قاری نوید مسعود ہاشمی

جس حکومت کو ’’حکومت‘‘ سے ہی خطرات لاحق ہوں وہ 22کروڑ عوام کو کیا ریلیف دے سکتی ہے؟ عمران خان حکومت کو اپوزیشن سے کم اپنی حکومت کے وزیروں اور اتحادیوں سے زیادہ خطرات لاحق ہیں؟

اگر کسی کو یقین نہ آئے تو اسے چاہیے کہ وہ پنجاب اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتوں کی ’’جوتیوں‘‘ میں بٹنے والی دال کو دیکھ لے‘ عمران خان کے وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو اپوزیشن نہیں‘ بلکہ ان کی جماعت کے اندر موجود مخالفین اور مسلم لیگ ق جیسے اتحادی گرانا چاہتے ہیں۔ میڈیا کے جو عناصر وسیم اکرم’’پلس‘‘ کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں انہیں تو شہباز شریف کی  ناز ’’برداریاں‘‘ بے چین کرتی ہیں تو وہ بزدار پہ پل پڑتے ہیں‘لیکن عمران خان بھی بڑے سیانے ہیں۔ انہوں نے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے عثمان بزدار چونکہ ان کی ذاتی چوائس ہیں۔ اس لئے کیا فواد چوہدری‘ کیا مونس الٰہی اور چوہدری برادران؟ عمران خان اس حوالے سے کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں‘ اور ہوں بھی کیسے؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی ناکامی دراصل عمران خان کی ناکامی تصور ہوگی‘ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ ’’حکومت کے گھر میں آگ لگ چکی ہے…اب وزراء نہیں نظام بدلنا ہوگا‘‘ لیکن سراج لالہ کوکوئی بتائے کہ یہاں نظام نہیں وزراء ہی تبدیل ہوں گے‘ میرے سمیت باتوں کی حد تک ہر کوئی نظام بدلنے کا متمنی ہے۔ لیکن ’’نظام‘‘ بدلنے کے لئے  جو ’’راستہ‘‘ اختیار کرنا چاہیے ‘ جو قربانی دینی چاہیے وہ راستہ اختیار کرنے اور قربانی دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے‘ اس لئے فی الحال وزراء کی تبدیلی پر ہی گزارہ کیجئے۔
ویسے راولپنڈی کے شیخ رشید بھی خوب ہیں‘ کہتے ہیں کہ ’’حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘ پنجاب کے بڑے نام سمجھتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ ان کا حق ہے‘‘ ہا‘ ہا‘ ہا دال جوتیوں میں بٹنا شروع ہوچکی‘ لیکن حکومت کو ابھی بھی کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اگر پنجاب کے بڑے نام وزارت اعلیٰ کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جب تک وہ اپنا حق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرلیتے‘ تب تک انہیں سکون کیسے آئے گا؟ لیکن جب تک عمران خان بزدار کے پیچھے کھڑے ہیں‘ اس وقت تک بزدار حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘ چاہے دال جتنی مرضی جوتوں میں بٹتی رہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عثمان بزدار اپنی اعلیٰ کارکردگی سے ثابت کرتے کہ وہ وزیراعلیٰ بننے کے واقعی حقدار ہیں‘ ان 16مہینوں میں تو پنجاب میں بزدار حکومت کی کارکردگی تقریباً صفر رہی‘ اگر کہیں کوئی کارکردگی ہے تو عثمان بزدار کے ترجمانوں کو چاہیے کہ وہ سیاست‘ سیاست کھیلنے کی بجائے حکومتی کارکردگی ہم جیسے طالب علموں کے سامنے بھی رکھیں۔
عثمان بزدار کے حوالے سے بعض داستانیں ہم نے بھی سن رکھی ہیں‘ لیکن  کامل اعتبار اس لئے نہیں آیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ لاہور کی بیورو کریسی ہو یا میڈیا‘ شریفوں کی ن لیگ نے اپنے پنجے بہت دور تک گاڑ رکھے ہیں‘ لیکن پنجاب کے بڑے ناموں کے لئے اگر کوئی چھوٹا نام اپنی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر خطرہ بنتا ہے تو ہم فی سبیل اللہ اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں گے(ان شاء اللہ) لیکن یہاں خطرہ صرف پنجاب حکومت کو ہی نہیں‘ بلکہ خیبرپختونخواہ حکومت بھی خطرات کی زد میں ہے‘ سینئر وزیر عاطف خان‘ وزیر صحت شہرام ترکئی اور وزیر مال شکیل احمد کی وزارتوں سے برطرفی کو اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کے پی کے حکومت خطرات سے نکل چکی تو اس کی مرضی‘ لیکن حالات تو حکومتی مشکلات میں اضافے کی نوید سنا رہے ہیں۔
یہ تو ہوگئی تحریک انصاف کی دو صوبوں میں قائم حکومتوں کی رام کہانی‘ اب مرکز میں قائم عمران خان حکومت کی مضبوطی پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں‘ میڈیا کے بڑے بڑے گرو جس پر گندم اور آٹا بحران کی ذمہ داری ڈال چکے ہیں۔ وہ جہانگیر ترین ایم کیو ایم کو راضی کرنے  کے مشن پر گامزن ہیں‘ جس ایم کیو ایم کو عمران خان کبھی بھتہ خوروں اور قاتلوں کی فاشسٹ جماعت قرار دیا کرتے تھے۔ اس ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کے پائوں کی ٹھوکر سے کوئی مضبوطی زیر و زبر ہوتی نظر آرہی ہے۔
عمران خان مہنگائی کی ماری ہوئی قوم کو تو طعنے دیتے ہوئے فرماتے  ’’کہ ہم جنت میں جانا چاہتے ہیں‘ لیکن مرنا نہیں چاہتے‘‘ اگر بادشاہ سلامت! یہ جان چکے ہیں کہ مرے بغیر جنت نہیں مل سکتی۔ تو پھر انہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ قول و فعل کے تضاد میں مبتلا کوئی شخص مرتے دم تک ریاست مدینہ بھی قائم نہیں کر سکتا۔
جو اقتدار ایم کیو ایم کی ایک ٹھوکر برداشت نہ کر سکے‘ وہ اقتدار کم‘ رسوائی اور بدنامی زیادہ ہے‘ گزشتہ دنوں وزیراعظم کو اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ’’چیتوں‘‘ کو یہ ہدایت بھی دینی پڑی کہ ’’اہل خانہ پر لفظی حملہ کرنے والوں کو نہ چھوڑا جائے‘‘ توبہ‘ توبہ‘ توبہ‘ اللہ ہر دوست‘ دشمن کے اہل خانہ کو بدمعاشوں کے لفظی حملوں سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
سوشل میڈیا کے ذریعے وزیراعظم کے اہل خانہ پر اگر کوئی بدباطن کیچڑ اچھالے گا تو عمران  خان کے ’’چیتے‘‘ لفظی حملہ کرنے والوں کو جواب کیا دیں گے؟ یقینا ان کا جواب بھی الزامات‘ دشنام طرازیوں  اور مخالفین کی مائوں‘ بہنوں کو گالیاں دیکر ہی ہوگا۔
کیا ریاست مدینہ کے دعویدار شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو ایسی ہدایات جاری کرے‘ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ جس ملک میں وزیراعظم کے اہل خانہ ذلت آمیز پروپیگنڈے سے محفوظ  نہ ہوں‘ اس ملک میں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ یہ سارے حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ’’اخلاقیات‘‘ پستیوں کی گہری  میں دفن ہو چکی ہیں اور  اس کا ادراک وزیراعظم سمیت سب کو ہے‘ مگر اصلاح احوال کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے‘ اخلاقیات اور کردار سازی پر حکومت کیا توجہ دے؟ یہاں تو حکومتی  رتھہ پر سوار بعض شخصیات اور افسران نے جان بوجھ کر گندم اور آٹا بحران پیدا کرکے کروڑوں انسانوں کو بھوکا مارنے کی کوششیں کی‘ جس کی رپورٹ بھی وزیراعظم تک پہنچ چکی ہے لیکن حکومت ان کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکے گی‘ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت ان سولہ مہینوں میں کہیں پہ کچھ بھی بہتری نہ کر سکی‘ بلکہ اس حکومت میں حالات کی خرابی نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔

بشکریہ روزنامہ اوصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے