نئی دہلی: (ویب ڈیسک)متنازع شہریت قانون کے خلاف شروع ہونے والے پر تشدد واقعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 23 ہو گئی ہے جبکہ مرنے والوں میں انٹیلی جنس افسر بھی شامل ہے۔ شمال مشرقی علاقوں میں زخمیوں کی تعداد 200 سے زائد ہو گئی ہے جبکہ بی جے پی کے دہشت گرد شناخت کرنے کے بعد مسلمانوں پر بدترین تشدد کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ فسادات میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو شناخت کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

واضح رہے کہ نئی دہلی میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس اور ہندو انتہا پسندوں نے اس وقت دھاوا بولا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر بھارت پہنچے۔

نئی دہلی میں ہونے والے احتجاج پر ہندو انتہا پسندوں کے حملوں کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی اور شہر کے شمال مشرقی علاقوں میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں ہلاکتیں 23 ہو گئی ہیں۔ نئی دہلی میں مسلمانوں کی املاک کے ساتھ ساتھ درگاہ، مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے علاقے چاند باغ میں ایک انٹیلی جنس افسر کی لاش ملی ہے، ہلاک ہونے والا انٹیلی جنس بیورو میں سکیورٹی اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز تھا۔ آئی بی افسر کی نعش نالے سے ملی ہے۔

اس سے قبل نئی دہلی ہائیکورٹ نے سماعت کے دوران دہلی پولیس پر سخت سرزنش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کی نا اہلی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔

نئی دہلی ہائیکورٹ نے یہ ریمارکس شہری کی طرف سے بی جے پی کے انتہا پسند رہنما انو راگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل شرما کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کے دوران دیئے۔

نئی دہلی ہائیکورٹ کا پولیس حکام کو کہنا تھا کہ ابھی تک کوئی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی، پولیس تماشا دیکھ رہی ہے ایف آئی آر درج نہیں کرینگے تو کارروائی کیے بڑھے گی۔

واضح رہے کہ درخواستگزار کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں شروع ہونے والے فسادات کے پیچھے بی جے پی کے رہنما انو راگ ٹھاکر ہیں جنہوں نے اشتعال انگیز بیانات دیئے تھے۔

دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ بھی مودی سرکار کے نقش قدم پر چل پڑی ہے جہاں پر عدالت عظمیٰ نے نئی دہلی کی ہائیکورٹ کو حکم دیا ہے کہ بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری نہ کیا جائے۔

دریں اثناء بھارتی دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے نئی دہلی میں کشمیر کا منظر ہے۔ فوج نے فلیگ مارچ کیا ہے۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے نئی دہلی فسادات پر کہا ہے کہ یہ سب کچھ پری پلان (منصوبہ بندی) کے تحت ہو رہا ہے، وزیر داخلہ نے گزشتہ روز ایکشن کیوں نہیں لایا جب مسلمانوں پر تشدد ہو رہا تھا، وزیراعلیٰ نئی دہلی کیجروال کی خاموشی بھی بہت سارے سوال اٹھا رہی ہے۔

مزید برآں بی جے پی رہنماؤں نے فسادات کے پیچھے بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کانگریس فسادات پر سیاست کر رہی ہے، 1984ء کے سکھ فسادات میں کانگریس کی جماعت اقتدار میں تھی۔ اور اس وقت کے وزیراعظم اندرا گاندھی نے فسادات کرنے والوں کی حمایت کی تھی۔

نئی دہلی کی صورتحال پر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی بنائی گئی ایک ویڈیو میں مسلمان نوجوان سرفراز علی نے ہندو انتہا پسندوں کے تشدد کے بارے میں بتایا۔

زخمی حالت میں نوجوان نے ایمبولینس میں بیان دیا کہ وہ اور اس کے والد ساتھ تھے کہ کچھ لوگوں نے ان سے نام پوچھے، انہیں گھیر لیا اور پھر نعرے لگانے کو کہا۔ اسے اور اس کے والد کو ہندو انتہا پسندوں نے ’جے شری رام‘ نعرے لگانے پر مجبور کیا جس کے بعد نوجوان سے شناختی کارڈ مانگا گیا۔

بی بی سی کی ویڈیو میں دکھائی گئی ایمبولینس بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کا شیشہ ٹوٹا ہوا ہے۔ ایمبولینس میں موجود ریسکیو اہلکار کا کہنا تھا کہ مریض کو طبی امداد کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ راستے میں موجود لوگوں نے گاڑی پر ڈنڈے سے حملہ کیا۔ جس گاڑی پر حملہ کیا گیا وہ سرکاری ہے، اس میں ہندو مسلمان سب کو علاج کے لیے لے جایا جاتا ہے۔

ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ نئی دہلی میں ہندو آبادی والے علاقوں میں جے شری رام کے نعرے لگائے جارہے تھے جبکہ کوئی بھی کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا۔ ویڈیو میں بات کرنے والے علاقے کے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ہر جگہ ڈر کا ماحول ہے اور ہر کوئی خوفزدہ ہے، انتظامیہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ہمارا ارادہ توڑ پھوڑ کا نہیں کیونکہ ہندوستان ہمارا بھی ہے اور دوسرے لوگوں کا بھی ہے۔

نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال زخمیوں کی عیادت کے لیے جی ٹی بی ہسپتال پہنچے۔ اور کہا کہ دہلی میں پچھلے دو دنوں میں ہونے والے تشدد سے پورا ملک پریشان ہے۔

بی بی سی کے مطابق راجیو نگر کی رہائشی کمیٹی کے جنرل سکریٹری اسلام الدین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں پر تشدد حالات کا موازنہ 1984 کے سکھ فسادات سے کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے