آج کی بات

کابل انتظامیہ کے نام نہاد سیکیورٹی مشیر نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی فورسز چوکیاں اور علاقے کھو رہی ہیں اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے کہ اگلا سال بہتر ہوگا ۔

موجودہ قومی سلامتی کے مشیر کی طرح مختلف اعلی حکام کی جانب سے مبینہ طور پر حقائق کو تسلیم کرنا اپنی جگہ ایک نئی پیشرفت ہے کیونکہ اس نے صرف چار ماہ میں طالبان کو شکست دینے کا وعدہ کیا تھا ۔

2019 افغانستان کے لئے ایک اور خونی سال تھا، غیر ملکی قابض افواج اور افغان فورسز کے چھاپوں اور فضائی حملوں نے ایک دہائی کا ریکارڈ توڑ دیا، حمداللہ محب نے گزشتہ سال جون میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ہم نے کارروائیوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھا تو چار ماہ میں طالبان کو بدترین شکست دے دیں گے ۔

2019 کے آخر تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چھاپوں اور حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا تھا لیکن چھ ماہ بعد حمداللہ محب نے خود اعتراف کیا کہ طالبان کی بجائے ان کی اپنی فورسز کی کمر توڑ گئی ہے ۔

تاہم سوال یہ ہے کہ افغان فورسز کیوں روزانہ علاقے اور چوکیاں چھوڑ کر فرار ہو رہی ہیں؟ حالیہ تحقیقات کے مطابق طالبان اس وقت ملک کی 70 فیصد سے زیادہ سرزمین پر اثر ورسوخ رکھتے ہیں، زیادہ تر چوکیاں بڑے شہروں سے باہر دور دراز علاقوں میں قائم ہیں جہاں طالبان آزادانہ طور پر سرگرم عمل ہیں ۔

دشمن کی چوکیوں کو نشانہ بنانا طالبان کے بہترین اہداف میں شامل ہیں کیونکہ ایک تو آس پاس طالبان کے علاقے ہیں اور دوسرا افغان فورسز اپنی چوکیوں میں ہر وقت خوف زدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور ان کے حوصلے اتنے پست ہو گئے ہیں کہ پہلی گولی چلنے سے بھی وہ پسپائی اختیار کر لیتی ہیں ۔

ان کے حوصلے پست ہونے کی ایک وجہ نظریہ بھی ہے جس نے انہیں موت کے منہ تک پہنچایا ، صرف پیسوں کی لالچ کی وجہ سے انہوں نے دونوں جہانوں کو داو پر لگایا ہے اور اپنی زندگی اور آخرت برباد کر رہی ہیں، چونکہ افغان فورسز کا مورال اور حوصلے مضبوط نہیں ہیں ، اس پر کابل انتظامیہ نے کبھی غور نہیں کیا ہے، ان کی اجرت نہیں دی جارہی ہے ، اور ان کی قیادت کرپٹ ہے، ان تمام وجوہات کی بنیاد پر افغان فورسز طالبان کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہے

چوکیوں سے پسپائی اور بھاری جانی نقصان سے بچنے کے لئے کابل انتظامیہ نے اب چوکیوں کو دور دراز علاقوں سے شہر منتقل کردیا ہے یا ان چوکیوں کو بڑے فوجی بیسوں میں تبدیل کر رہی ہے، چوکیوں سے پسپائی کی روک تھام کی کوششیں پچھلے دو سالوں سے جاری ہیں لیکن قومی سلامتی کے مشیر دو سال گزرنے کے بعد بھی شکایت کر رہا ہے لہذا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مستقبل میں اس کا کوئی حل نکالا جائے گا، فورسز کی بوکھلاہٹ اور پسپائی کے ساتھ مجاہدین بڑے شہروں تک پہنچ جائیں گے اور پھر قندوز اور پل خمری کی طرح چند گھنٹوں میں بڑے شہروں کو بھی فتح کریں گے ۔ ان شاء اللہ

بشکریہ الامارہ ویب سائٹ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے