وَفا ء کی ہے دعوت مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ دوست ہیں ایمان والوں کے… وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر ’’نور‘‘ میں لے آتے ہیں
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّوْرِ
یا اللہ! ہم پر بھی…وہ رحمت فرمائیے… جو آپ کے غضب سے آگے ہے… ہم اندھیروں ، پردوں اور حجابوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں… آپ کو پکار رہے ہیں
یا اللہ… یا اللہ… یا اللہ
آپ پر ایمان کا اعلان کر رہے ہیں
لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ
آپ کے محبوب آخری نبی ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں
محمد رسول اللہ… محمد رسول اللہ… محمد رسول اللہ
آپ کے حکم پر … اپنے آقا ﷺ پر… صلوٰۃ و سلام بھیج رہے ہیں
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ… اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ
یا اللہ… ہمیں بھی اپنی ’’ولایت‘‘ یعنی دوستی کا مزا چکھا دیجئے… ہمارے کالے دل پاک فرما دیجئے… ہمارے پردے اور حجاب ہٹا دیجئے… ہمیں بھی… نور، روشنی اور اپنا راستہ عطاء فرما دیجئے
یا نور…یا نور…یا نور …یا اللہ …یا رحمن یا رحیم
ہمیں ایسا ایمان عطاء فرما دیجئے… جو سدا ہمارے ساتھ رہے… اور ہمارے دل یہ آواز سنیں
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے دوست ہیں
آپ کا احسان کہ آپ نے ہمیں… کلمہ طیبہ دیا… ہمیں حضرت آقا مدنی ﷺ دئیے
ہمیں قرآن عطاء فرمایا… ہمیں مکہ مکہ دیا… ہمیں مدینہ مدینہ دیا
الحمد للہ رب العالمین… الحمد للہ رب العالمین… الحمد للہ رب العالمین
یا اللہ… ہمیں ’’ایمان‘‘ کی قدر عطاء فرما دیجئے… ہمیں ’’وفائ‘‘ عطاء فرما دیجئے… ہمیں استقامت عطاء فرما دیجئے… اور اپنی ملاقات کے وقت ہمیں اِسلام و اِیمان کی حالت میں اُٹھائیے
رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ
مدینہ مدینہ سے …وفاء کی دعوت آ رہی ہے… وفاء کی خوشبو آ رہی ہے… وفاء کی محبت آ رہی ہے… ہمیں اس دعوت پر … اس زمانے میں ’’ لبیک ‘‘ کہنے والوں میں سے بنا لیجئے
اندھیروں سے یارب ہمیں تو بچا لے
ذرا نور کی اک جھلک تو دکھا دے
ہمیں تو سکھا دے ، دِلوں میں بسا دے
مدینہ مدینہ … مدینہ مدینہ
٭…٭…٭
مدینہ مدینہ سے یہ دعوت چلی کہ… بس ہر حال میں… وفادار رہنا ہے… مکہ مکرمہ میں بھی یہی دعوت چلتی رہی… وفاء وفاء اور وفائ… ماحول ملے یا نہ ملے… نتیجہ نظر آئے یا نہ آئے… حالات موافق ہوں یا مخالف… ہر حالت میں …وفائ… اللہ تعالیٰ سے وفائ… حضرت محمد ﷺ سے وفائ… دین اسلام کے ساتھ وفائ…
قصہ سنا کر سمجھایا گیا کہ…وفاء کا مطلب سمجھنا ہے تو… اس عظیم خاتون کو دیکھ لو… جو موت کے وقت مسکرا رہی ہے… فرعون کی بیوی… حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا… سبحان اللہ… ماحول کیسا اور عقیدہ کیسا؟ …فرعون نے پہلی بار… جب ان کے منہ سے کلمۂ ایمان سنا تو لرز کر رہ گیا… وہ تو… آج کل کے لوگوں کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ… ایمان لانا… ایمان کی بات کرنا بھوکے ننگے لوگوں کا کام ہے… اونچے درباروں میں ایمان کا کیا کام ؟ … استغفر اللہ، استغفر اللہ … پھر وہ تو خود کو… خدا کہلواتا تھا…سپر پاور… ترقی یافتہ اور طاقتور… حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا کو کس چیز کی کمی تھی… وہ تو اس مقام پر تھی کہ… جس تک پہنچنے کے لئے… لاکھوں لڑکیاں اور عورتیں ترستی رہیں… وہ اس منصب پر تھیں کہ… ان کا ہر عمل… معاشرے کا فیشن اور عزت کا برانڈ بن جاتا تھا…مگر انہوں نے… اللہ تعالیٰ کو پا لیا… ایمان کو پا لیا… اور پھر اس ایمان کی ایسی قدر کی کہ…خود ’’وفائ‘‘ کی مثال بن گئیں… اصل میں ’’ایمان‘‘ ہے ہی اتنی اونچی چیز کہ… یہ جسے نصیب ہو جائے… اس کے نزدیک … پھر کوئی چیز بھی ’’ایمان‘‘ کے برابر نہیں ہو سکتی… نہ بادشاہت، نہ دولت… نہ ظاہری عزت … اور نہ عیش و عشرت
ہم جو قدم قدم پر پھسل جاتے ہیں… اس کی وجہ یہ ہے کہ… ہر چیز کی قدرو قیمت ہمارے دلوں میں ہے مگر ’’ایمان‘‘ کا اصل مقام … ہم سے اوجھل ہے… اسی لئے ہم چند لمحے فیشن پرستوں میں جا بیٹھیں تو ہمیں… نعوذ باللہ … اپنی داڑھی اور پگڑی تک پر… شرم آنے لگتی ہے
فرعون پاگلوں کی طرح دھاڑ رہا تھا… اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ… خود اس کے گھر میں… ایمان اس طرح سے چمکے گا… اس نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کی… مگر… ایمان بہت اونچی نعمت ہے… بہت ہی اونچی… بہت ہی عظیم … بلکہ سب سے عظیم نعمت … یا اللہ! ہم پر بھی… ایمان کا مقام کھول دیجئے… لالچ ، بہکاوے اور ترغیب سے کام نہ چلا توفرعون…تشدد پر اتر آیا… اب شروع ہو گیا …وفاء کا امتحان
وہ جو پیدا ہی ایک بادشاہ کے گھر ہوئی تھی… وہ جو جوان ہوتے ہی ایک عظیم سلطنت کی ملکہ بن گئی تھی… وہ جو… کسی ادنیٰ تکلیف کا تجربہ بھی نہ رکھتی تھی… اسے دھوپ میں باندھ دیا گیا… سر پر ایک چٹان لٹکا دی گئی… پھولوں اور ریشم کے بستر کی عادی… آج برستے کوڑوں کی زد میں تھی… آسمان جھک جھک کر اسے دیکھ رہا تھا… زمین اس پر حیران تھی… ملائکہ جوق در جوق حاضر تھے… فرعون پاگل کتے کی طرح بے قابو ہو کر… آخری دھمکی تک… جا پہنچا تھا کہ… اب نہ مانی تو … اتنی بڑی چٹان اس پر گرا دی جائے گی… تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں … اتنی بڑی چٹان نازک بدن پر گرے تو… ہڈیوں کا بھی چورا بنا دے… مگر … یہاں کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں تھا… کوئی دوسری سوچ… کوئی دوسرا مقصد قریب بھی نہیں تھا… یہی ہوتا ہے سچا ایمان… کہ جب وہ مل جائے تو … بس ایک ہی خواہش باقی رہ جاتی ہے کہ … یااللہ… یہ ایمان میرے ساتھ جائے … اسی ایمان پر موت آئے… جب ایمان پر مرنا ہی… عشق بن جائے تو پھر… ایمان والی موت سے ڈرنے کا کیا مطلب؟ … اس اللہ کی بندی نے… آخری وقت کو قریب محسوس کیا تو فوراً … مقام وفاء سے… ایک درخواست بھیج دی
رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ
یا اللہ … اپنے قریب… جنت میں مکان دے دیجئے
سبحان اللہ ! کیا ذوق تھا اور کیا ایمان… بے شک جو ’’ایمان‘‘ کی قدر کرے… اور وفاء کو نبھائے… اس کا مقام بے حد اونچا ہو جاتا ہے…موت کے وقت کتنا خوف ہوتا ہے؟ بچنے اور زندہ رہنے کی کتنی خواہش ہوتی ہے؟ … پھانسی پانے والوں کے قصے سنیں… ان میں سے اکثر آخری وقت تک… زندہ رہنے کی فکر میں… لرزتے رہتے ہیں…اور خوف ان کے حواس پر چھا جاتا ہے… مگر یہاں ایک تنہا ’’عورت‘‘ چاروں طرف وحشی درندے… موت بالکل سر پر… مگر … نہ خوف نہ پریشانی…یہ ہے ایمان کی قدر کہ… ایمان میرے پاس ہے مجھے اور کیا چاہیے؟ … ایمان میرے ساتھ مجھے اور کیا چاہیے؟ … اس لئے اتنے خوفناک لمحات میں… ایسی اونچی دعاء اطمینان سے مانگ لی… اور قبول کروا لی… وفاء والوں کی دعائ… کہاں ٹھکرائی جاتی ہے… اب وفاء والوں کے لئے … اللہ تعالیٰ کا نظام دیکھیں… آسیہ رضی اللہ عنہا … نہ رسول تھیں نہ نبی… جنت میں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب محلات تو … حضرات انبیاء اور رسولوں کے ہونے ہیں… کوئی کتنا بڑی ولی، مجاہد، شہید ، صدیق بن جائے… وہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے برابر تو نہیں ہو سکتا…پھر حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام میں… جو سب سے افضل ہوں گے وہ دوسروں کی بنسبت جنت میں … اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوں گے… جنت آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ہے… اب عرش کے نیچے… سب سے پہلا محل تو سید الانبیاء والمرسلین … حضرت محمد ﷺ کا ہو گا… جبکہ یہاں ایک مظلوم ایمان والی بندی… اللہ تعالیٰ کے قرب میں…محل مانگ رہی ہے… وفاء کا مقام دیکھیں… حضرت سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا کے لئے… اسی پہلے محل میں… ملکہ بن کر رہنے کا انتظام فرما دیا گیا… وہ جنت میں… ام المومنین بنیں گی… حضرت آقا مدنی ﷺ کے نکاح میں آئیں گی… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم … ایمان والی بیوی نے تو جنت میں ایمان والے خاوند کے ساتھ ہی رہنا ہے… چنانچہ پہلے محل میں… وہ بھی ہوں گی… ان کو آخری وقت میں یہ محل دکھایا گیا… وہ محل کیسا ہو گا؟ … دنیا کے انسان کی عقل اس کو نہیں سمجھ سکتی… وہ اس محل کو دیکھنے میں ایسی مدہوش ہوئیں کہ انہیں چٹان کے گرنے کا پتا تک نہ چلا… ان کی روح آسانی ، راحت ، عزت، مقام اور خوشی کے ساتھ… ان کے جسم سے الگ ہو کر… اللہ تعالیٰ کی طرف محو پرواز ہو گئی… نہ کوئی درد… نہ کوئی سکرات… نہ کوئی خوف… نہ کوئی نقصان…
مکہ مکرمہ … اور مدینہ مدینہ سے وفاء کی یہ دعوت چلی تو… جنت آباد ہوتی چلی گئی… انسانیت کا سر اونچا ہوتا چلا گیا… تاریخ اپنے حسین ترین دور کو لکھنے لگی… اور ہر طرف وفاداروں کی قطاریں ہی قطاریں لگ گئیں… حضرات صحابہ کرام… اور صحابیات مکرمات کے واقعات پڑھیں… ایمان کی قدر … اور ایمان کے ساتھ وفائ… یہ دو چیزیں پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہیں… تاریخ کے صفحات کھولتے جائیں… فرعون مصر کے دربار میں… وفا کی جو مثال رقم ہوئی تھی… وہ مکہ اور مدینہ میں قدم قدم پر نظر آتی ہے… اور پھر یہاں سے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے
وفاء کی ہے دعوت … مدینہ مدینہ
وفاء کی ہے عظمت … مدینہ مدینہ
وفاء کی بلندی … مدینہ مدینہ
وفاء کی ہے خوشبو … مدینہ مدینہ
٭…٭…٭
ادنیٰ سا قلم… چھوٹا سا مضمون… معمولی سی معلومات…کمزور سا دل… اور لکھنے بیٹھ گیا ہوں … وفاء کی داستان… یا اللہ رحم فرمائیے… مجھے بھی وفاء چکھائیے… کتنے مناظر ذہن میں مچل رہے ہیں… بس ایک دو کی جھلک دیکھ لیجئے… مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جانے کا حکم آیا تو… اہل وفاء نے فوراً اپنا وطن چھوڑ دیا… کہنا اور لکھنا آسان ہے… عمل بہت مشکل ہے… بنے بنائے گھر… جمے جمائے کاروبار… مٹی اور رشتہ داری کا اُنس… سب کچھ ایک ہی لمحے میں قربان… مگر کچھ کمزور ، معذور اور بے بس مسلمان… ہجرت نہ کر سکے… قرآن مجید نے بار بار ان کی معافی کا اعلان فرمایا… مگر وہ … درد اور غم کے انگاروں پر لوٹ رہے تھے… وہ مکہ مکرمہ میں تھے مگر ان کے دل اور کان… مدینہ مدینہ سے جڑے ہوئے تھے… ہجرت کی کوئی آیت نازل ہوتی تو ان تک بھی پہنچ جاتی… اور وہ درد سے تڑپ کر رہ جاتے… ان میں ایک صاحب تھے… حضرت جندب بن ضمرہ رضی اللہ عنہ… بہت بوڑھے، کمزور، چلنے پھرنے سے معذور… بعض روایات میں تو یہاں تک آیا ہے کہ وہ … نابینا بھی تھے… جب ہجرت نہ کرنے پر وعید کی ایک آیت نازل ہوئی تو بے قرار ہو گئے… مالدار تھے… فیصلہ کیا کہ… مال کو ہی اپنی بیساکھی اور اپنی آنکھیں بناتا ہوں… وفاء دیکھیں وفائ… اتنی عمر میں انسان کے جذبات کس قدر کمزور اور سرد پڑ جاتے ہیں… اور حوصلہ تو دو قدم کی تاب نہیں رکھتا… جبکہ یہاں… خطرات بھی بے شمار تھے… مگر انہوں نے … رخت سفر باندھا… مال دے کر اپنے بیٹوں یا مزدوروں کو راضی کیا کہ مجھے اُٹھا کر… مدینہ مدینہ لے جائیں… اللہ اکبر کبیرا… پھر وہ منظر قائم ہوا کہ… آسمان جھک کر زمین کو رشک سے دیکھنے لگا… حضرت کو چارپائی پر لاد کر اٹھایا گیا اور چار سو کلومیٹر کا سفر شروع ہوا… اللہ تعالیٰ کے ہاں…وفاء کا امتحان بہت لمبا اور ناقابل برداشت نہیں ہوتا… ابھی مقام تنعیم تک ہی پہنچے تھے …یعنی مکہ مکرمہ سے تھوڑا باہر(جہاں آج کل مسجد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے اور عمرہ کرنے والے وہاں سے احرام باندھتے ہیں)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے… پیغام ملاقات آ گیا… اسی حالت میں وفات پائی اور وہیں تدفین ہوئی … بظاہر گمنامی … کسمپرسی اور مسافری کی موت… مگر… عرشِ الٰہی سے ان کی تعریف اور شان میں… آیات نازل ہوئیں
وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِراً اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَِ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ
اور اس کمزور… مہاجر فی سبیل اللہ کو وَفاء کی مثال قرار دے کر… اعلان کر دیا گیا کہ جو بھی… اسی طرح ہمارے لئے نکلے گا… وہ منزل تک پہنچے یا نہ پہنچے… ہم تک ضرور پہنچ جائے گا… اور ہم نے … اس کے اجر و انعام کو … اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے…
بھائیو! اور بہنو!… آج ہر طرف بہت اندھیرا ہے… ہر مفکر، ہر دانشور، ہر بظاہر پڑھا لکھا آدمی… مسلمانوں کے دل سے… ایمان کی قدرکو کھرچ کھرچ کر نکال رہا ہے… حالانکہ… حقیقت یہ ہے کہ… جس کے پاس ایمان ہے اسی کے پاس سب کچھ ہے… اور جس کے پاس ایمان نہیں… اس کے پاس کچھ بھی نہیں… وہ مردہ ہے… وہ مردار ہے… وہ ناکام ہے… وہ ذلیل ہے… مگر آج ہمیں بار بار سمجھایا جا رہا ہے کہ نہیں… بے ایمان کافر… ہم مسلمانوں سے اچھے ہیں… نعوذ باللہ، نعوذ باللہ… وہ چاند تک پہنچ گئے… انہوں نے یہ بنا لیا وہ بنا لیا… ہمیں ان جیسا بننا ہو گا… وغیرہ وغیرہ… ایمان کی اس ناقدری نے… وفاء کے بازار کو بھی سرد کر دیا ہے… ہم تھوڑی سی لالچ… تھوڑے سے خوف… اور ماحول کی تھوڑی سی تبدیلی سے… گھبرا جاتے ہیں… اور ایمان سے دور ہو جاتے ہیں… وہ دیکھو … قرآن مجید قسمیں کھا کھا کر سنا رہا ہے کہ… ایمان والوں کے سوا سب خسارے میں ہیں… وہ ارب پتی ہوں یا حکمران… ان سب نے خالی ہاتھ مر جانا ہے… اور آگے اُن کے لئے …ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے… سوائے عذاب اور خسارے کے کچھ بھی نہیں ہے
مدینہ مدینہ ہمیں… وفاء کی داستانیں سنا رہا ہے… اہل وفاء دنیا سے چلے گئے… مگر اچھی جگہ گئے… اور بے وفاء بھی دنیا چھوڑ گئے… مگر وہ بدترین جگہ پر گئے… اللہ تعالیٰ دین اسلام کے فدائیوں کو… ساری امت کی طرف سے ’’جزائے خیر‘‘ عطاء فرمائیں… انہوں نے اس دور میں بھی… وفاء کے بازار کو گرم رکھا ہوا ہے… وہ دیکھو! کشمیر کے راستے میں… جموں کے پاس … وفاء کے تین پھول …مسکرا رہے ہیں … ہاں بے شک … اُن کا حق ہے کہ… مسکرائیں …خوب مسکرائیں…
یہ ایماں کی دولت … یہ کلمے کی لذت
وفاؤں کے رَستے … شہادت کی لذت
میسر ہے سب کچھ … مِرے پاس آؤ
صدا دے رہا ہے … مدینہ مدینہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وصل وسلم علیہ تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے