ہفتہ وار تبصرہ

گذشتہ دو دن کے دوران کٹھ پتلی انتظامیہ کی قیادت کے دو اہم رہنماؤں نے اپنے اپنے بیانات میں ثابت کردیا کہ صدارتی محل کے مزدور حکمران کسی صورت میں افغانستان کے موجودہ بحران کے پرامن حل کے لیے آمادہ نہیں ہے اور اس کی زیادہ کوشش یہ ہے کہ کس طرح آگ کے شعلے  تازہ اور گرم رہے۔

اس حال میں کہ مملکت قطر میں مذاکراتی عمل ایک مرحلے کے قریب ہوچکا ہے  اور ملک کے اندر اہل وطن کے دلوں میں امن کی امیدوں کی کرنیں ابھر رہی ہیں،صدارتی محل کے بےاختیار حکمران اشرف غنی نے سوئس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران نہ صرف امن عمل کی واضح  مخالفت کی، بلکہ مزید غیر ذمہ دارانہ بات چیت بھی کی ۔

اشرف غنی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے الیکشن ٹیم کے نائب نے کابل میں صلح کے عنوان سے منعقدہ ہونیوالی تقریب سے خطاب کے دوران جنگ جاری رکھنے کی صدائیں بلند کیں اور صراحت سے کہا کہ انہیں امن عمل پر یقین نہیں ہے، اشرف غنی کے نائب نے کہا کہ اگر امریکا  افغانستان سے انخلا بھی کریں، تو تب بھی جنگ  جاری رہیگی ۔ مگرانہوں نے اس کو فراموش کیا کہ امریکی انخلا کا معنی یہ ہے کہ افواج کی طرح ان کے تمام تربیت یافتہ جاسوس بھی افغانستان سے نکل جائیں گے،  اسی لیے انہیں افغانستان کی حالت خراب کروانے کا موقع نہیں ملے گا۔

اشرف غنی اور ان کے نائب کی جانب سے امن عمل کے اس واضح اور صریح مخالفت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بےخاصیت گروہ جو اجنبی غاصبوں کے ہر حکم کے لیے دست بدستہ کھڑے ہیں، مگر افغان عوام کے لیے پرامن زندگی برداشت نہیں کرسکتی،ان کا اس ملت اور ملک سے کسی قسم کی ہمدردی اور رشتہ داری نہیں ہے۔ جیسا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ اجنبی سے وابستہ ہے،اسی طرح ان کا نظریہ، عاطفہ، اقدار اور معیار بھی اجنبی ہیں،  اسی لیے نیویارک اور واشنگٹن کے لیے امن مگر کابل اور قندہار کےلیے جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

امارت اسلامیہ کا یقین ہے کہ جارح افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کا موجودہ بحران ختم ہوجائیگا۔ طویل جنگوں سے متاثر افغان ملت کسی اجنبی غلام اور بےافتخار جاسوس کو اجازت نہیں دیگی، کہ جنگ کے آگ کو گرم رکھے۔ افغان مؤمن اور حریت پسند ملت کو بیرونی جاسوسوں  کو زدوکوب اور ماربھگانے کا تجربہ ہے۔ افغان ملت کے جہادی عزم کے سامنے اجنبی مخبروں کے آقا قدم نہیں جماسکتے، تو ان کے غلام کسی صورت میں بھی شرارت کو جاری نہیں رکھ سکے گی۔

اہل وطن جانتے ہیں کہ امن کے خلاف ملک دشمن غلام عناصر کےگمراہ کن  پروپیگنڈے ان کی ناامیدی کی آخری کوششیں ہیں۔ ملک کے سیاسی طبقے کے وہ اشخاص اور گروہ جو اس ملت کے درد کا احساس کرتا ہے اور انہیں پرامن افغانستان پر یقین ہے، وہ مشترکہ طور پر پرامن حل کی جانب آگے بڑھتے جائینگے اور امن کے دشمن کی امیدیں ناکام رہیں گے۔ ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے