہ 30جون 2009 کوامارت اسلامیہ کے ہاتھوں قید ہونے والےامریکی سارجنٹ بو برگڈال کی رہائی کے بدلے امارت اسلامیہ کے پانچ اہم رہنماوں کی گوانتانامو جیل سے  رہائی تھی۔ جن میں ملا فاضل مظلوم، مولوی عبدالحق وثیق، ملا خیراللہ خیرخواہ، ملا نوراللہ نوری اورمولوی محمد نبی محمدی شامل ہیں۔ یہ پانچوں شخصیات ابھی امارت اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے اہم ارکان ہیں جوقطر میں جاری مذاکرات میں اہم کردارادا کررہے ہیں۔الحمد للہ

سن2015  میں  10 فروری کوایک بارپھر  کابل میں پاکستان، چین اور افغانستان کی مشترکہ کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کے بعد چین نے بھی افغان مسئلے میں دلچسپی لینی شروع کی۔ 19 فروری کو ایک بارپھر امریکی محکمہ خارجہ اور وہائٹ ہاوس کا ایک تردیدی بیان آیا کہ ہمارے طالبان سے کوئی براہ راست مذاکرات نہیں ہورہے۔ تردید کے پیچھے کہانی یہ تھی کہ رویٹرز اور دیگر مغربی خبررساں اداروں نےقطر میں موجود امارت اسلامیہ کے کسی رہنما کے بتانے پر خبر دی کہ امریکا اور امارت اسلامیہ کے براہ راست مذاکرات ہورہے ہیں۔ جس سے کابل انتظامیہ بھی واقف تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہاکہ طالبان سے ہمارے مذاکرات جنوری 2012میں موقوف ہوگئے تھے اس کے بعد اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یکم مئی کوایک بارپھر میڈیا نے بتایا کہ امارت اسلامیہ اور افغان انتظامیہ کے وفود قطر میں ملیں گے۔ امارت اسلامیہ نے کہا اسے ہر گز باقاعدہ مذاکرات قرار نہ دیا جائے۔ اسی لیے اس کا کوئی ایجنڈا نہیں رکھا گیا۔ یہ محض ایک ملاقات تھی جس کا مقصد افغان فریقوں کے درمیان تعلق کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ 19 اور 20 مئی کوچین کے شہر ارمچی میں بھی امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ کے نمائندوں کے درمیان ملاقاتیں رہیں۔ اسے بھی امارت اسلامیہ نے محض ایک ملاقات قراردیا اور باقاعدہ مذاکرات کی تردیدکردی۔ایسی ایک اور ملاقات امارت اسلامیہ اور افغان حکومت کے درمیان7 جولائی کو پاکستان کے شہر مری میں ہوئی   جس میں چینی اور امریکی نمائندے بھی مبصر کی حیثیت سے شریک تھے۔  ملاقات کا اسی طرح کا ایک اور دور جولائی کے آخر میں ہونا تھا جو امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے اعلان وفات اور تعزیتی مراسم کی وجہ سے منسوخ ہوگیا۔ 25 نومبر کو جناب شیرعباس ساتگزئی صاحب کو قطر آفس کا سربراہ بنایا گیا۔

 (Quadrilateral Coordination Group  ) سن2016 جنوری میں

یعنی چارفریقی تعاون گروپ کے نام سے امریکا ، چین ، پاکستان اور افغانستان کا باقاعدہ اتحاد تشکیل دیا گیا ۔ جس کا مقصد امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ میں امارت اسلامیہ کوایک اور اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ امیرالمومنین ملا اخترمحمد منصور شہید 23مئی کو ڈرون حملے میں شہید ہوگئے۔ امیرالمومنین ملا عمر مجاہد کی وفات کے بعد یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا جس نے امارت اسلامیہ کو دکھ اور تکلیف پہنچائی۔ لیکن مجاہدین کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔ جہاد اپنی پورے جوش وخروش سے جاری رہا۔ مذاکرات یا سیاسی وسفارتی ملاقاتوں کا عمل اس عرصے میں موقوف رہا۔

2017میں ایک بارپھر کابل انتظامیہ نے "امن اور مذاکرات” کے نام پرامارت اسلامیہ کو مذکرات پر آمادہ کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ اس کے لیے 6 جون کو "کابل امن عمل” کے نام سے پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں 23 ملکوں اور یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور نیٹو جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔ اجلاس میں افغانستان میں سکیورٹی اور سیاسی صورتِ حال بہتر بنانے لیے مختلف تجاویز اور اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔اشرف غنی کی دورخی سیاست کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک جانب اس نے کابل امن عمل کے نام پر امارت اسلامیہ کو مذاکرات کی دعوت دی۔ دوسری جانب 8 اکتوبر کو یہ خبر بھی میڈیا پر آئی کہ اشرف غنی نے ایک ماہ قبل ستمبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جب وہ امریکا میں موجود تھے انہوں نے امریکا اور قطر ی حکام کودرخواست دی کہ طالبان کا قطر دفتر بند کردیا جائے۔ کیوں کہ اس دفتر سے وہ ایران، پاکستان، روس ، چین اور خطے کے دیگر ممالک سے رابطے کررہے ہیں۔16 اکتوبر کو ایک بارپھر کیو سی جی کا  اجلاس  بلایا گیا تاکہ افغان حکومت اور امارت اسلامیہ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جاسکے، مگر امارت اسلامیہ نے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔ 7 دسمبر کو افغان ہائی پیس کونسل کی جانب سے امارت اسلامیہ کومضحکہ خیز پیش کش کی گئی کہ کابل میں اپنا سیاسی دفتر قائم کریں۔ محترم ذبیح اللہ مجاہدصاحب نے جواب میں کہا کہ آدھے سے زیادہ افغانستان امارت اسلامیہ کے پاس ہے، ہمیں کابل میں دفتر کی کیا ضرورت ہے۔ سارا افغانستان ہمارا دفتر ہے۔

سن 2018  میں 28 فروری کو "کابل امن پراسس ” کی دوسری  کا نفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں اشرف غنی نے امارت اسلامیہ کو ایک بارپھر غیر مشروط طورپر مذاکرات کی دعوت دی۔ کابل انتظامیہ نے 4 جون کو امارت اسلامیہ کو مذاکرات بالفاظ دیگر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے کابل میں علماء کانفرنس کے نام سے کانفرنس منعقد کروایا۔ 7 جون کو ایک بارپھر اشرف غنی نے امارت اسلامیہ کو غیرمشروط طورپر مذاکرات کی دعوت دی اور یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ 16 جولائی کو  نیویارک ٹائمر کی رپورٹ میڈیا پر شائع جس میں پہلی بار یہ خبر دی تھی کہ امریکا امارت اسلامیہ سے براہ راست مذاکرات کرے گا۔ 2011کے بعد یہ  افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں دوسری بڑی تبدیلی تھی۔  رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو یہ بات سمجھ آگئی کہ امارت اسلامیہ افغان انتظامیہ کو ایک بے اختیار کٹھ پتلی سمجھتی ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتی۔ 18 جون 2011 سے 16 جولائی 2018 تک کا سات سال ایک ماہ دو دن کا سارا دورانیہ امریکا نے اس کوشش میں ضائع کردیا کہ وہ کسی طرح امارت اسلامیہ کو کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرسکے۔ اور ان مذاکرات کے لیے جو شرائط پیش کی جارہی تھیں ان میں سرفہرست یہ تھا کہ جنگ چھوڑ کر ہتھیارڈال دیں اور نئے آئین کو تسلیم کریں۔ اس لیے مذاکرات کایہ سلسلہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس بارپہلی مرتبہ امریکا نے درست جانب قدم اٹھایا۔ اگرچہ 17 جولائی کو امریکا نے اس خبر کی تردید کی مگر آئندہ کے حالات نے اس خبر کو درست ثابت کردیا۔ 21 جولائی کو امریکی ٹی وی نے ایک خبر دی جس میں کہا گیا کہ ایک امریکی وفد نے قطر میں خفیہ طورپر امارت اسلامیہ کے رہنماوں سے ملاقات کی۔ 28 جولائی کو اس مذاکرات کی تصدیق کی خبر بھی میڈیا پر شائع ہوئی۔ خبر میں ملاقات کی زیادہ تفصیل نہیں بتائی گئی ، اتنا کہا گیا کہ اس ملاقات میں زیادہ گفتگو مستقبل میں امریکاطالبان براہ راست مذاکرات کو جاری رکھنے پر ہوئی۔ اس ملاقات میں امریکی وفد کی سربراہی   محکمہ  خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز کررہے تھے۔ ایلس ویلز سے قبل امریکی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل اور پینٹاگون کے سابق مشیر کرسٹوفر کولینڈا اور امریکی سفیر رابن رافیل نے امارت اسلامیہ کے رہنماوں سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے لیے راہ ہموار کی۔ اس ملاقات میں امریکا کی جانب سے بگرام اور شورابک کے دو اڈے امریکا کے پاس رکھنے اور ان اڈوں میں امریکی فوج کی تعیناتی کا مطالبہ سامنے رہا جبکہ امارت اسلامیہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ رکھا گیا۔5 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زلمی خلیل زاد کو امریکی مذاکراتی وفد کا سربراہ اور اپنا نمائندہ مقرر کردیا۔ 4 اکتوبر کو زلمی خلیل زاد نے اپنی نئی ذمہ داری کے سلسلے میں پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز کیا اور مذاکرات کے سلسلے میں پانچ سٹیک ہولڈرز ممالک فغانستان، پاکستان، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوئے۔

باقاعدہ مذاکرات کا آغاز

مذاکرات کا پہلا دور:پانچ ملکی  دورے کے اختتام پر 12 اکتوبر کو انہوں نے امارت اسلامیہ کے وفد سے قطر میں ملاقات کی۔ امارت اسلامیہ کے وفد میں مولوی عبدالسلام حنفی، شیخ شہاب الدین دلاور، قاری دین محمد، زاہد احمدزئی اور محمد سہیل شاہین شامل تھے جن کی سربراہی مولوی شیرعباس ستانگزئی کررہے تھے۔ اس ملاقات کو امریکاطالبان براہ راست باضابطہ ملاقات کا پہلا دور کہا جاتا ہے۔

مورخہ 25ا کتوبر کو محترم ملابرادر کو جیل سے رہائی ملی۔ 9 نومبرکو روس کی جانب سے کثیرفریقی افغان امن کانفرنس  کا اہتمام ہوا جس میں امارت اسلامیہ کے وفد نے بھی شرکت کی ۔ اس اجلاس میں کابل انتظامیہ کے وفد نے بھی شرکت کی مگر امارت اسلامیہ نے انہیں سرکاری حیثیت میں تسلیم کرنے سے انکار کیا۔  اسی روز خلیل زاد پاکستان، افغانستان ، متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے پر روانہ ہوئے۔

مذاکرات کا دوسرادور:اس دورے کے اختتام پرایک بارپھر خلیل زاد کی ملاقات امارت اسلامیہ کے وفد سے ہوئی جو کہ تین دن تک جاری رہی۔ اس ملاقات کو میڈیا نے مذاکرات کے دوسرے راونڈ کا نام دیا ہے۔

مذاکرات کا تیسرا دور:  17 دسمبر کو امارت اسلامیہ کے وفد اور خلیل زاد کی تیسری ملاقات دبئی میں ہوئی جو تین دن جاری رہی۔ اس میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان کے وفود نے بھی شرکت کی۔ اس ملاقات میں امریکا کی جانب سے امارت اسلامیہ کے سامنے مذاکرات کے لیے جو نکات رکھے گئے  ان میں جنگ بندی کرنے، عبوری حکومت میں حصہ دار بننے، افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی ، افغانستان کے آئندہ سیاسی نظام کے متعلق فیصلہ کرنے  اور افغان حکومت سے براہ مذاکرات کرنے کی یقین دہانی رکھی گئی۔

مورخہ 26 دسمبر کو ایرانی وفد نے دورہ کابل کے موقع پر دعوی کیا کہ ان کی ملاقات افغان طالبان سے ہوچکی ہے۔ اس کی مزید تفصیلات 31دسمبر کو خبروں میں سامنے آئیں کہ طالبان وفد نے ایران کا دورہ کیا اور تہران میں ایرانی حکام سے ملاقاتیں کیں۔31 دسمبر کومیڈیا خبروں کے مطابق آئندہ ماہ سعودی عرب میں امریکا طالبان مذاکرات کا چوتھا راونڈ ہونے والا تھا جس میں طالبان نے افغان وفد سے ملاقات کا انکار کردیا ۔ البتہ یہ کہا کہ سعودی عرب میں امریکی وفد سے ملاقات کی جاسکتی ہے۔

سن 2019 کے آغاز میں 7جنوری کو امارت اسلامیہ نے سعودی عرب میں مذاکرات کے چوتھے راونڈ کا انکارکردیا ۔ کیوں کہ سعودیہ اور متحدہ عرب امارات کا اصرار تھا کہ اس میں افغان حکومت ضرور شریک ہو۔ امارت اسلامیہ نے کہا کہ اب مزید مذاکرات قطر میں ہوں گے جہاں امارت اسلامیہ کا دفترموجود ہے۔ 8 جنوری کو قطر میں منعقد ہونے والی راونڈ بھی منسوخ ہوگئی کیوں کہ امریکا اور طالبان کاایجنڈے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

مذاکرات کا چوتھا دور: 22 جنوری کو امارت اسلامیہ اور ا مریکا کے مذاکرات کا چوتھا دور دوحہ میں شروع ہوا جو چھ دن تک جاری رہا۔ اس ملاقات سے قبل امارت اسلامیہ کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ تمام غیرملکی فوجوں کا انخلاء ایجنڈے میں ہونا چاہیے۔ ملاقات میں غیرملکی افواج کی مکمل اور پرامن انخلا پر دونوں فریق کا اتفاق رائے ہوا۔ زلمی خلیل زاد نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور افواج کے انخلاء پر اطمینان بخش گفتگو ہوئی ہے۔

جنوری26  کو امارت اسلامیہ کے نائب امیر محترم ملا عبدالغنی برادر قطر سیاسی دفتر کے سربراہ مقرر کیے گئے۔

یکم فروری کو امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اعلان کیا کہ امن معاہدے کے بعد اپنی فوج واپس بلالیں گے۔ 6فروری کو روس کی جانب سے ماسکومیں بین الافغانی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں امارت اسلامیہ اور افغان سیاسی رہنماوں کے درمیان ملاقات اور خیالات کا تبادلہ ہوا۔13 فروری کو امارت اسلامیہ نے امریکا سے براہ راست مذاکرات کے لیے ایک نئی 14 رکنی ٹیم کا تعین اور اس کے لیے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا۔ 17 فروری کو پاکستان میں امریکا اورامارت اسلامیہ کے نمائندوں کی ملاقات کا اعلان کیا گیا تھا مگر وہ منسوخ ہوگیا۔ اس کی وجہ امارت اسلامیہ نے واضح کی کہ امریکا خود یہ ملاقات کرنانہیں چاہتا تھا۔ کیوں کہ امارت اسلامیہ کو پاکستان کے دورے کے لیےاقوام متحدہ سے سفر کی اجازت درکار تھی۔ امارت اسلامیہ کے رہنماوں پر امریکا کی جانب سے سفری پابندیاں عائد تھیں۔ امارت اسلامیہ نے باربار اطلاع دی کہ امریکا ہمارے نام بلیک لسٹ سے نکلوادے تاکہ ہم پاکستان کا دورہ کرسکیں مگر امریکا نے یہ سب کچھ نہیں مانا۔امارت اسلامیہ نے مطالبہ کیا کہ ان پر سے پابندیاں ہٹادی جائیں اور ان کے دفتر کو سرکاری طورپر تسلیم کیا جائے۔

مذاکرات کا پانچوں دور: 25 فروری کو زلمی خلیل زاد کی محترم ملاعبدالغنی برادر سے پہلی ملاقات ہوئی اور مذاکرات کے ایک نئے دورکا آغاز ہوا جو 16 دن تک جاری رہا۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ اس میں دو اہم مسائل زیر بحث رہے۔ ہمارے لیے افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کی واپسی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اور امریکی جانب سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کی سر زمین کو امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

مورخہ 13 مارچ کو مذاکرات کے اختتام پر اپنی ٹوئیٹس میں خلیل زاد نے کہا ہے کہ ’’امن کے لیے چار معاملوں پر سمجھوتا لازم ہے: دہشت گردی کے معاملے پر یقین دہانی، فوجوں کا انخلا، بین الافغان مکالمہ اور مربوط جنگ بندی‘‘۔ایک اور ٹوئیٹ میں خلیل زاد نے کہا کہ جنوری کی بات چیت میں ہم ’’اصولی طور پر‘‘ چار معاملوں پر رضامند ہوئے تھے۔ اب ہم پہلے دو معاملوں پر ’’مسودہ کی حد تک متفق ہوئے ہیں‘‘۔

مورخہ 26مارچ کو ایک بارپھر زلمی خلیل زاد أفغانستان، برطانیہ، بیلجئم، پاکستان، ازبکستان، اردن اور قطر کے دورے پر روانہ ہوگئے۔10 اپریل کو واپسی کے بعد وہ ایک بارپھر 21اپریل سے 11 مئی تک افغانستان، بھارت، پاکستان، قطر، روس اور برطانیہ کے دورے پر نکل گئے۔

مذاکرات کا چھٹا دور: 1مئی سے دوحہ میں شروع ہوکر 9 دن تک جاری رہا۔ اس میں گذشتہ ملاقاتوں کے زیرتکمیل نکات پر حتمی گفتگو کی گئی۔

اس دوران کابل میں لویہ جرگہ کے نام پر اشرف غنی نے ایک بارپھر لوگوں کو جمع کیا تاکہ امارت اسلامیہ کے ساتھ مذاکرات کا طریقہ کار طے کریں اور امارت پر دباو ڈالیں کہ وہ ان سے مذاکرات کے لیے راضی ہوں۔ 23 مئی کو زلمی خلیل زاد امریکی کانگریس کے کمیٹی برائے امن عمل میں پیش ہوئے۔ کانگریس کمیٹی نے انہیں  مذاکرات میں تین نکات پر زیادہ توجہ دینےکی ہدایت کی۔ 1۔ خواتین، اقلیت اور بچوں سمیت تمام افغان طبقات کے حقوق کا تحفظ۔2۔ افغان حکومت سے مذاکرات ۔3۔ طالبان کا مذاکرات میں خلوص نیت جانچنا۔بند کمرہ اجلاس کے بعد کمیٹی سربراہ نے زلمی خلیل زاد کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ وہ درست سمت جارہے ہیں۔ 28 مئی کو روس اور افغانستان کے سفارتی تعلق کی سویں سالگرہ پر ماسکو میں کانفرنس منعقد کی گئی جس میں افغان سیاسی رہنماوں اور امارت اسلامیہ کے وفد نے شرکت کی۔ امارت اسلامیہ کے وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے خود کی۔ 17 جون کو امارت اسلامیہ کے وفد نے چین کا دورہ کیا ، وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔

مذاکرات کا ساتواں دور: 30جون کومذاکرات کا نیا دور شروع ہوا جو چند دن تک جاری رہا۔ اس میں بھی فریقین کے درمیان  سابقہ موضوعات پر گفتگو اور پیش رفت ہوئی ۔

مذاکرات کا آٹھواں دور:3 اگست کو مذاکرات کا آٹھواں دور شروع ہوا۔ جو دس دن تک جاری رہا۔ یہ مذاکرات کا آخری دور تھا جس کے بعد معاہدہ طے پانے کی توقع تھی۔ مگر یہاں آکر بات جنگ بندی پر اٹک گئی۔ امریکا کا مطالبہ ہے کہ طالبان مکمل جنگ بندی کا اعلان کردیں جبکہ طالبان معاہدے کے بعد مشروط اور محدود جنگ بندی کے ذریعے بیرونی افواج کو راستہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ اگر طے ہوجاتا تو امارت اسلامیہ جنگ بندی کا اعلان اور بین الافغانی مذاکرات میں حصہ لینے کی پابند ہوتی اور امریکا افغانستان سے اپنی ساری فوج باہر نکال لینے کا پابند ہوتا۔ تاہم مزید مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

مورخہ 20 اگست کو زلمی خلیل زاد ایک بارپھر دوحہ کی جانب روانہ ہوا تاکہ مذاکرات آگے بڑھائے جاسکیں۔

مذاکرات کا نواں دور:23 اگست  کو مذاکرات کا اہم ترین دور شروع ہوا جس میں امریکی فوج کے انخلاء کی تفصیلات اور طالبان کی جانب سے افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی شامل تھی۔31 اگست کو یہ دور ختم ہوا۔ مذاکرات کے اس دور میں امریکی انخلاء کی تمام تر تفصیلات پوری باریکی سے طے ہوئیں۔ خلیل زاد نے 31 اگست کو اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ہم معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ معاہدے کے بعدامریکی فوج  کا انخلاء ہونا تھا اور بین الافغانی مذاکرات کے لیے تاریخ کا تعین کرکے مذاکرات کا آغاز کرنا تھا۔  اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کےقریب پہنچ چکے ہیں۔ وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔

مورخہ 2 ستمبر کو خلیل زاد نے افغانستان میں طلوع نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ   امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس کے مطابق فریقین کے دستخط کرنے کے بعد 135 دن کے اندر امریکی فوجی افغانستان میں پانچ فوجی اڈے خالی کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ پانچ فوجی اڈوں سے 5,000 امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اس وقت افغانستان میں لگ بھگ سات فوجی اڈوں میں 14,000 امریکی فوجی تعینات ہیں۔زلمے خلیل زاد نے اس بیان سے پہلے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کر کے اُنہیں مسودے کے کلیدی نکات سے آگاہ کیا تھا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق انہوں نے مسودے کی کاپی اُن کے حوالے نہیں کی تھی۔

مورخہ 5 ستمبر کو کابل کے علاقے ششدرک میں کارفدائی حملہ ہوا جس کی ذمہ داری امارت اسلامیہ نے قبول کی۔ اس حملے میں 10 ملکی فوجی اور 2 غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے جن میں سے ایک کا تعلق رومانیہ اور دوسرے کا تعلق امریکا سے تھا۔

مورخہ 8ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ بالا فوجی کی ہلاکت پر مذاکرات معطل کردیے۔ 14 ستمبر کوامارت اسلامیہ کے وفد نے روس کا دورہ کیا۔ جس کا مقصد امریکا کی جانب سے مذاکرات کی معطلی کے حوالے سے عالمی سٹیک ہولڈرز کو آگاہ کرنا اور اعتماد میں لینا تھا۔ اسی سلسلے میں 23ستمبر کو امارت کے وفد نے چین کا دورہ کیا۔ چین کے دورے سے قبل یہ وفد ایران کا دورہ بھی کرچکا تھا۔

مورخہ 28 ستمبر کو افغانستان میں نام نہاد صدارتی الیکشن کا انعقاد ہوا جو انتہائی بری طرح سے ناکامی کا شکار ہوا۔ 2اکتوبر کو امارت اسلامیہ کے وفد نے خطے کے ممالک کے دوروں کے تسلسل میں پاکستان کادورہ کیا جہاں زلمی خلیل زاد سے بھی ملاقات ہوئی ۔ 22اکتوبر کو خلیل زاد امریکی سفارت کاروں کے ہمراہ یورپی یونین، نیٹو اور اقوام متحدہ کے عہدیداروں سے ملاقات کے لیے دورے پر نکل پڑے۔اس دورے کا مقصد امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے لیے کوششیں تیز کرنا تھا۔19 نومبر کو دوپروفیسرز کی رہائی کے بدلے امارت اسلامیہ کے تین قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی جن میں انس حقانی شامل تھے۔ 27 نومبر کوایک بارپھر امارت اسلامیہ کے وفد نے ایران کا دورہ کیا اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی۔ 30نومبر کوصدر ٹرمپ نے خفیہ طورپر بگرام کا دورہ کیا ۔ اس دورے میں انہوں نے امارت اسلامیہ سے دوبارہ مذاکرات بحال کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔

مذاکرات کا دسواں دور:انس حقانی کی رہائی اور ٹرمپ کے بیانات سے برف پگھلنے لگی اور ایک بارپھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ 7 دسمبر کو مذاکرات ایک بارپھر شروع ہوئے جو 13 دسمبر تک جاری رہے۔13دسمبر کو بگرام ائیر بیس پر ہونے والے حملے کی وجہ سے خلیل زاد نے مذاکرات چند دن کے لیے موقوف کرنے کا اعلان کردیا۔مذاکرات کے اس دور میں زیر بحث موضوع جنگ بندی یا تشدد میں کمی اوربین الافغانی مذاکرات کی بحالی رہا۔

مذاکرات کا گیارہواں دور:15 جنوری 2010 کو امارت اسلامیہ کے نمائندوں اور زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات اور ملاقاتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جو چند دن تک جاری رہا۔ اس ملاقات میں امن معاہدے کے انعقاد کے حوالے حتمی باتیں طے ہوئیں۔ا مریکا نے امارت اسلامیہ کی جانب سے تشدد میں کمی کا لفظ تو قبول کرلیا مگر اس کی تشریح پر ایک بارپھر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

قارئین کرام ! آگے کی صورتحال دیکھتے جائیے۔ فی الحال اتنا عرض ہے کہ مندرجہ جالا رپورٹ میں آپ نے تفصیل سے جائزہ لے لیا ہے کہ امریکا طالبان مذاکرات کس دور میں کس کروٹ پر رہے۔ اس پورے دورانیے کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا حصہ دو ہزار گیارہ سے دوہزار اٹھارہ کے اواخر تک کا ہے جس میں امریکا کی کوشش تھی کہ امارت اسلامیہ کے  کابل انتظامیہ سے مذاکرات کروائے اور دونوں کو مقابل فریق بناکر خود ثالث بن جائے۔ اس پر طرح طرح کی ملاقاتیں ہوئیں۔ سیمینارز ہوئے۔ کانفرنسیں ہوئیں مگر امارت اسلامیہ ہمیشہ اپنے اس موقف پر ثابت قدم رہی کہ یہ بااختیار اور ہمارا اصل دشمن فریق نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ امریکا سے ہے امریکا کے زر خرید غلاموں سے نہیں۔ اس پر ہمیشہ امارت اسلامیہ پر یہ الزام لگایا کہ وہ امن نہیں چاہتے اور مذاکرات سے بھاگتے ہیں۔ مگر مذاکرات کا اصل دور شروع ہوا یعنی امریکا نے براہ راست مذاکرات شروع کیے تو امارت اسلامیہ نے بھی اپنی پوری دلچسپی اور تعاون کا اظہار کیا ہے۔  ماضی میں امریکا کا موقف تھا کہ ہاں ہم افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے مگر اس وقت جب امریکی فوج یہاں موجود نہیں ہوگی۔ امریکا افغانستان سے اپنی جارحیت کےسائے ہٹادے ہم افغان شہریوں سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اور جب امریکا نے براہ راست مذاکرات شروع کیے تو امارت اسلامیہ نے کہا کہ ہماراحریف امریکا ہے کابل انتظامیہ نہیں اس لیے فی الحال مذاکرات امریکا سے ہوں گے اس کے کٹھ پتلی سے ہرگز نہیں۔ امارت اسلامیہ نے کبھی مذاکرات اور پرامن حل کا انکار نہیں کیامگر ہمیشہ سے ہر چیز الگ الگ واضح کرکے رکھا ۔ کابل انتظامیہ ، افغان سیاسی تنظیمیں اور شخصیات اور امریکا کو الگ الگ پہچانا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے