تحریر: سیف العادل احرار

امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہو گئے اور فریقین ایک حتمی نتیجے پر پہنچ گئے اور 29 فروری کو فریقین امن معاہدے پر دستخط کریں گے اس حساس موقع پر نام نہاد صدارتی الیکشن کے نتائج کا اچانک اور ڈرامائی انداز میں اعلان کرنا سوالیہ نشان ہے، اس کے پیچھے بھی ایک سازش کارفرما ہے اور سوال یہ ہے کہ امریکہ نے پانچ مہینوں کے بعد نازک وقت پر متنازعہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کی اجازت کیوں دی؟

امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان 16 ماہ کی بات چیت کے بعد (28 ستمبر 2018 سے فروری 2020 تک) فریقین نے تشدد کو کم کرنے کے لئے سات روزہ معاہدہ پر اتفاق کیا، یہ معاہدہ دراصل بڑے معاہدے اور صلح کی طرف پیش رفت کا پیش خیمہ ہے، 29 فروری کو فریقین قطر میں امن معاہدے پر دستخط کریں گے اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا، لیکن موجودہ صورتحال میں فریق مخالف کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا، جبکہ چند رہنماوں نے متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا، ان حالات میں طالبان بین الافغان مذاکرات کن کے ساتھ کریں گے، ملک میں سیاسی کشیدگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور ملک سیاسی طور عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی کے بغیر ہوا یہ ممکن نہیں ہے، اس لئے امارت اسلامیہ نے اپنے بیان میں امریکہ کی نیت پر شک کا اظہار کیا اور واضح طور پر کہا کہ اگر امریکہ اس میں ملوث نہیں ہے تو وہ اپنا موقف واضح کرے ۔

امریکہ نے ابھی تک اس حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے، امریکہ کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال اور انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور بہت جلد اپنا موقف پیش کریں گے، یہ خدشہ بھی ہے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کابل انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی وہ ایک ٹیم بنانے پر متفق ہو سکتے ہیں، اگر ایک متفقہ ٹیم بن بھی گئی تو یہ اختلاف جاری رہے گا کہ ٹیم کی سربراہی کون کرے گا، بین الافغان مذاکرات کی ناکامی اور رکاوٹوں کے بعد امریکہ یہ جواز پیش کرے گا کہ ہم نے طالبان کے ساتھ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا اور فوجی انخلا کا سلسلہ بھی شروع کر دیا لیکن افغان حلقے آپس میں متفق نہیں ہو سکتے ہیں اور مکمل فوجی انخلا کی صورت میں ملک میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے اس لئے ہم مجبور کریں کہ اس ملک میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھے، ممکن ہے کہ ان حالات میں کچھ افغان اور دیگر ممالک بھی امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ افغانستان میں مسائل کو حل کرنے تک اپنی موجودگی برقرار رکھے، امارت اسلامیہ نے امریکہ سے بجا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا موقف واضح کرے ۔

افغانستان کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں اشرف غنی کو 9 لاکھ کے قریب ووٹ پڑے ہیں جو کل آبادی کا پانچ فیصد بنتا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ فیصد رائے لینے والے شخص کو ملک پر حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے؟ کیا جمہوری قانون کے تحت وہ اکثریت عوام پر حق حکمرانی رکھتے ہیں؟ نام نہاد الیکشن سے قبل امارت اسلامیہ نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کریں، انتخابی فہرستوں میں نوے لاکھ افراد کے نام درج ہیں، نوے لاکھ میں سے محض 18 لاکھ افراد نے ووٹ کاسٹ کیا جن میں سے پچاس فیصد ووٹ اشرف غنی نے حاصل کیا، جبکہ ستر لاکھ افراد نے الیکشن سے بائیکاٹ کیا، اگر اس کو ریفرنڈم قرار دیا جائے تو جمہوری اصولوں کے مطابق فیصلہ اکثریت کے حق میں کیا جائے گا یا اقلیت کے حق میں؟ یہ بھی واضح ہوا کہ عوام کی نمائندہ جماعت کونسی ہے؟

امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے 18 برس کے دوران بہت ساری قربانیاں دی ہیں اور اب بھی اپنے ملک کے دفاع کے لئے پرعزم ہیں، وہ اسلام کی ہدایات کے مطابق وعدے کے پابند ہیں، امارت اسلامیہ کی قیادت نے امریکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ اس پر کاربند ہے، وہ مسلح جدوجہد اور سیاسی کوششوں کے ذریعے ملک پر ناجائز بیرونی قبضے کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے، اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ مجاہدین وعدے کے پابند بھی ہیں اور آپس میں متحد اور منظم بھی ہیں لیکن اگر کسی کو شک ہے تو وہ فریق مخالف کی نیت اور اس کے کردار پر ہے، کیونکہ چند ماہ قبل بھی فریقین حتمی نتیجے پر پہنچ چکے تھے لیکن اچانک امریکہ صدر نے ٹویٹ کر کے امن عمل کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا، اب بھی کچھ لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ امن عمل سے خائف عناصر امن منصوبہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھیں اور خود بھی امن معاہدے کی پاسداری کریں تاکہ افغانستان ایک طویل بحران سے نکل کر آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر قائم رہے ۔

امارت اسلامیہ کی قیادت کی پالیسی افغان عوام اور پڑوسی ممالک کے لئے قبول قبول ہے دنیا کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کے ساتھ باہمی رواداری پر مبنی تعلقات استوار رکھے، فوجی مداخلت کے بجائے باہمی تعاون پر مبنی پالیسی اختیار کرے، امارت اسلامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی ملک کے اندرونی معاملت میں مداخلت کرے گی اور نہ ہی کسی اور کو اپنے کے معاملات میں مداخلت کی اجازت دے گی، یہ بہترین اور قابل عمل فارمولہ ہے، مجاہدین ماضی میں بھی امن عمل پر یقین رکھتے تھے اور اب بھی سیاسی حل پر یقین رکھتے ہیں تاہم امریکہ کو 18 برس کی ناکام جنگ کے بعد ہوش آیا اور اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ اپنے وعدے اور معاہدے کی پاسداری کرے گا، اشرف غنی کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملک میں جو انارکی پھیل رہی ہے اور ملک سیاسی عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے بین الافغان مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، امارت اسلامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے لئے پرعزم ہے اور اس کے لئے ٹیم بھی تیار کی گئی ہے، 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد 5 ہزار قیدیوں کی رہائی اور اس کے بعد ملک کے سیاسی مستقبل، نظام حکومت اور دیگر ملکی معاملات پر افغان حلقے باہمی مذاکرات کریں گے ۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی کامیابی تک اشرف غنی صدر رہیں گے اور جب بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے تو ملک میں نیا سیاسی نظام قائم کیا جائے گا اور نئی حکومت میں تمام افغان شامل ہوں گے، ویسے موجودہ نظام اور کابل انتظامیہ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں ایک ایسا شخص جو عوام کی اکثریت اور تمام سیاسی جماعتیں اس کی مخالف ہو جبکہ ملک کے ستر فیصد رقبے پر حاکم اور سیاسی اور فوجی لحاظ سے سب سے بڑی منظم قوت اس کے وجود سے انکار کر رہی ہو ان حالات میں موجودہ نظام کی حیثیت کیا ہوگی، امید ہے کہ امارت اسلامیہ کی طرح تمام سیسای جماعتیں اور افغان نمائندے بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کے لئے پرعزم رہیں گے اور اپنا مثبت کردار ادا کریں گے تاکہ یہ ملک طویل بحران سے نکل آئے اور اس میں اسلامی نظام نافذ رہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے