نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونےوالے مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔ انتہا پسند غنڈوں نے گیارہ روز پہلے سر پر سہرا سجانے والے مسلمانوں لڑکے کو فائرنگ اور تلوار کے وار سے قتل کر ڈالا، مصطفیٰ آباد میں ایک اور مسجد شہید کر دی گئی۔ جبکہ دوسری مسجد پر پٹرول بم پھینکے گئے۔

بھارتی دارالحکومت دہلی میں مجموعی حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ پرتشدد فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چوتھے روز بھی دوران شب آگ لگانے اور جھڑپیں جاری رہیں۔ مسلم مخالف فسادات میں ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ طبی حکام نے اب تک 38 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ دو سو سے زائد زخمی اب بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ ان میں سے متعدد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق اب تک ہلاکتوں کی تعداد 38 ہو گئی ہے، ان ہلاکتوں میں نوجوان، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں، 36 ہلاکتیں کو گرو تیغ بہادر ہسپتال میں ہوئیں جبکہ دو افراد کی موت لوک نائیک جے پرکاش نارائن ہسپتال میں ہوئی ہے۔

بھارتی میڈیا این ڈی ٹی وی کے مطابق مظاہرین کے دوران بی جے پی کے انتہا پسندوں نے کارروائیوں کے دوران مسلمانوں کی جہاں املاک جلائیں وہیں پر نئی دہلی کے نواحی علاقے مصطفیٰ آباد میں سکول کو بھی نذر آتش کر دیا۔

بھارتی خبر رساں ادارے ’دی وائر‘ کے مطابق بی جے پی کے دہشتگردوں کی طرف سے ایک اور مسجد کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ مسجد نئی دہلی کے نواحی علاقے مصطفیٰ آباد میں شہید کی گئی ہے،

آر ایس ایس کے انتہا پسندوں نے مسجد فاروقیہ میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی، مسجد فاروقیہ میں یتیم بچوں کا مدرسہ بھی قائم تھا، جبکہ دہلی کے ایک اور علاقے میں واقع مینا مسجد پر پیٹرول بم بھی پھینکے گئے۔

مقامی شہری کا کہنا تھا کہ بی جے پی کے دہشتگردوں نے لشکروں کے ساتھ حملہ کیا، یہ حملہ رات اڑھائی بجے کے قریب کیا گیا تھا، جہاں مسجد شہید کی گئی وہاں باہر ایک لاش بھی پڑی ملی۔ جسے پولیس اہلکاروں نے اٹھانے نہیں دیا۔ مسجد کے ساتھ ایک گھر تھا جسے انتہا پسندوں نے جلا ڈالا جہاں پر ایک فیملی رکھتی تھی۔ گھر کے ساتھ ساتھ انہوں نے دکانوں کو بھی جلا دیا۔

دوسری طرف انتہا پسندمودی سرکار کے غنڈوں نے نئی دہلی میں اندھیر نگری مچادی، گیارہ روز پہلے سر پر سہرا سجانے والے مسلمان لڑکے کو فائرنگ اور تلوار کے وار سے قتل کر دیا گیا،غم سے نڈھال ماں بیٹے کی لاش کے لیے ہسپتال کے دھکے کھانے پر مجبور ہوگئی۔

مزید نئی دہلی میں کیس کی سماعت جاری رہی، کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ کولن نے دلائل دیئے کہ اس وقت نئی دہلی میں ایک نعرہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ نعرہ ہے ’جاؤ اور مار ڈالو‘۔

دوسری طرف مرکزی حکومت نے روایتی طور پر ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے نئی دہلی ہائیکورٹ میں ایک جواب میں جمع کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔

واضح رہے کہ اس وقت نئی دہلی ہائیکورٹ میں ایک کیس کی سماعت چل رہی ہے، جس میں ایک ایڈووکیٹ نے بی جے پی کے رہنماؤں انوراگ ٹھاکر، پریش ورما، ابھے ورما اور کپل شرماکے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

ادھر کانگریس پارٹی نے دہلی میں ہونے والے فسادات کے لیے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر فسادیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے۔ پارٹی نے آج اس سلسلے میں صدر سے ملاقات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ فسادات کے حوالے سے دہلی کی پولیس پر بھی شدید نکتہ چینی ہورہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس نے اگر وقت پر کارروائی کی ہوتی تو اسے مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا۔ گزشتہ روز جب قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے متاثرہ علاقوں پہنچے تو شہریوں کی بڑی تعداد ان کے سامنے پھٹ پڑی جب وہ واپس گئے تو ایک مرتبہ پھر مظاہرین کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

شمال مشرقی دہلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، سیلم پور، کراول نگر، موج پور، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ میڈیا میں اس طرح کی بھی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ان فسادات کے دوران مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانات کو چن چن کر نشانہ بنایا گيا ہے اور اس دوران پولیس لاتعلق رہی۔

امریکا میں عالمی سطح پر مذہبی آزادی کے نگراں ادارے یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے نئی دہلی میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

یو ایس سی آئی آر ایف کے سربراہ ٹونی پریکسن کا کہنا تھا کہ دہلی میں جاری تشدد اور مسلمانوں پر حملے، ان کی عبادت گاہوں، مکانات اور دکانوں پر حملوں کی اطلاعات بہت پریشان کن بات ہے۔ کسی بھی ذمے دار حکومت کے سب سے اہم فرائض میں سے بلا امتیاز مذہب و ملت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہم بھارتی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور ان افراد کے تحفظ کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے جنہیں ہجوم نشانہ بنا رہے ہیں۔

خارجی امور سے متعلق امریکی کیمٹی نے بھی دہلی کے مذہبی نوعیت کے فسادات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام افراد کے تحفظ کو یقین بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیٹی نے اپنے بیان میں کہنا ہے کہ جمہوریت میں احتجاج ایک کلیدی حق ہے لیکن پرامن طریقے سے ہونا چاہیے اور پولیس کو سبھی کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی سینیٹر ایلزیبتھ وارین نے بھی بھارت پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی تھی کہ پر امن مظاہرین کے خلاف تشدد کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے