امارت اسلامیہ کے نائب سربراہ جناب سراج الدین حقانی صاحب کا نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کا اردو ترجمہ

جب 2018 میں ہمارے نمائندوں نے امریکہ کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا تو ہماری توقع مذاکرات کے مثبت نتائج کے حوالے سے صفر تھی، 18 برس کی جنگ اور ماضی میں کئی بار مذاکرات کی کوششوں کے پیش نظر ہم امریکہ پر اعتماد نہیں کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس طویل جنگ سے سب بیزار ہو گئے تھے، کسی بھی ممکنہ امن عمل کا موقع ضائع کرنا دانشمندی کا تقاضا نہیں تھا اگرچہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا، چار دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے ہر روز افغان کا نقصان ہو رہا ہے، کوئی ایسا خاندان نہیں ہے جو اس جنگ سے متاثر نہیں ہے، ہر کوئی جنگ سے تنگ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہلاکتوں اور مشکلات کا یہ دور ختم کرنا چاہئے ۔

امریکہ کی زیرقیادت غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ ہماری چاہت نہیں تھی بلکہ جب ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی تو ہم اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہوگئے، لہذا غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا اولین اور اہم مطالبہ ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ہم آج امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کر ررہے ہیں ۔

ملا عبد الغنی برادر اور شیر محمد عباس ستانکزئی کی سربراہی میں ہمارے نمائندوں نے ڈیڑھ سال کے دوران امریکی حکام کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لئے انتھک محنت اور جدوجہد کی، ملک بھر میں ہتے شہریوں پر امریکہ کے شدید فضائی حملوں پر ہمارے نمائندوں کی جانب سے بار بار تشویش کا اظہار کرنے اور امریکہ کی جانب سے ہر بار نئے مطالبات پیش کرنے کے باجود ہم امن مذاکرات کے پابند اور پرعزم رہے ۔

یہاں تک کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تب بھی ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے، کیونکہ جنگ کے تسلسل سے سب سے زیادہ ہمارے عوام متاثر ہورہے ہیں، یہ بات بھی واضح ہے کہ اس طرح کے دو طرفہ مذاکرات کے بغیر امن معاہدہ ممکن نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جس دشمن کے خلاف دو عشروں سے ہماری لڑائی جاری ہے جس میں موت بارش کی طرح برس رہی ہے، اس کے ساتھ امن مذاکرات کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم اپنے ملک میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کرنے کے لئے پرعزم ہیں ۔

ہم ان خدشات اور سوالات کو سمجھتے ہیں جو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد نظام کی نوعیت کے بارے میں افغانستان کے اندر اور اس سے باہر موجود ہیں، اس طرح کے خدشات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کا انحصار بین الافغان اجماع پر ہے، پہلی بار دوسروں کی مداخلت کے بغیر آزاد ماحول میں ہم گفت و شنید اور مفاہمت کے ذریعے ملک کے نظام کے بارے میں بات چیت کریں گے کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینی چہایے ۔

پہلے سے طے شدہ نتائج اور شرائط پیش کرنے سے اس عمل کو روکنا مناسب نہیں ہے، ہم دوسری جماعتوں کے ساتھ باہمی احترام کے ماحول میں مشاورتی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں اور ایک نئے اور ہمہ جہت سیاسی نظام کے قیام کے لئے پر عزم ہیں جس میں ہر افغان کی آواز سنی جاتی ہے اور کوئی افغان شہری محروم نہ رہے ۔

مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء اور مداخلت سے آزادی کے بعد ہم مشترکہ طور پر ایک اسلامی نظام کے لئے راہ ہموار کریں گے جس میں برابری کی بنیاد پر تمام افغانوں کے حقوق محفوظ ہوں گے، تعلیم اور روزگار سمیت خواتین کے وہ تمام حقوق محفوظ ہوں گے جو اسلام کے مقدس دین نے دیئے ہیں ۔

ہم باغی گروپوں کی طرف سے افغانستان سے علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق خطرے کے بارے میں اٹھائے جانے والے خدشات کو بھی سمجھتے ہیں، تاہم اس طرح کے خدشات میں مبالغہ آرائی کو پہلے استعمال کیا جاتا ہے، افغانستان میں غیر ملکی گروہوں کے بارے میں اطلاعات کو جنگ پسند عناصر کی طرف سے سیاسی مفادات کے لئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

یہ امر بھی ضروری اور کسی افغان کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کو کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں اور اس کو میدان جنگ بنائیں، ہم غیر ملکی مداخلت کی تلخی کا مزہ چکھا ہے لہذا تمام افغانوں کے ساتھ مل کر ہم یہ یقینی بنانے کے لئے تمام تر اقدامات اٹھائیں گے کہ ایک نیا افغانستان امن کی علامت کے طور پر ابھرے اور کسی کو بھی اس کا احساس کبھی نہیں ہوگا کہ ہماری دھرتی سے اس کو خطرہ ہے ۔

لیکن اس کے باوجود ہم چیلنجوں کو کم نہیں سمجھتے ہیں، شاید ان چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ مختلف افغان گروہ ہمارے مشترکہ مستقبل کی وضاحت کے لئے سنجیدگی اور خلوص نیت سے کام کریں گے لیکن کچھ لوگ اختلاف کریں گے تاہم مجھے یقین ہے کہ سب لوگ ایک متفقہ نظام پر متفق ہوجائیں گے کیوں کہ اگر ہم کسی غیرملکی دشمن کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو باہمی اختلافات کو افہام و تفہیم سے احسن طریقے سے ختم کر سکتے ہیں ۔

ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ عالمی برادری غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانوں کے ساتھ سرگرم عمل رہے گی کیونکہ ہمارے ملک کے استحکام اور ترقی کے لئے عالمی برادری کا تعاون ضروری ہے، ہم باہمی احترام کی بنیاد پر پائیدار امن اور خوشحالی کے میدان میں اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں، اپنی افواج کے انخلا کے بعد امریکہ بھی افغانستان میں ملک کی ترقی اور تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔

ہم اس اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے اور ان کے خدشات کو سنجیدگی سے دور کریں، افغانستان تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ، نیا افغانستان بین الاقوامی دنیا کا ذمہ دار ممبر ہوگا، ہم ان تمام بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے پابند رہیں گے جو اسلام کے مقدس دین کے اصولوں سے متصادم نہیں ہیں، ہم دوسرے ممالک سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کے استحکام اور خودمختاری کا احترام کریں اور ہماری آزادی اور استحکام کو باہمی تعاون کے طور پر دیکھیں، مقابلہ اور دشمنی کے طور پر نہیں ۔

اس وقت کا چیلینج ہمارے اور امریکہ کے مابین امن معاہدے پر عمل درآمد ہوگا، اگرچہ امریکی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کچھ اعتماد پیدا ہوا ہے لیکن جس طرح امریکہ ہم پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ہے ، ہمیں بھی اس پر اتنا اعتماد نہیں ہے ۔

ہم امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب ہیں، ہم اپنی جانب سے معاہدے کے ہر لفظ پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں لیکن معاہدے کے مفادات کا حصول ، کامیابی کی یقین دہانی اور دیرپا امن لانا بھی امریکہ پر منحصر ہے، امریکہ کو چاہیے کہ وہ دیرپا امن کے لئے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اس صورت میں مکمل اعتماد قائم کیا جاسکتا ہے جو مستقبل میں تعاون اور شراکت داری کی اساس ہے ۔

ہمارے ہم وطن بہت جلد اس تاریخی معاہدے کو منائیں گے ، جس پر عمل درآمد کے بعد تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا مشاہدہ کریں گے، جب ہم اس مرحلے کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو یہ بھی ممکن ہے کہ بہت جلد ہم اپنے تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر پائیدار امن اور ایک نئے افغانستان کی بنیاد کی طرف تحریک کا آغاز کریں گے ۔

تب ہم ایک نئی شروعات کا جشن منائیں گے اور ایسے افغانستان کی بنیاد رکھیں گے جو دیگر ممالک میں مقیم تمام افغان شہریوں کو اپنے ملک اور گھر کی طرف واپس آنے کی دعوت دے گا جہاں ہر ایک کو عزت اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے