ہفتہ وار تبصرہ

تقریبا 70 برس سے زیادہ عرصہ  بیت چکا ہےکہ فلسطین مظلومیت اور حقہ حقوق سے محرومیت کی علامت بن چکا ہے۔  روئے زمین کے مظلوم ترین عوام فلسطینی مسلمان ہیں ،جس کی  تاریخی  سرزمین (فلسطین) کی 85٪زمین پر زبردستی قبضہ کیا جاچکا ہے اوراہل فلسطین کی نصف آبادی ہمسائیہ ممالک اور دنیا کے کونے کونے میں مہاجر اور جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔  افغان ملت جنہوں نے فلسطین عوام کی طرح جنگ، جلاوطنی اور جارحیت کے مصائب برداشت کیں، اہل فلسطین کے درد کا ہر کسی سے اچھی طرح افغان عوام احساس کررہا ہے۔

مگر عالمی استعمار کا کلیجہ تاحال نہتے فلسطینی عوام کےخلاف ٹھنڈا نہیں ہے اور فی الحال مصروف عمل ہے اور  نئے جابرانہ منصوبے پیش کرنے سے فلسطین کے کچھ باقی حصے کو قبضہ کرنا چاہتا ہے،تاکہ اس مظلوم ملت کو تمام حقوق سے محروم کریں۔

فلسطینی ملت کے حقوق پر پہلا حملہ اس وقت ہوا،جب تقریبا 70برس قبل ان کی سرزمین پر ایک صہیونی حکومت قائم ہوئی اور فلسطینی مسلمانوں کے نصف سے زیادہ سرزمین پر قبضہ کرلیا۔اس کے بعد 1967ء میں صہیونستی رژیم نے فلسطینی مسلمانوں کے باقی سرزمین کو بھی قبضے میں لیا،مسجد اقصی سمیت مشرقی بیت المقدس کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا اور مسلمانوں کی زمینوں پر بستیوں کی تعمیر کا آغاز کرلیا۔حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کی جانب سے (ڈیل ‌آف دی سینچری) کے نام سے جو منصوبہ اعلان کیا گیا،اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی زمین اور خاص کر بیت المقدس پر صہیونی جارحیت کو جواز فراہم کریں اور فلسطین کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے حقوق کے دعوے سے منصرف کریں۔

اگر ایک جانب مسلمانوں کا پہلا قبلہ (مسجداقصی) کا قبضہ امت مسلمہ کا مشترکہ قضیہ ہے،جس کے متعلق اپنی دینی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہیے، دوسری طرف ایک انسانی معاشرے کی حیثیت سے فلسطینی ملت کے حقوق کا غصب ایک ایسا صریح اور واضح ظلم ہے،جسکے خلاف تمام دنیا کو  اٹھ کر کھڑا ہونا چاہیے اور اس کے روک تھام کی کوشش کریں۔

اگر عالمی سطح پر انسانی ضمیر  زندہ ہے اور دنیا میں جنگل کا قانون نافذ نہیں ہے، تو  اسے اجازت نہیں دی جائے کہ ایک مکمل ملت کو محوہ کرنے کی سازش عملی  ہوجائے اور  فلسطینی اپنے ملک اور زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے۔

امارت اسلامیہ افغانستان نے ہمیشہ فلسطینی مظلوم ملت سے اپنی دینی اخوت او ہمدردی کا اعلان کیا ہے، حالیہ سازش کے متعلق بھی مخالفت کی صدا بلند کرتی ہے  اور اسے اہل فلسطین کے حقوق پر واضح تجاوز سمجھتی ہے۔ اسلامی ممالک اور وہ تمام فریق جو عدالت کی اصل پر یقین رکھتاہے،انہیں چاہیے کہ ظلم، غصب اور تجاوز  کے اس جابرانہ منصوبے کو عملی ہونے کی اجازت نہ دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے