ہفتہ وار تبصرہ

بہترین پیشرفت یہ ہے کہ اب افغان عوام اور خاص کر ملک کے سیاسی طبقات اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجودہ بحران اور جنگی مصائب کے  دوام کی بنیادی وجہ بیرونی جارحیت ہے اور جب تک بیرونی افواج ملک سے نہیں جاتیں،یہ موضوع حل نہیں ہوگا۔

حالیہ دنوں اور چند ہفتوں کے دوران مسلسل طور پر ملک کے طول و عرض سے جارحیت کے خاتمے اور صلح کی حمایت کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ سیاسی اشخاص، جماعتیں اور مختلف سماجی طبقات کے نمائندے اجلاسو ں کے انعقاد سے امریکی حکام کو بتلارہے ہیں ، کہ پرامن حل کے معاہدے پر دستخط کریں اور اس بارے میں نئے مطالبات، ملاحظات اور بہانے تراشنے سے گریز کریں۔

جارحیت کے خاتمے کے طلب گار اور صلح کی حمایت سے یہ صدائیں اگر ایک جانب امریکی حکام کو مخاطب کررہا ہے،تو دوسری طرف اشرف غنی کی قیادت میں صدارتی محل کے حکمرانوں کو  بھی متنبہ کررہی ہے، کہ اپنی کرپٹ اور غیرقانونی اقتدار کے بقاء کے لیے صلح کے خلاف رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔ حالیہ دونوں میں افغانوں نے بار بار امریکی افواج کی بمباریاں ، دیگر قاتل کاروائیوں،نیز  افغان فوجوں کے جابرانہ رات کے حملوں کی مذمت کی ہے اور اسے مفاہمت کی روح سے مغایر اعمال سمجھے ہیں۔

ملک کے طول و عرض سے ایسی صداؤں کے بلند ہونے کے معنی یہ ہے کہ اس وقت  ملک کے تمام باشندے جارحیت کے خاتمے کے موضوع پر متفق ہیں۔جمہوریت کے نعرے لگانے والے استعمار اور اس کے حامی اگر حقیقت میں افغان عوام کے ارادے کو تسلیم کرتا ہے،تو  انہیں چایہے کہ ان صداؤں کو دل کی گہرائیوں سے سن کر ان پر عمل کریں۔  استعمار اوراس کے حامی میڈیا پر سنسرشپ لگانے اور دیگر بہانوں سے افغان ملت کی صدا کو خاموش نہیں کرسکتی،بلکہ عوامی مطالبات کے سامنے ڈٹ جانے سے مزید تر قابل نفرت اور تنہا ہوسکتے ہیں۔

امارت اسلامیہ افغانستان اپنی مؤمن اور مظلوم ملت کی طرح جارحیت کے خاتمے پر اصرار کرتی ہے اور   اس بارے میں ہر نوع تعلل اور بہانہ جوئی کو موجودہ بحران  کے تداوم کا سبب سمجھتی ہے۔ اسی لیے امریکی حکام کو بتلاتی ہے، کہ صلح کے شروع ہونے والے عمل کی کامیابی اور ہدف تک پہنچنے کے شعبے میں اپنی ذمہ داری ادا  اور فی الفور اقدامات کریں۔

امارت اسلامیہ اپنی مؤمن ملت کی سعادت اور ملک کی آزادی کو خصوصی اہمیت دیتی ہے،اسی لیے جارحیت کے خاتمے کے لیے آغاز ہونیوالے مذاکراتی سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دی ہے اور اب تک اس عمل کو اہم ترین عمل کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہ اکیلے طور پر کچھ ہو ہی نہیں سکتا، تو مقابل فریق بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، تاخیر اور تعلل سے گریز سے گریں اور عوام کے مطالبات پر توجہ دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے