بنکاک: (ویب ڈیسک) اس دوائی کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اسے تھائی لینڈ میں کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں چھپنے والی خبر کے مطابق اس دوائی کو ایچ آئی وی اور نزلے میں استعمال ہونے والی ادویات کو اکھٹا کرکے تیار کیا گیا ہے۔

اس دوا کو کرونا وائرس سے شدید متاثر افراد کے علاج کیلئے ٹیسٹ کیا گیا تو 48 گھنٹوں کے اندر بہت ہی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ اس نی دوائی کو بنکاک کے ہسپتال میں زیر علاج مریضوں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

راجہوتھی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ چینی صوبے ووہان کی رہائشی ضعیف خاتون سمیت کرونا وائرس سے متاثرہ دیگر افراد پر یہ نیا طریقہ علاج اختیار کیا گیا ہے۔

ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ جن مریضوں پر اس دوائی کا ٹیسٹ کیا گیا ان کے دس دن پہلے کرونا وائرس مثبت آیا تھا۔ تاہم اس دوائی کے استعمال کے صرف 48 گھنٹوں بعد ان میں کرونا وائرس نہیں پایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ طریقہ علاج کارگر ثابت ہو رہا ہے لیکن اسے کرونا وائرس کے سدباب کیلئے اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ادھر خبریں ہیں کہ چین میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کو نزلے اور ایچ آئی وی کی ادویات ملا کر دی جا رہی ہیں جس سے ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تھائی لینڈ کے 19 شہریوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ ان میں 8 افراد صحتیاب ہسپتالوں سے ڈسچارج ہو چکے ہیں جبکہ 11 کا اب بھی علاج جاری ہے۔ ابتدائی طور پر صرف شدید متاثرہ لوگوں کو ہی یہ دوا استعمال کروائی جا رہی ہے۔

ادھر کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ چین سے باہر بھی ایک ہلاکت ہو گئی ہے۔ فلپائن حکام نے خطرناک وائرس سے مرنے والے کی تصدیق کر دی ہے۔ متعدد ممالک نے چین سے آنے والوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ وائرس سے ہلاکتوں کی کل تعداد 304 تک پہنچ گئی جبکہ 15 ہزار سے زائد افراد متاثرہ ہیں۔

چین میں سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ ہبئی میں ہوئیں۔ جان لیوا وائرس سے اب تک دنیا کے 24 ممالک متاثر ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا، امریکا، جاپان، روس اور اٹلی نے چین سے آنے والوں پر پابندی لگا دی ہے۔

امریکا اور آسٹریلیا کا کہنا ہے ایسے تمام غیر ملکی جو حالیہ دنوں میں چین کا وزٹ کر چکے ہیں، ان پر بھی ملک میں آنے پر پابندی ہو گی۔ کرونا وائرس کی وبا دسمبر میں چینی شہر ووہان سے شروع ہوئی جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے