امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے دیرنیہ تنازع کے حل کی خاطر پیش کیے جانے والی ’ڈیل آف دی سینچری‘ نامی منصوبے میں مسئلہ فلسطین کے حل کی خاطر دو ریاستی حل کو بطور تجویز پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

’’العربیہ‘‘ اور ’’الحدث‘‘ کی واشنگٹن میں نمائندہ ناديا البلبيسی نے وائٹ ہاؤس میں مجوزہ امن منصوبے کے خد وخال سے آگاہ ذرائع کے حوالے سے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے گرد مقدس حرم اردن حکومت کی نگرانی میں رہے گا۔

ڈیل آف دی سینچری کے اعلان سے چند گھنٹے قبل العربیہ اور الحدث کو مجوزہ امن منصوبے کے نمایاں خدوخال پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ یہ امن منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر برائے مشرق وسطیٰ جیرڈ کشنر کی قیادت میں تیار کیا گیا۔

امریکی صدر نے ڈیل آف دی سینچری کے اعلان سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ’’وائٹ بلیو‘‘ نامی سیاسی جماعت کے انتخابی اتحادی بینی جینٹس کو اعتماد میں لیا، تاہم صدر ٹرمپ نے اس منصوبے پر فلسطینیوں کا اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ فسلطینیوں نے مجوزہ ڈیل آف دی سینچری کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لئے یوم غضب کی کال دے رکھی ہے۔

صدر محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی نے ڈیل آف دی سینچری کو مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے اس کے بائیکاٹ کی اپیل کر رکھی ہے۔

ذرائع نے ’’العربیہ‘‘ اور ’’الحدث‘‘ کو بتایا کہ امریکی صدر ڈیل آف دی سینچری میں زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کریں گے کہ اسرائیل کو اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے فلسطینی زمین اسرائیلی ریاست میں شامل کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ زمینی حقیقت کے اس اعتراف کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق مجوزہ امن منصوبے میں امریکا اس بات کو تسلیم کرے گا کہ اسرائیل کو غرب اردن میں فلسطینیوں کے غصب شدہ علاقے میں بننے والی یہودی بستیوں کو اسرائیل ریاست میں ضم کرنے کا اختیار ہو گا۔ غرب اردن پر قبضے کے بعد سے اسرائیل نے جو بھی اقدامات زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اٹھائے ہیں، وہ جوں کہ توں برقرار رہیں گے۔

یاد رہے امریکی انتظامیہ ڈیل آف دی سینچری میں تسلیم کئے جانے والے مجوزہ اعلان کے لئے کئی ہفتے قبل راہ ہموار کر چکی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ غرب اردن کے مقبوضہ اراضی میں بننے والی یہودی بستیوں کو غیر قانونی نہیں سمجھتی۔ گذشتہ برس 18 نومبر 2019 کو انھوں نے دیے گیے بیان میں کہا تھا کہ امریکی اعلان دراصل ’’زمینی حقائق کو درست تسلیم‘‘ کرنا ہے۔

ڈیل آف دی سینچری کے مندرجات تک بلاواسطہ یا بلواسطہ رسائی رکھنے والے ذرئع نے العربیہ کو بتایا کہ اسرائیلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ اردن کے سرحد کے ساتھ اسرائیلی فوج کی تعیناتی اور وادی ارن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے جیسے اقدامات کو مجوزہ امن منصوبے میں امریکی سند جواز بھی عطا کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے