اَللہ تعالیٰ مہلک اور گندی بیماریوں سے تمام اَہلِ اِیمان کی حفاظت فرمائے…آمین
نظامِ فطرت سے چھیڑ چھاڑ اور کھلی بغاوت نے سارے عالَم کے نظام کو ہلا کر رَکھ دیا ۔موسم بے قابو اور بے حدود ہو چکے ہیں۔ ایک طرف پانی تباہی مچا رہا ہے ،تو دوسری طرف اس کی قلت اس وقت دُنیا کا سنگین ترین مسئلہ بن چکی ہے۔ جنگلات اور جنگلی حیات کے ساتھ اِنسانوں کے بُرے سلوک نے اِنسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور دنیا میں کروڑوں اِنسانوں کو اس وقت سانس لینے کے لئے تازہ ہوا دستیاب نہیں ہے۔ زَراعت کا سارا نظام تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ فصلوں کی بِجائی کے موسم بدل گئے۔ زہریلے بیجوں اور مصنوعی کھادوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کی ہوس نے زمین کی قوتِ نمو کو شدید متاثر کر دیا ہے۔ بنجر زمین بڑھ رہی ہے اور کار آمد زمین کھیتوں سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور پلازوں میں بدل رہی ہے ۔ پرندوں کی کتنی ہی اَقسام جن کے جھرمٹ ہم اپنے اِردگرد دیکھا کرتے تھے اس طرح ناپید و نابود ہو چکیں کہ اب اگر ان میں سے دو چار کی تعداد میں بھی کہیں کہیں نظر آ جائیں تو عجیب سی خوشی کا اِحساس ہوتا ہے۔ ہمارے بچوں کو تو اب شاید یہی علم ہو گا کہ ہماری بستیوں میں بس کوے اور چیل ہی پائے جاتے تھے۔ انسان نے اپنی بد اعمالیوں اور ہوس رانیوں کے ذریعے عذابوں کے آگے بندھے ہوئے بند کھول دئیے ہیں، اس لئے تسبیح کے ٹوٹ کر بکھر جانے والے دانوں کی طرح فتنے اور عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالی رحم فرمائے۔
مہلک اور تباہ کُن بیماریوں کا پے درپے پیدا ہونا بھی عذابوں کی ایک شکل ہے۔ ملحد ، بے دین اور اِلحاد زَدہ لوگ جب اس طرح کی باتیں سنتے ہیں تو فوراً اِعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر اَہل ایمان پر اِس طرح کی بیماریاں کیوں مسلط ہوتی ہیں؟ اسی طرح ماضی میں اس اُمت کے بہترین اور اَفضل ترین اَفراد پر طاعون وغیرہ جیسے وَبائی اَمراض پھوٹ پڑنے کے واقعات پیش کر کے وہ ان بیماریوں میں عذاب کے پہلو کے بیان پر معترض ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک بات سمجھ لیں!۔
اِن اَمراض میں بعض وہ ہیں جن کا سبب ہی بدکرداری یا کھانے پینے میں اُن چیزوں کا اِستعمال ہے جو شرعاً حرام کی گئی ہیں۔ یقیناً ایسی بیماریاں تو اُن لوگوں پر ہی مسلط ہوتی ہیں جو اُن اسباب کو اختیار کرتے ہیں جبکہ اگر کسی اہل ایمان کو بیماری اس گناہ میں ابتلاء کے بغیر کسی اور سبب سے لگ جائے تو اس کے حق میں یہ ان شاء اللہ گناہوں سے معافی اور بلندیٔ درجات کا ذریعہ بنیں گی۔ لیکن عموماً ایسا دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے اَمراض میں ا ِبتلاء ایسے لوگوں کا ہی ہوتا ہے جو ان کے اسباب کا اِرتکاب کرتے ہیں۔
جبکہ وہ امراض جن کا سبب گناہ یا حرام نہیں، وہ مومن کے حق میں اللہ رب العزت کی طرف سے گناہوں کی معافی اور بلندیٔ درجات کا یقینی ذریعہ ہیں جیسے طاعون اور ہیضہ جیسے اَمراض میں مومن صادق کی موت کو شہادت قرار دیا گیا ہے اور اگر ایمان کے ساتھ غور کیا جائے تو ایک ہی حالت کا دو اَفراد پر آنا ہمیشہ نہ تو ایک جیسے اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے نتائج کو دونوں کے حق میں برابر کہا جاتا ہے۔ ایک شخص کے لئے ایک حالت عذاب اور دوسرے کے لئے وہی حالت رحمت ہو سکتی ہے۔ جیسے قتل کیا جانا ایک ہی واقعہ میں ایک شخص کے حق میں عذاب اور سزا جبکہ دوسرے کے حق میں شہادت جیسی عظیم رَحمت اور اِنعام ہوتا ہے۔
اَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ،مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ( القلم )۔
جب ایسی عمومی معاشرتی یا خصوصی حالت پیش آ جائے جس میں عذاب اور سخطِ الٰہی کا پہلو نظر آ رہا ہو تو مومن کو سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے عذاب سے پناہ مانگے اور اس کا سب سے بہترین ذریعہ حضرت آقا محمد مدنی ﷺ کی تعلیم فرمودہ حفاظت کی اور عذاب سے پناہ کی دعائیں ہیں۔ حضرت آقا ﷺ محسنِ اَعظم ہیں اور آپ ﷺ کے ان عظیم احسانات میں سے یہ ہے کہ اُمت کو ایسی دعائیں تلقین فرمائیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضگی سے بچانے والی ہیں۔ دعاء مومن کی عظیم الشان عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بہت راضی کرنے والا عمل ہے اور پھر خاص طور پر جب یہ حضرت آقا ﷺ کے تلقین فرمودہ اَلفاظ میں ہو تو اس کی تاثیر ہزاروں گنا بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی بُری قلبی حالت تک پہنچنے سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے کہ اسے نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ نے ان فرامینِ عالیہ کے متعلق شک و شبہ آئے یا دعاء کی تاثیر کے بارے میں کوئی استہزائیہ کلمہ اس کی زبان سے صادر ہو۔ سوشل میڈیا پر اِنہماک کی لعنت نے بہت سے مسلمانوں کو اس مہلک بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حضرت محمد ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بستی وَبائی اَمراض کا گڑھ تھی۔ حضرات صحابہ کرام ان اَمراض میں مبتلا بھی ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے دعاء کے عظیم عمل کی بدولت ہی اس سرزمین کو دنیا کی بہترین آب و ہوا عطاء فرما دی۔ حضرت آقا مدنی ﷺ کی ارشاد فرمودہ ان دعاؤں کو جس نے بھی حرزِ جان بنایا اس نے ہزار ہا آفات و اَمراض سے نجات و حفاظت پائی۔ انسان اللہ و رسول پر مکمل ایمان و یقین کی حالت میں ہو۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خائف رہے اور اس سے پناہ مانگتا رہے۔ اپنے آپ کو عافیت کا محتاج سمجھے اور اس کا طالب رہے۔ دعاء کے عمل کے ساتھ جڑا رہے پھر اگر اس پر کوئی ظاہری مصیبت آ بھی جائے تو وہ اس کے حق میں مصیبت نہیں رہتی۔ مصیبت اور عذاب تو یہ ہے کہ انسان ابتلاء میں بھی آئے اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے بھی کٹا رہے۔
ایسی دعائیں بہت سی ہیں ۔ کتب میں عام چھپی ہوئی ہیں، ان میں سے جسے بھی معمول بنا لیا جائے ان شاء اللہ پورا نفع ہو گا۔ مثلاً
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَائِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
صبح شام تین تین بار کا معمول
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ
کا ہر نماز کے بعد معمول
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہِ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
صبح شام تین تین بار کا معمول
اور درود شریف کی کثرت جو ہر رحمت کے حصول اور ہر بلاء کے دفعیہ کا ضامن عمل ہے۔
دوسرا کام مومن کا یہ ہے کہ ایسی حالت میں اَسباب عذاب پر غور کرے اور انہیں دور کرنے کی پوری کوشش کرے۔ مصیبت اور آفات کا سبب گناہ ہیں اور یہ بات قرآن مجید میں حتمی طور پر ارشاد فرما دی گئی ہے۔ اور گناہوں سے اور ان کے وبال سے چھٹکارے کا واحد ذریعہ استغفار ( یعنی ان گناہوں پر معذرت) اور تو بہ ( یعنی ان سے بچنے کا عزم مصمم ) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ توبہ اور استغفار کرنے والوں کو وہ اپنے عذاب سے اَمن میں رکھیں گے۔
اس وقت ہمارا معاشرہ جن بڑی سختیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہے ان میں سے زیادہ تر پر غور کیا جائے تو ان کی جڑ اور اصل فاسق فاجر ظالم بے دین بدکردار اور عوام کے درد سے ناآشنا حکمران ہیں اور بُرے حکمران کا مسلط ہونا اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک شکل ہے جس سے پناہ مانگنے کا حکم آیا ہے۔ یہ عذاب بھی تو لوگوں پر ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے ہی آتا ہے۔
’’ کما تکونون یولیٰ علیکم ‘‘
اور ’’اعمالکم عمالکم ‘‘ مشہور ہیں۔ اس وقت نظام حکومت کے زیر سایہ مسط ہونے والے عذابوں پر ہر کوئی بلبلا رہا ہے اور چلا چلا کر اس عذاب سے نجات کا طالب ہے لیکن اس بات کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے کہ اس کے حقیقی سبب کا تدارک کیا جائے، جو ہمارے اپنے بُرے اعمال اور معاشرے میں نفوذ کر جانے والی بُری عادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کیسی کیسی شدید نافرمانیاں جس معاشرے کا جزو لا ینفک بن چکی ہوں اور وہ ان نافرمانیوں کے رہتے ہوئے عذاب سے نجات چاہیں ایسا بہت مشکل ہے۔ کفار کی ظاہری حالت سے کوئی مسلمان دھوکہ نہ کھائے کہ وہ ان بداعمالیوں کے باوجود امن و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کفار کا معاملہ تو الگ ہے۔ ان کے لئے آخرت میں دائمی جہنم ہے اس لئے ان کے جو چند اچھے اعمال دنیا میں ہوتے ہیں، اُن کے بدلے میں انہیں اسی دنیا میں جزاء کے طور پر یہ چیزیں دیدی جاتی ہیں۔ مسلمان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ اللہ رب العزت کو مان کر اس کی نافرمانی کرے، رسول اللہ ﷺ پر ایمان کا دعوی کر کے آپ ﷺ کے طریق سے اِنحراف کرے اور اس پر استغفار بھی نہ کرے اور توبہ بھی تو وہ دنیا میں اللہ رب العزت کے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔
لہٰذا ہم حکمرانوں کو ہر وقت کوسنے کی بجائے اصل کام کریں۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگیں ، توبہ استغفار کو معمول بنائیں، اپنی ذات اور معاشرے میں سدھار لانے کی عملی کوشش کا آغاز کریں اور اسلام کے نظامِ حکومت کے دنیا بھر میں قیام کے ضامن عمل ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کو اپنائیں تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی امن ، راحت ، غلبہ اور آخرت کی بھی اعلیٰ کامیابی عطاء فرمائیں گے